یوں عشق جنوں خیز کو اندر سے نکالا
یوں عشق جنوں خیز کو اندر سے نکالا
سودا تھا جو وحشت کا اسے سر سے نکالا
ہر جلوے میں تھا حسن مرے حسن نظر سے
منظر تھا جدا خود کو جو منظر سے نکالا
مٹی پہ کرم خاص تھا زرخیزیٔ جاں کا
اک نم تھا جو درکار گل تر سے نکالا
رستہ وہ قناعت نے دکھایا مجھے جس نے
ہر حرص جہاں سے ہوس زر سے نکالا
کھولی ہے ترے دل کی گرہ پھر بہ سہولت
اک اور بھنور دل کے سمندر سے نکالا
سمجھایا ہے جنت کے لیے مرنا ضروری
یوں اس نے مجھے مرنے کے اس ڈر سے نکالا
چھوڑا تھا ہمیں عشق کے گرداب میں دل نے
پھر عقل نے آ کر ہمیں چکر سے نکالا
پہلے تو رکھا رقص میں پرکار سا اور پھر
مرکز مرا چھینا مجھے محور سے نکالا
آتے ہیں نا اب کاٹنے دیوار و در و بام
کس زعم پہ تو نے تھا مجھے گھر سے نکالا
تھا مجھ کو یقیں ہجر کی ہے جانکنی دائم
پھر وصل نے اس عرصۂ محشر سے نکالا
مشکل جو پڑی مجھ پہ کبھی اس کا کرم ہے
جس نے مجھے اس حالت ابتر سے نکالا
صد شکر عطا کی ہے جگہ اگلی صفوں میں
صد شکر کہ مجھ کو صف کم تر سے نکالا
اس کار سخن میں یہ ہنر پایا ہے نسریںؔ
گوہر جسے کہتے ہیں وہ پتھر سے نکالا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.