زنگ آلودہ روایات سے کیا لینا ہے
زنگ آلودہ روایات سے کیا لینا ہے
ہم کو فرسودہ رسومات سے کیا لینا ہے
شرط اول ہے وفا عشق میں اے جان مگر
چھوڑیے آپ کو اس بات سے کیا لینا ہے
ملنے آئے ہیں ردا اوڑھ کے خاموشی کی
ایسی بے کیف ملاقات سے کیا لینا ہے
عشق تو عشق ہے دیوانہ پن اس کا شیوہ
اس کو دنیا کے خیالات سے کیا لینا ہے
کیوں بضد ہے بتا تجدید مراسم کے لیے
آخرش تجھ کو مری ذات سے کیا لینا ہے
تھی خطا کس کی ہوئے کیسے جدا ہم دونوں
ایسے دیرینہ سوالات سے کیا لینا ہے
تیری قربت میں بیاباں بھی چمن ہے جاناں
اب مجھے رونق باغات سے کیا لینا ہے
ہم تو مظہرؔ ہیں محبت کے مرے یار ہمیں
نفرت و بغض و فسادات سے کیا لینا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.