سہل تھا جان آفریں تنہا تمہارے تیر کا
سہل تھا جان آفریں تنہا تمہارے تیر کا
کام لیتا ہوں دل ناچیز سے اکسیر کا
کاکل جاناں سے ملنا حلقۂ زنجیر کا
دیکھو اب انجام کیا ہو وحشئ دلگیر کا
ساتھ کس عالم میں چھوٹا گردش تقدیر کا
ہے اسیری کا کہیں غم اور کہیں زنجیر کا
تم ہی جانو ناوک مژگاں تھا کس تاثیر کا
خون کا رشتہ مگر ملتا ہے دل سے تیر کا
رہنمائے دل دعا دیتے ہیں تم کو رات دن
ذکر اکثر ہوتا رہتا ہے تمہارے تیر کا
ہو چکے ہیں غالباً اب دن اسیری کے تمام
قید میں خود بہہ گیا آہن مری زنجیر کا
کوہ کن اور قیس پھر واپس بلائے جائیں گے
کوہ اور صحرا میں منصوبہ ہے جوئے شیر کا
حسن شیریں دیکھ کر ہی مر تو جاتا کوہ کن
تھا مگر تقدیر میں لانا بھی جوئے شیر کا
حسن ظن کہہ لیجئے یا پھر فریب آگہی
اور زیادہ کچھ پتا چلتا نہیں تقدیر کا
لوح مرقد پر یہ لکھوا دیجئے حضرت قدیرؔ
آخری زینہ ہے یہ انسان کی تعمیر کا
مأخذ:
آئینہ جذبات (Pg. 34)
- مصنف: قدیر پیارے پوری
-
- ناشر: سید عرفان قدیر
- سن اشاعت: 2015
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.