یہ جو رستہ ہے یہ زنجیر مسلسل تو نہیں
یہ جو رستہ ہے یہ زنجیر مسلسل تو نہیں
اس کے آگے مری حیرانی کا جنگل تو نہیں
طوق گردن کی خراشوں نے جگا کر پوچھا
بول پاؤں ترے زنجیر سے گھائل تو نہیں
اے فلک زاد بتا کیا ہے حقیقت تیری
چاند ہے تو کوئی اڑتا ہوا بادل تو نہیں
یہ جو ساون میں یہاں آتی ہیں پیاسی کونجیں
میری آنکھوں میں کسی ہجر کی دلدل تو نہیں
سرسراہٹ تری خوشبو کی کبھی پوچھتی ہے
جسم مخمل ہے ترا سایۂ مخمل تو نہیں
زرد پتوں کی سسکتی ہوئی تنہائی پر
اے مرے عشق کی دیوی ترا آنچل تو نہیں
تیرے قدموں کے نشاں سے میں اٹھا لایا اسے
یہ کسی یاد کی کھوئی ہوئی پائل تو نہیں
تو نے دیکھا ہے شفقؔ جھانک کے ان میں کئی بار
بول ان آنکھوں میں مرے خواب کا کاجل تو نہیں
کیوں الجھتا ہے ان احسان فراموشوں سے
او شفقؔ کیا ہوا ہے یار تو پاگل تو نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.