یہ بات ان کی طبیعت پہ بار گزری ہے
یہ بات ان کی طبیعت پہ بار گزری ہے
کہ زندگی مری کیوں خوشگوار گزری ہے
خوشی سے زندگیٔ غم گزارنے والو
خزاں تمہارے ہی دم سے بہار گزری ہے
نہیں اٹھائے ہیں اپنوں کے بھی کبھی احساں
ہزار شکر کہ بیگانہ وار گزری ہے
دل غریب کو گھر کا ہوا نہ چین نصیب
اسے تو عمر سر رہ گزار گزری ہے
نشیمن اپنا ہے پھر برق و باد سے سرشار
نئی بہار بھی کیا سازگار گزری ہے
کوئی مسرت لذت مجھے نہ درد کا غم
مری تو زیست ہی مستانہ وار گزری ہے
یہ سادگی تو ذرا دیکھیے وہ پوچھتے ہیں
کہ زندگی تری کیوں بے قرار گزری ہے
میں اپنے دعوائے الفت سے آج باز آیا
گزر گئی ہے مگر شرمسار گزری ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.