وہ جو سب کچھ ہے اسے دور بٹھا رکھا ہے
وہ جو سب کچھ ہے اسے دور بٹھا رکھا ہے
خواہشیں ہیں جنہیں معبود بنا رکھا ہے
کچھ تو ہے تیرگیٔ دل میں اجالے کے لیے
تو نہیں ہے تری یادوں کو بلا رکھا ہے
ہر کوئی اپنے ہی پرتو میں ہے سرگرم سفر
میں نے ماحول کو آئینہ دکھا رکھا ہے
اس کا باطن بھی ہے خورشید قیامت کی طرح
یہ جو اک طاق میں چھوٹا سا دیا رکھا ہے
ایک لحظہ مری تنہائی میں آ کر دیکھو
میں نے زنداں میں بھرا شہر بسا رکھا ہے
سر دربار جو پوچھو تو مرا جرم ہے یہ
میں نے کیوں شہر میں آنکھوں کو کھلا رکھا ہے
کبھی دو بول محبت کے بھی اے جان صفیؔ
جب بھی دیکھو ترے ہونٹوں پہ لگا رکھا ہے
- کتاب : اردو غزل کا مغربی دریچہ(یورپ اور امریکہ کی اردو غزل کا پہلا معتبر ترین انتخاب) (Pg. 366)
- مطبع : کتاب سرائے بیت الحکمت لاہور کا اشاعتی ادارہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.