تمہاری یاد کو ہم نے پلک پر یوں سجا رکھا
تمہاری یاد کو ہم نے پلک پر یوں سجا رکھا
اندھیری رات میں ہر روز آنگن میں دیا رکھا
لبوں سے گفتگو ہوتی تو کچھ شکوہ نہ ہو پاتا
نظر سے جب سنا اس کو تبسم سے گلا رکھا
گیا پردیس بیٹا جب بھی لے کر خواب سب اپنے
تو پھر دن رات ماں نے اپنی آنکھوں کو کھلا رکھا
دوالی عید میں اکثر کھلونے بیچتا ہے اب
یہ وہ بچہ ہے جس نے اپنی خواہش کو دبا رکھا
وہاں اک چاند سی لڑکی بھی رہتی ہے یہ جانا تب
دریچے کی حیا کو جب دوپٹے سے اڑا رکھا
یہ روشن دان سے معصوم سی تتلی چپکتی ہے
اسی آہٹ کو ہم نے اپنی غزلوں کی صدا رکھا
یہ دہشت گرد سڑکیں ہیں مجھے کب قتل کر ڈالیں
کسی کاغذ کے پرزے میں میں اپنا بھی پتا رکھا
کہیں دلی کی سڑکوں پر بھلا انصاف ملتا ہے
مگرمچھوں کے آنسو کو سیاست نے بہا رکھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.