رات میں بھیس بدل کر نہیں آنے والا
رات میں بھیس بدل کر نہیں آنے والا
شاید ایسا کوئی رہبر نہیں آنے والا
خون سے اپنے چراغوں کو جلانا ہے ہمیں
چاند دھرتی پہ اتر کر نہیں آنے والا
پڑھ کے دیکھے کوئی تاریخ ابابیلوں کی
حق پہ غالب کوئی لشکر نہیں آنے والا
اب یہاں اڑتے ہیں ہر سمت شکاری پنچھی
اب یہاں کوئی کبوتر نہیں آنے والا
ہم تو حالات کے خاموش تماشائی ہیں
دل میں جو کچھ ہے زباں پر نہیں آنے والا
میرا پیغام محبت ترا شیوہ نفرت
تو مرے قد کے برابر نہیں آنے والا
دل سے نکلا ہے بڑی سختیاں سہہ کر آنسو
دیکھنا لوٹ کے اب گھر نہیں آنے والا
اس کی یادوں کے اجالے ہی بہت ہیں ہم کو
جانے والا تو پلٹ کر نہیں آنے والا
کوئی دریا ہی تری پیاس بجھائے گا وسیمؔ
کام تیرے یہ سمندر نہیں آنے والا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.