راہگزر کے پتھر پانی لگنے لگے
لطف سفر کیا جب آسانی لگنے لگے
ارض و سما کی گردش سوچ کے ڈر جاؤں
پاؤں جما لوں میں وہ روانی لگنے لگے
میں نے جدھر بھی اس کے حوالے سے دیکھا
سارے منظر اس کی نشانی لگنے لگے
اک اک حرف اتنا دہرایا پھولوں نے
اس کے رنگ و بو کی کہانی لگنے لگے
ایک کرن اس کے آویزوں سے پھوٹی
اور دریا ساحل سب دھانی لگنے لگے
جھانک کر اس کی آنکھوں میں دیکھوں تو مجھے
کبھی بہار کبھی ویرانی لگنے لگے
کیسے چھپاؤں دل کے زخموں کو اس سے
ایسی رفاقت کیا کہ گرانی لگنے لگے
اتنی باسی نظروں سے مت دیکھ کہ زیبؔ
دو دن میں ہر چیز پرانی لگنے لگے
- کتاب : دھیمی آنچ کا ستارہ (Pg. 66)
- Author :زیب غوری
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2023)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.