سن لیتا ہے بندوں کی دعا کچھ نہیں کہتا
سن لیتا ہے بندوں کی دعا کچھ نہیں کہتا
سب دیکھتا رہتا ہے خدا کچھ نہیں کہتا
وہ دن بھی تھے جب تاب نظر بھی نہ تھی اس کو
اب کھلتا ہوا بند قبا کچھ نہیں کہتا
پہنچے کوئی منزل پہ کہ رستے ہی میں رہ جائے
یہ رستہ یہ نقش کف پا کچھ نہیں کہتا
یہ وضع محبت ہے کہ پتھر کے بھی آگے
جھکتا ہوں تو پندار آنا کچھ نہیں کہتا
''مدت ہوئی لفظوں سے جدا ہو گئے معنی
پھر بھی کوئی بے حرف و نوا کچھ نہیں کہتا
کیا شکوہ ستمگر ہے کہ اب تو مرے حق میں
کچھ دن سے کوئی اہل وفا کچھ نہیں کہتا
یہ رسم ہے کیسی کہ ترے شہر میں کوئی
چپکے سے بہ انداز و ادا کچھ نہیں کہتا
اب کیوں تری آنکھوں میں نہیں رنگ تکلم
اب کیوں ترا انداز و ادا کچھ نہیں کہتا
نجمیؔ مجھے اک جان غزل سے ہے جو الفت
کہتا ہوں غزل اس کے سوا کچھ نہیں کہتا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.