وہ ظلم و ستم ڈھائے اور مجھ سے وفا مانگے
وہ ظلم و ستم ڈھائے اور مجھ سے وفا مانگے
جیسے کوئی گل کر کے دیپک سے ضیا مانگے
جینا بڑی نعمت ہے جینے کا چلن سیکھیں
اچھا تو نہیں کوئی مرنے کی دعا مانگے
غم بھی ہے اداسی بھی تنہائی بھی آنسو بھی
سب کچھ تو میسر ہے دل مانگے تو کیا مانگے
آئین وطن پر تو دل وار چکے اپنا
ناموس وطن ہم سے اب رنگ حنا مانگے
اوقات ہے کیا اس کی وہ پیش نظر رکھے
انساں نہ کوئی اپنے دامن سے سوا مانگے
رمتا ہوا جوگی ہوں بہتا ہوا پانی ہوں
ہرگز نہ کوئی مجھ سے اب میرا پتا مانگے
پھر چہرۂ قاتل کی نظروں کو ضرورت ہے
پھر کوچۂ قاتل کی دل آب و ہوا مانگے
وہ سیر گلستاں کو فردوسؔ جو آ جائے
مسکان کلی چاہے رفتار صبا مانگے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.