سخن کچھ ایسے لہو کے لبوں سے نکلے ہیں
سخن کچھ ایسے لہو کے لبوں سے نکلے ہیں
خود آگہی میں ہم اپنی حدوں سے نکلے ہیں
کوئی بتاؤ یہ نیرنگیٔ نمو کیا ہے
چبھے جو پاؤں میں کانٹے سروں سے نکلے ہیں
یہ دھوپ ایسی کہ ہم نقش جس پہ نام بنام
یہ دشت وہ ہیں جو اپنے گھروں سے نکلے ہیں
ہم اور محور جاں کا یہ دور خاک بہ خاک
ستارہ گر بھی کبھی گردشوں سے نکلے ہیں
شبیہ گر ہیں کچھ ایسے کہ ہم برون بدن
بس ایک ضو کو لئے سو رخوں سے نکلے ہیں
یہ تہ بہ تہ جو زمانے زمیں کے اندر ہیں
سنور سنور کے ہم ان کی صفوں سے نکلے ہیں
- کتاب : شام کے بعد کچھ نہیں (Pg. 63)
- Author :شاہین عباس
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2018)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.