امیدوں کو آگ لگائے رستہ کھولے بیٹھا ہوں
امیدوں کو آگ لگائے رستہ کھولے بیٹھا ہوں
میرا عشق اسے پنجرہ تھا پنجرہ کھولے بیٹھا ہوں
چاہے مجھ کو شاعر بولو چاہے مجھ کو دیوانہ
ہاتھ میں کچھ غزلوں کو تھامے ماتھا کھولے بیٹھا ہوں
وہ اب جانے کس کی خاطر زلفیں کھولے پھرتی ہے
میں اب جانے کس کی خاطر سینہ کھولے بیٹھا ہوں
دل کوئی کشکول ہے تھوڑی جو خیرات سے بھر جائے
کل ایمان سمیٹے آؤ کعبہ کھولے بیٹھا ہوں
کون خدا تاریخ سے لڑ کر خوف کا باب نکالے گا
خون سے لت پت لاش پہ بیٹھا بستہ کھولے بیٹھا ہوں
ہائے کیا طوفان چھپا پھرتا تھا میری نس نس میں
ایک کلائی کاٹ کے بہتا دریا کھولے بیٹھا ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.