رکھا ہے یوں قیام ترے در کے آس پاس
رکھا ہے یوں قیام ترے در کے آس پاس
بھنورے کی جوں اڑان گل تر کے آس پاس
جو معتبر نہیں وہ صف اولیں میں ہیں
رکھا گیا ہمیں صف کم تر کے آس پاس
کب ملتفت ہو جانے وہ سیراب کب کرے
پھرتی ہے میری پیاس سمندر کے آس پاس
ایسی قناعتوں کی ہے نعمت عطا ہوئی
جاتی نہیں ہوں میں ہوس زر کے آس پاس
ترک تعلقات تو منظور ہے مجھے
پھٹکے نہ پر رقیب ترے در کے آس پاس
بھٹکا رہا تھا قیس کو جو دشت عشق میں
رہتا ہے وہ جنون مرے سر کے آس پاس
اس زلف کی مثال شب تیرہ کے قریں
تمثیل رخ کی ماہ منور کے آس پاس
اس کائنات میں تو ہی مرکز تو ہی مدار
ہیں گردشیں مری ترے محور کے آس پاس
نسرینؔ ڈھونڈھنا ہے دل گم شدہ اگر
مل جائے گا تجھے در دلبر کے آس پاس
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.