رکھے ہر اک قدم پہ جو مشکل کی آگہی
رکھے ہر اک قدم پہ جو مشکل کی آگہی
ملتی ہے اس کو راہ سے منزل کی آگہی
سیکھا ہے آدمی نے کئی تجربوں کے بعد
طوفان سے ہی ملتی ہے ساحل کی آگہی
اس کا خدا سے رابطہ ہی کچھ عجیب ہے
دنیا کہاں سمجھتی ہے سائل کی آگہی
نظروں کا اعتبار تو ہے پھر بھی میرا دل
ہے اک صحیفہ جس میں مسائل کی آگہی
دن رات جس کے پیار میں رہتی ہوں بے قرار
اس کو نہیں ہے کیوں دل بسمل کی آگہی
یادوں کے اک ہجوم میں رہ کر پتا چلا
تنہائی بھی تو رکھتی ہے محفل کی آگہی
خنجر کا اعتبار نہیں وہ تو صاف ہے
لیکن ملے گی خون سے قاتل کی آگہی
مشق سخن سبیلہؔ نکھارے گی فن کو اور
مطلوب ہے کچھ اور ابھی دل کی آگہی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.