سفید پوش درندوں نے گل کھلائے تھے
سفید پوش درندوں نے گل کھلائے تھے
زمین سرخ ہوئی سبز کرنے آئے تھے
سمجھ لیا تھا جنہیں میں نے روشنی کا سفیر
وہ آستین میں خنجر چھپا کے لائے تھے
مسافروں کو گھنی چھاؤں لے کے بیٹھ گئی
درخت راہ کے دونوں طرف لگائے تھے
مجھے بھی چاروں طرف تشنگی نے دوڑایا
مری نگاہ پہ آب رواں کے سائے تھے
مجھے غرور ہے میں دوستوں کی نیکی ہوں
انہیں خوشی ہے کہ دریا میں ڈال آئے تھے
مرے عزیز تھے وہ قبر کھود کے رکھ دی
مجھے جو دے گئے مٹی وہ سب پرائے تھے
ہوا تو اپنا قرینہ بدل نہیں سکتی
چراغ آپ نے کس زعم میں جلائے تھے
مأخذ:
Rooh-e-Ghazal,Pachas Sala Intekhab (Pg. 448)
-
- اشاعت: 1993
- ناشر: انجمن روح ادب، الہ آباد
- سن اشاعت: 1993
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.