تو بے خبر ہو تو کچھ حال دل سناؤں تجھے
تو بے خبر ہو تو کچھ حال دل سناؤں تجھے
جو زخم تو نے دئے ہیں میں کیا دکھاؤں تجھے
قریب آ کے کبھی بیٹھ بے نیاز مرے
کہ میرا تیرا تعلق ہے کیا بتاؤں تجھے
میں دھوپ روک کے سورج کے سامنے ہو جاؤں
اور اپنی چھاؤں میں گھر آئے تو بٹھاؤں تجھے
میں بت پرست نہ پتھر کا کوئی بت ہے تو
یہ کیا کہ تو نہ سنے میری جب بلاؤں تجھے
کبھی مجھے مرے کاندھے پہ ہاتھ رکھ کے بلا
پلٹ کے دیکھوں تو اپنے قریب پاؤں تجھے
تو نور ہے تو اجالوں سے میرا گھر بھر دے
کہ شام ہو تو دیے کی طرح جلاؤں تجھے
سنا سنا کے مجھے قصے مت ڈرا مجھ کو
تو ایک شعلہ سہی آ گلے لگاؤں تجھے
لپیٹ رکھا ہے انگلی پہ وقت کو میں نے
ازل دکھاؤں کہ روز ابد دکھاؤں تجھے
وہ ہنس رہا ہے پس پردہ دیکھ کر مجھ کو
اب ایسے اپنا تماشہ بھی کیا دکھاؤں تجھے
میں اپنا دل ترے سینے میں اب کے رکھ دوں گا
یہ سوچتا ہوں کہ اک بار پھر بناؤں تجھے
یہ راستہ کہ جدھر زیبؔ جا رہے ہیں ہم
پتہ نہیں مجھے خود بھی تو کیا بتاؤں تجھے
- کتاب : دھیمی آنچ کا ستارہ (Pg. 20)
- Author : زیب غوری
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2023)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.