تخیل کے کماں سے یوں سخن کا تیر نکلا ہے
تخیل کے کماں سے یوں سخن کا تیر نکلا ہے
کہ میرا شعر تو پتھر دلوں کو چیر نکلا ہے
وہی اک خواب بے تعبیر جو آنکھوں میں آیا تھا
وہ بن کے اشک ان پلکوں سے پر تاثیر نکلا ہے
وہ قصہ عشق کا تحریر ہے دیوار پر لیکن
وجود اس کا حقیقت میں پس تعمیر نکلا ہے
سمجھ جس کو رہے تھے ہم فقط دو چار دن کا غم
وہ ایسا ہجر ہے جو مسئلہ گمبھیر نکلا ہے
یہاں جو کر رہا تھا تبصرا کردار پر میرے
مرے آتے ہی بیچارہ بلا تاخیر نکلا ہے
دل افشارؔ پر اس نے اک ایسا اسم پھونکا ہے
کہ سینے کے قفس سے توڑ کر زنجیر نکلا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.