ساحلوں کا بھی نہ احساں تھا گوارا مجھ کو
ساحلوں کا بھی نہ احساں تھا گوارا مجھ کو
اتنا دریا کے تلاطم نے سنوارا مجھ کو
پیاس ایسی ہے کہ اندر سے سلگتا ہے بدن
اور پانی کے سوا کچھ نہیں چارا مجھ کو
اب تو دامن کو لپکتے ہیں لہو کے شعلے
اور پکارے ہے کہیں خون کا دھارا مجھ کو
خوں بہا لے کے ابھی خیر سے پلٹے بھی نہ تھے
مقتل خوف میں پھر کس نے پکارا مجھ کو
پاسداری کی جڑیں میں نے ہلا کر رکھ دیں
وہ سمجھتے تھے فقط اینٹ اور گارا مجھ کو
اجنبی شہر کی بیگانہ مزاجی کے خلاف
میرے سائے نے دیا کتنا سہارا مجھ کو
درد ہی درد کماتے ہو مگر کہتے ہو
عشق کے کھیل میں ہوتا ہے خسارہ مجھ کو
سرمئی شام کے چہرے پہ حیا کا آنچل
اچھا لگتا ہے بہت ایسا نظارہ مجھ کو
میں تو جگنو کی طرح شب میں پریشاں حیراں
رات بھی کہتی ہے آوارہ ستارہ مجھ کو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.