زندگی بھی کیسی چال چل رہی ہے
خود کو ہی گرا کے خود سنبھل رہی ہے
واسطہ ہمارا برف کی طرح تھا
برف ٹھوس تھی پر اب پگھل رہی ہے
کیا بہار یہ ہے یہ خزاں کے جیسی
تم نے تو کہا تھا رت بدل رہی ہے
کیوں ادھر ادھر کی بات کر رہا ہے
کوئی تو تجھے بھی بات کھل رہی ہے
آج کل بھلا کیوں بے سبب ہی خوش ہوں
دیکھ یہ اداسی ہاتھ مل رہی ہے
میری ہر خوشی ہی ریت کے ہے مانند
ریت ہاتھ میں ہے اور پھسل رہی ہے
کیوں یہ فکر فردا اس قدر ہے بھوکی
آج کی بھی خوشیاں کیوں نگل رہی ہے
زانؔ بن ڈرے ہی آتش جگر پہ
اس کی یاد ننگے پاؤں چل رہی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.