ورق ورق میری داستاں ہے شکار ہوں اپنی آگہی کا
ورق ورق میری داستاں ہے شکار ہوں اپنی آگہی کا
سمندروں سے فریب کھا کر سراغ پایا ہے تشنگی کا
میں اپنی مشکل پسند فطرت سے قرض لے کر جفا کشی کا
کہیں بیاباں میں جا بسوں گا جہاں اجارہ نہ ہو کسی کا
مری سماعت کے سارے جنگل نوا کے شعلوں سے جل رہے ہیں
مرے علاقے پہ کس قیادت نے جال پھینکا ہے روشنی کا
جہاں کہیں علم کی قناعت نے وہم کے حوصلے بڑھائے
وہیں تعقل کی مخبری نے غرور توڑا ہے بندگی کا
میں اپنے باطن کے زلزلوں کی تباہ کاری سے بچ تو نکلا
کھڑا ہوں آتش فشاں کی زد پر بھلا ہوا احساس کمتری کا
یہ شہر اہل کرم ہے طالبؔ یہ لوگ ہیں لائق تماشا
ہو خواہش دید مثل غالبؔ تو سوانگ بھر لو گداگری کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.