وہ جن کا تن بدن دھانی بہت ہے
دلوں میں ان کے ویرانی بہت ہے
لباس نو بہ نو حاصل ہیں جن کو
انہیں کے تن پہ عریانی بہت ہے
میں اک مدت سے یوں ہی جل رہا ہوں
مرے چاروں طرف پانی بہت ہے
تقاضا ان سے کیا کرتے وفا کا
کہ دل اپنا بھی سیلانی بہت ہے
نہ برکھا ہے نہ کوئی بند ٹوٹا
ندی میں پھر بھی طغیانی بہت ہے
خدا جانے کہ من اس کا ہے کیسا
بدن تو اس کا نورانی بہت ہے
جسے دیکھا تھا کل آج اس سے مل کر
نہ جانے کیوں پشیمانی بہت ہے
نگاہوں میں بصیرت ہو تو نجمیؔ
اندھیروں میں بھی تابانی بہت ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.