وہ چھپ کر آئے ہیں گھبرا رہے ہیں
وہ چھپ کر آئے ہیں گھبرا رہے ہیں
پسینوں پر پسینے آ رہے ہیں
جو کل تک ایک ننھی سی کلی تھے
وہ غنچے پھول بنتے جا رہے ہیں
جوانی اور پھر ان کی جوانی
قیامت پر قیامت ڈھا رہے ہیں
نفس کی آڑ میں اب ہر نفس وہ
برابر آ رہے ہیں جا رہے ہیں
سر محفل وہ بیٹھے ہنس رہے تھے
مجھے دیکھا تو اب شرما رہے ہیں
لبوں پر ان کے رقصاں ہے تبسم
نظر سے بجلیاں برسا رہے ہیں
وہ غنچے کھل کے ہوں گے خود پشیماں
نہ کھل کر آج جو پچھتا رہے ہیں
یہ تیرا شعبدہ ہے یا کہ دل کا
جہاں جاتے ہیں تجھ کو پا رہے ہیں
یوں ہی اک دن وہ آ جائیں گے خود بھی
خیال ان کے تو اکثر آ رہے ہیں
جنوںؔ ان نرگسی آنکھوں کے آگے
کنول کے پھول بھی شرما رہے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.