رقص میں ساتھ جو صحرا کو بھی ڈھالے ہوئے ہیں
رقص میں ساتھ جو صحرا کو بھی ڈھالے ہوئے ہیں
یہ کسی شہر تمنا کے نکالے ہوئے ہیں
رنگ و روغن ہیں ترے جسم کا یہ گرد و غبار
تیری زلفیں ہیں بدن پر جو یہ جالے ہوئے ہیں
آہ کو ساز بناتے ہیں دکھوں کی رت میں
دل شکستہ ہیں پر آواز سنبھالے ہوئے ہیں
دیکھیے اور ہمیں دیکھ کے حیرت کیجے
وہ ہرن ہیں کہ جو برسات میں کالے ہوئے ہیں
کون سی آگ میں جلتا ہے یہ اندر اندر
بہتے دریا کے بدن پر جو یہ چھالے ہوئے ہیں
میں نے خود اپنی تباہی کے مزے لوٹے ہیں
اور حیران مرے چاہنے والے ہوئے ہیں
قید ہو پانا خیالوں کا کہاں ممکن ہے
ویسے زنجیر تو ہم پاؤں میں ڈالے ہوئے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.