شمع نے جیسے رات سر کی ہے
شمع نے جیسے رات سر کی ہے
ہم نے بھی اس طرح سحر کی ہے
کوئے قاتل کہیں کہیں زنداں
کوئی صورت کہاں مفر کی ہے
اپنی اپنی صلیب اٹھا کے چلو
صورت اب تو یہی سفر کی ہے
منصفو حرف معذرت کیسا
ہر خطا ہم نے سوچ کر کی ہے
کتنی صدیوں کی داستان طویل
چند اشکوں نے مختصر کی ہے
شب کا افسانہ باندھنے والو
یہ بھی تمہید اک سحر کی ہے
سانس کے قافلے کا رک جانا
ابتدا اک نئے سفر کی ہے
جیسے صحرا میں آن بیٹھے ہوں
صورت ایسی کچھ اپنے گھر کی ہے
دشمنوں کا تو کچھ گلہ ہی نہیں
بات یاران معتبر کی ہے
متن کچھ اور سرخیاں کچھ اور
شکل بگڑی ہوئی خبر کی ہے
سچ اگر اک خطا ہے یزدانیؔ
یہ خطا ہم نے عمر بھر کی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.