سکوں دینے لگا ہے ہجر اب آہستہ آہستہ
سکوں دینے لگا ہے ہجر اب آہستہ آہستہ
کہیں مٹ جائے نا تیری طلب آہستہ آہستہ
ہوئے جاتے ہیں اقلیم سخن کے جوں مکیں رخصت
نہ غم خانہ بنے بزم طرب آہستہ آہستہ
بتاشے سے گھلے جاتے ہیں اس کا نام لینے سے
ہوئے جاتے ہیں کیسے شیریں لب آہستہ آہستہ
یہ کیسی سرکشی بچوں کے ذہنوں میں ہے در آئی
ہوا رخصت بزرگوں کا ادب آہستہ آہستہ
پلاؤ زہر مت انساں کو نفرت کا تعصب کا
بنے گا یہ تباہی کا سبب آہستہ آہستہ
نجانے زندگی کا کب تماشہ ختم ہو جائے
سمیٹو تام جھام اپنا یہ سب آہستہ آہستہ
دمکتے رخ ستارہ آنکھ پر نسریںؔ گماں کیسا
پڑے گی ماند ساری تاب و تب آہستہ آہستہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.