یہ کیسی بے بسی ہے خود کو کھونا چاہتا ہوں میں
یہ کیسی بے بسی ہے خود کو کھونا چاہتا ہوں میں
یہ سب جیسے ہیں بس ویسا ہی ہونا چاہتا ہوں میں
ہوس پانے کی ہے کچھ اور نہ کھونا چاہتا ہوں میں
محبت میں تری مشہور ہونا چاہتا ہوں میں
بچایا لاکھ پھر بھی جسم جھوٹا ہو گیا میرا
تری خاطر اسے زمزم سے دھونا چاہتا ہوں میں
سر دریائے تن سیر و سفر مقصد نہیں میرا
ذرا بس ہاتھ پانی میں بھگونا چاہتا ہوں میں
تمہارا حسن تو آب رواں کا حکم رکھتا ہے
برا کیا ہے گر اس میں ہاتھ دھونا چاہتا ہوں میں
بس اتنی بات پر مجھ سے خفا ہیں گلستاں والے
گلوں میں اک نئی خوشبو سمونا چاہتا ہوں میں
جو ڈوبا تو یہ دنیا بھی سلامت رہ نہیں سکتی
سو اپنے ساتھ اس کو بھی ڈبونا چاہتا ہوں میں
سخن کی رائیگانی مجھ سے اب دیکھی نہیں جاتی
مرے مولا بس اب خاموش ہونا چاہتا ہوں میں
میں خائف ہوں مآل آرزو سے اس قدر نجمیؔ
جسے پایا نہیں اس کو بھی کھونا چاہتا ہوں میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.