Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ٹھہر جاوید کے ارماں دل مضطر نکلتے ہیں

رشید لکھنوی

ٹھہر جاوید کے ارماں دل مضطر نکلتے ہیں

رشید لکھنوی

MORE BYرشید لکھنوی

    ٹھہر جاوید کے ارماں دل مضطر نکلتے ہیں

    کھڑے ہیں منتظر ہم گھر سے وہ باہر نکلتے ہیں

    اسیران کہن معتوب ہو ہو کر نکلتے ہیں

    کہ زنداں سے جنازے اٹھتے ہیں بستر نکلتے ہیں

    نہیں معلوم منہ سے دل جگر کیوں کر نکلتے ہیں

    ہم ان سے پوچھ لیں گے چھوڑ کے جو گھر نکلتے ہیں

    خبر لیتا نہیں غربت میں کوئی پا شکستہ کی

    جہاں ہم ہیں ادھر سے قافلے اکثر نکلتے ہیں

    کبھی مدفوں ہوئے تھے جس جگہ پر کشتۂ ابرو

    ابھی تک اس زمیں سے سیکڑوں خنجر نکلتے ہیں

    ہر اک معشوق کے دفتر میں ہم مقتول لکھے ہیں

    جہاں دیکھو ہمارے نام کے دفتر نکلتے ہیں

    نہیں ہے ایک حرف تلخ کی جاگو مرے دل میں

    مگر پوچھو تو شکوؤں کے ابھی دفتر نکلتے ہیں

    جوانی سے تکلف بڑھ گیا ہے میرے ساقی کا

    شراب کہنہ آئی ہے نئے ساغر نکلتے ہیں

    ہزاروں مفسدے در پر بپا رہتے ہیں اے قاتل

    ترے کوچے سے لاکھوں فتنۂ محشر نکلتے ہیں

    ابھی فرصت نہیں اے اہل محشر سب فرشتوں کو

    ٹھہر جاؤ مرے اعمال کے دفتر نکلتے ہیں

    جو کر کے ضبط ساتھ اشکوں کے ہیں آنے نہیں دیتا

    صدا دیتا ہے دل پہلو سے ہم باہر نکلتے ہیں

    ہوا ہے سخت مشکل دفن ہونا تیرے وحشی کا

    جہاں پر قبر کھودی جاتی ہے پتھر نکلتے ہیں

    بہار آئی مبارک عاشق و معشوق کو ملنا

    کہ کلیاں پھوٹتی ہیں بلبلوں کے پر نکلتے ہیں

    سوا قلب و جگر کے مملکت میں عشق کی کیا ہے

    اگر ڈھونڈھو تو یہ اجڑے ہوئے دو گھر نکلتے ہیں

    نظر کے خوف سے کتری گئیں ہیں ان کی واں پلکیں

    مری رگ رگ سے یاں ٹوٹے ہوئے نشتر نکلتے ہیں

    سمجھ کے جن کو جگنو باندھتے ہو اپنے دامن میں

    شرر یہ شب کو میرے دل سے اے دلبر نکلتے ہیں

    نشاں قلب و جگر کا آنسوؤں سے صاف کیا پاؤں

    کہ وہ تو کشتیاں ڈوبی ہیں سو لنگر نکلتے ہیں

    کشیدہ ان کے ابرو ہیں نگاہیں تیز ہوتی ہیں

    کمانیں کھنچ رہی ہیں میان سے خنجر نکلتے ہیں

    جگر دل آتے ہیں آنکھوں سے باہر جمع ہیں آنسو

    کہ اپنے ملک سے سلطاں مع لشکر نکلتے ہیں

    خیال اتنا تو ہے تیرے گلے کا ہار ہوں شاید

    گل تر باغ سے ہنستے ہوئے باہر نکلتے ہیں

    جہنم سے کوئی کہہ دے ذرا ہشیار ہو جائے

    غضب کا وقت ہے قبروں سے دامن تر نکلتے ہیں

    توقع اٹھ گئی آنے کی بالکل یوں اٹھایا ہے

    کہ آج ان کی گلی سے ہم مع بستر نکلتے ہیں

    کروں کیوں کر نہ تعظیم اس کی میں لائے جو خط اس کا

    کہ اکثر اس طرح کے لوگ پیغمبر نکلتے ہیں

    قفس میں ہم صفیران چمن کیوں چھوڑے جاتے ہو

    ذرا دو دن ٹھہر جاؤ ہمارے پر نکلتے ہیں

    جگر داری کا دعویٰ مٹ گیا ہر شخص کہتا ہے

    جو دونوں ہاتھ ہم رکھے ہوئے دل پر نکلتے ہیں

    رشیدؔ آغاز الفت سے کہیں انجام بہتر ہے

    کہ بحر عشق کے ڈوبے لب کوثر نکلتے ہیں

    مأخذ:

    Gulistan-e-Rasheed (Pg. ghazal-46 page-51)

    • مصنف: Piyare Sahab Rasheed
      • اشاعت: 1952
      • سن اشاعت: 1952

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے