تلاش یار میں جاں سے گزر کے دیکھتے ہیں
تلاش یار میں جاں سے گزر کے دیکھتے ہیں
جو خاک ہیں تو زمیں پر بکھر کے دیکھتے ہیں
وہ کس نے دیکھی ہے گہرائی شام فرقت کی
افق کے پار زمیں پر اتر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کی نگاہیں شکار کرتی ہیں
کرشمے ہم بھی چلو فتنہ گر کے دیکھتے ہیں
اگر گلاب ہی ان کو پسند آتے ہیں
تو کیوں نہ آج سے ہم بھی سنور کے دیکھتے ہیں
یہ کون شخص ہے جانے کدھر سے آیا ہے
دیوانے سارے ہمیں شہر بھر کے دیکھتے ہیں
خدا انہیں تو برے دن کبھی نہ دکھلائے
وہ حوصلے جو ہمارے جگر کے دیکھتے ہیں
ہماری آنکھوں میں چشمے سے پھوٹ پڑتے ہیں
کبھی کبھی وہ ہمیں آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
کلیجہ تھام کے رکھنا اے دوست محفل میں
وہ کیا سے کیا نہ ستم ہم پہ کر کے دیکھتے ہیں
ہمارے سر پہ قیامت سی ٹوٹ پڑتی ہے
کبھی زمیں سے ذرا سا ابھر کے دیکھتے ہیں
تلاش یار میں رہتی ہے میری تنہائی
دیار غیر میں کیا کیا نہ کر کے دیکھتے ہیں
مرا ہی عکس ہے مجھ سے خفا خفا برہمؔ
تو کیوں نہ اس کے ہی ہاتھوں سے مر کے دیکھتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.