وہ بن کر بے زباں لینے کو بیٹھے ہیں زباں مجھ سے
کہ خود کہتے نہیں کچھ اور کہلواتے ہیں ہاں مجھ سے
بہت کچھ حسن ظن رکھتا ہے میرا مہرباں مجھ سے
کہ تہمت دھر کے ہے خواہان تائید بیاں مجھ سے
کسی گل کی قبا ملتی نہیں تحریق سے خالی
جنوں نے لے کے بانٹی ہیں یہ کتنی دھجیاں مجھ سے
پلا ساقی کہ رہ جائے خمار کیف کا پردہ
بس اب رکتیں نہیں آتی ہوئی انگڑائیاں مجھ سے
جو گل کو گل نہ سمجھو گے تو کانٹوں ہی میں الجھو گے
نہ دو اپنے کو دھوکا آپ ہو کر بد گماں مجھ سے
بہت جلدی نہ کر اے چشم تر کچھ دیر کو دم لے
بیاں کرنا وہ تو رہ جائے جتنی داستاں مجھ سے
مثال شمع اپنی آگ میں کیا آپ جل جاؤں
قصاص خامشی لے گی کہاں تک اے زباں مجھ سے
ہوئیں تا دیر پہچانی ہوئی آواز میں باتیں
وہ کچھ کچھ کھل چلے ہیں رکھ کے پردہ درمیاں مجھ سے
تصور کی نظر پردوں کے روکے رک نہیں سکتی
بتا او جانے والے چھپ کے جائے گا کہاں مجھ سے
اگر اے آرزوؔ ہر سانس دل کی آہ بن جائے
نہ ہوگی ختم پھر بھی میری لمبی داستاں مجھ سے
مأخذ:
Nishaan-e-Aarzu (Pg. ebook-134 page-124)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.