زوال رات پر آیا نہیں ہے ڈھل کر بھی
زوال رات پر آیا نہیں ہے ڈھل کر بھی
کہیں نہ روشنی سورج نے کی نکل کر بھی
یہ لوگ عجلت بے فائدہ میں ہیں مصروف
کہیں پہنچتے نہیں تیز تیز چل کر بھی
گھری ہوئی ہیں اندھیرے میں اس طرح آنکھیں
چراغ روشنی کرتے نہیں ہیں جل کر بھی
عجیب بات ہے منزل نئی نہیں ملتی
سفر کیا ہے کئی راستے بدل کر بھی
عرق نچوڑ کے رکھتا ہے بند روشنی میں
وہ مطمئن نہیں ہوتا ہے گل مسل کر بھی
ہر ایک جسم نے مٹی کا ڈھیر ہونا ہے
چلے زمین پہ جتنا سنبھل سنبھل کر بھی
درخت کاٹنے کا فیصلہ ہوا عاصمؔ
ثمر کو چھو نہ سکے لوگ جب اچھل کر بھی
- کتاب : لفظ محفوظ کرلئے جائیں (Pg. 26)
- Author : عاصم واسطی
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2020)
- اشاعت : 2nd
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.