یوں وفا کے سارے نبھاؤ غم کہ فریب میں بھی یقین ہو
یوں وفا کے سارے نبھاؤ غم کہ فریب میں بھی یقین ہو
کوئی بات ایسی کہو صنم کہ فریب میں بھی یقین ہو
یہ دیار شیشہ فروش ہے یہاں آئینوں کی بساط کیا
یہاں اس طرح سے رکھو قدم کہ فریب میں بھی یقین ہو
مری چاہتوں میں غرور ہو دل ناتواں میں سرور ہو
تمہیں اب کے کھانا ہے وہ قسم کہ فریب میں بھی یقین ہو
یہی بات کہہ دو پکار کے وہی سلسلے رہیں پیار کے
اسی ناز میں رہے پھر بھرم کہ فریب میں بھی یقین ہو
مرے عشق کا یہ معیار ہو کہ وصال بھی نہ شمار ہو
اسی اعتبار پہ ہو کرم کہ فریب میں بھی یقین ہو
مرے انتظار کو کیا خبر تمہیں اختیار ہے اس قدر
مجھے دو سلیقہ یہ کم سے کم کہ فریب میں بھی یقین ہو
جہاں ذکر مہر و وفا ملے وہیں اندراؔ کا قلم چلے
یہ کتاب عشق میں ہو رقم کہ فریب میں بھی یقین ہو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.