یے آنکھ ہے تو اسے ایسی اب جلا مل جائے
یے آنکھ ہے تو اسے ایسی اب جلا مل جائے
پرت دلوں کی کھلیں درد کا پتہ مل جائے
یہ کھیل بھی ہو ہوس اپنے ہاتھ لمبائے
کہیں بھی ہو وہ مری گود میں پڑا مل جائے
گرا ہی دوں میں ابھی ہفت رنگ دیواریں
بکھر ہی جاؤں اگر سر پھری ہوا مل جائے
ملے پھر ایسی زمیں جس کا اور چھور نہ ہو
پھر اس زمیں پہ ہمیں آسماں دھرا مل جائے
کبھی تو باغ کا پیغام دشت میں آئے
کہیں تو ریت پے چلتی ہوئی ہوا مل جائے
گزر ہمارا بھی سنسان جنگلوں میں ہو
ہمیں بھی آگ کے بدلے کہیں خدا مل جائے
اترتا ڈوبتا جاتا ہوں چپ کے دریا میں
کسی کی چیخ کوئی دور کی صدا مل جائے
- کتاب : لفافے میں روشنی (Pg. 77)
- Author : محمد علوی
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2018)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.