توڑ لے شاید مہر خموشی دل کی گرہیں کھولے ٹک
توڑ لے شاید مہر خموشی دل کی گرہیں کھولے ٹک
بیٹھے ہیں چپ آس لگائے کاش وہ ہم سے بولے ٹک
بڑھنے لگے پھر شام کے سائے جلنے لگے یادوں کے دیے
درد محبت مجھ سے لپٹ کر تو بھی تڑپ لے رو لے ٹک
دنیا دنیا حرص و ہوا ہے آنسو کا کچھ مول نہیں
دریا دریا رونے والے دامن دل کا دھو لے ٹک
میں بھی سمجھوں میرا بھی ہے اپنا کوئی دنیا میں
جیون کی سنسان ڈگر میں ساتھ مرے تو ہو لے ٹک
دیکھوں ان کی زلف کا سایہ کاش کبھو ایسا بھی ہو
شام ڈھلے جب رات کی رانی اپنا جوڑا کھولے ٹک
زہر بھری دنیا سے یارو چلنا ہے تو اس پاس چلو
شاید ہونٹوں کی اک جنبش رس کانوں میں گھولے ٹک
جینے کو بس ایک تبسم ایک نظر بھی کافی ہے
اور کہیں دو بول محبت کے وہ ہم سے بولے ٹک
جام و سبو کی آگ میں کتنے پھول کھلے ہیں یادوں کے
پیار کی اس البیلی رت میں بین کے تار سنجو لے ٹک
رات کے مبہم سناٹے میں یادوں کی پرچھائیں میں
رو دے ہے رت شبنم شبنم پیاسے نین بھگو لے ٹک
غم کی آنچ سے جب دل پگھلا جام بنا میخانے کا
بعد کو جام اٹھانا پہلے روح میں درد سمو لے ٹک
کیسے کیسے جیب و گریباں چاک ہوئے ہیں ساری رات
صبح بہاراں نے تب جا کر گھونگھٹ کے پٹ کھولے ٹک
شعر و سخن کے شہ پاروں میں رنگ ابھی کچھ بھرنا ہے
اے فن کار تو اپنی پلکیں خون دل میں ڈبو لے ٹک
کتنی راتیں آنکھوں ہی آنکھوں میں کاٹی ہیں جاویدؔ
شاید وہ سپنے میں آویں موند لے آنکھیں سو لے ٹک
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.