زہر اس ماحول کا مجھ میں کچھ اتنا بھر گیا
زہر اس ماحول کا مجھ میں کچھ اتنا بھر گیا
سانپ نے کاٹا مجھے اور کاٹتے ہی مر گیا
میں زمانے کی شرافت سے کچھ ایسا ڈر گیا
میرے اندر کا فرشتہ خوف کھا کر مر گیا
وہ گھنیرا پیڑ جس کے سائے میں رہتے تھے ہم
آندھیوں میں جب گرا تو گھر کو آنگن کر گیا
آئنہ ٹوٹا ہوا تھا یا خراشیں تھیں بہت
اپنا چہرہ دیکھتے ہی میں اچانک ڈر گیا
بات سچی ہو تو باطل خوف کھاتا ہے ضرور
ایک موسیٰ کے لیے فرعون کا لشکر گیا
سانس لینا زندگی کی اک علامت ہے مگر
یہ بھی دیکھا ہے کہ انساں سانس لے کر مر گیا
قلب کی تاریکیاں چہرے پہ روشن ہو گئیں
تتلیوں کا روپ ایسا تھا کہ بھونرا ڈر گیا
جسم بچ کر آ گیا یہ بھی غنیمت جانیے
ورنہ مقتل میں پہنچ کر کون واپس گھر گیا
قتل کا الزام بھی جس پر لگا سکتے نہیں
مرنے والا ایک ایسا نام لے کر مر گیا
ایک میں کوتاہ قد تھا اس کی محفل میں مشیرؔ
اس لیے میرے علاوہ ہر کسی کا سر گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.