تحفہ یہ محبت کی نظر چھوڑ گئی ہے
کچھ کچھ خلش درد جگر چھوڑ گئی ہے
پیمانے میں ساقی کی نظر مے کی جگہ پر
پینے کے لئے خون جگر چھوڑ گئی ہے
جس راہ سے خود گردش دوراں بھی نہ گزری
وہ میرے لئے راہ گزر چھوڑ گئی ہے
تنظیم چراغاں کے لئے ڈھونڈھ کے مجھ کو
گھنگھور اندھیروں میں سحر چھوڑ گئی ہے
مرجھا نہ سکا جو کبھی گرمیٔ خزاں سے
اس پھول کو گلچیں کی نظر چھوڑ گئی ہے
کیا سوچ کے مشاطۂ ضو روئے افق پر
الجھے ہوئے گیسوئے سحر چھوڑ گئی ہے
اے مصلحت وقت یہ کیوں آتش حالات
بستی میں اکیلا مرا گھر چھوڑ گئی ہے
میں قتل ہوا ہوں تو مرے خون کی ہر بوند
تاریخ کے دامن پر اثر چھوڑ گئی ہے
پڑتے ہی کمالؔ اس کی نظر مجھ پہ بصد ناز
الزام محبت مرے سر چھوڑ گئی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.