Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آغا حشر

چراغ حسن حسرت

آغا حشر

چراغ حسن حسرت

MORE BYچراغ حسن حسرت

    مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے پہلی مرتبہ آغا حشر کا نام کب سنا؟ صرف اتنا یاد ہے کہ ‘‘ڈراما’’ کا نام سننے سے پہلے اس نام سے میری کان آشنا ہوچکے تھے۔ کچھ دنوں کے بعد میری معلومات میں اتنا اضافہ اور ہوا کہ آغا حشر جو کچھ کہتا ہے اس کا نام ڈراما ہے۔ ڈراما کی اصل کے متعلق مجھےکچھ معلوم نہیں تھا۔ ہاں کبھی کبھی یہ خیال آتا تھا کہ ڈراما اور ڈرانا کے معنی میں بہت تھوڑا فرق ہوگا۔

    ہمارے پڑوس میں ایک افغان سردار رہتے تھے۔ ان کا ایک نوکر تھا۔ جسے سب ‘‘آغا آغا’’ کہہ کے پکارتے تھے۔ بڑے کلے ٹھلے کا دیدارو جوان تھا۔سیاہ گنجان داڑھی، زلفیں چھٹی ہوئیں۔ وہ جدھر سے گزرتا تھا، لڑکے ‘‘آغا آغا’’ کہہ کے اس کے پیچھے دوڑ پرتے تھے۔ وہ اکثر اوقات تو ہنستا ہوا گزر جاتا۔ لیکن کبھی کبھی جب وہ چرس کے نشے میں ہوتا۔ لڑکوں کے نعرے سن کے چلتے چلتے رک جاتا۔ اپنی زبان میں چلا چلا کے کچھ کہتا اور سرخ سرخ آنکھیں نکال کے ہماری طرف اس طرح دیکھتا کہ سب سہم جاتے۔

    انہیں دنوں ہمارے قصبہ میں ایک اور آغا وارد ہوئے۔ یہ ہینگ بیچنے آئے تھے۔ لمبی داڑھی، بال شانوں پر بکھرے ہوئے، صدری پر میل کی تہہ جمی ہوئی۔ وہ ایک ہاتھ سے گٹھڑی سنبھالے سڑک پر کھڑے رہتے اور ‘‘اینگ لے لو۔ اینگ لے لو۔’’ پکارا کرتے تھے۔ لیکن میں نے کبھی کسی شخص کو ان سے ہینگ خریدتے نہیں دیکھا، کبھی کبھی وہ جھنجھلاکے چلا چلا کر کچھ کہتے۔ غالباً بستی کے لوگوں کو جن میں کوئی ہینگ کا قدر شناس نہیں تھا، گالیاں دیتے ہوں گے۔ اس عالم میں کوئی شخص آنکلتا تو اسے پکار کے کہتے ‘‘خواینگ لے لو’’ اگر وہ چپ چاپ گزر جاتا تو کچھ دیر بک جھک کر خاموش ہو رہتے۔ ورنہ اگر وہ جواب میں کہتا کہ مجھے ہینگ کی ضرورت نہیں۔ تو چلا کے فرماتے ‘‘خوام تمہارے باپ کا نوکر ہے۔ کہ تمہارا واسطے اتنی دور سے اینگ لایا۔ اینگ لو۔ ام سے مسخری مت کرو۔’’

    ہماری پڑوسن بی۔۔۔ کا خیال تھا کہ یہ موا بردہ فروش ہے۔ ننھے ننھے بچوں کو چرا کےلے جاتا ہے۔ اور بابا خلیل جُو جو مو چیوں کے پیر تھے، اس باب میں اس کے ہم خیال تھے۔

    غرض آغا، حشر (لفظ ‘‘حشر’’سے جس قسم کے تصورات وابستہ ہیں ان کے متعلق میں نے کچھ کہنا مناسب ہیں سمجھا۔ کیونکہ کشمیری زبان میں ‘‘حشر’’ گالی ہے۔)اور ڈراما تینوں لفظ میرے نزدیک بہت ڈراؤنے اور بھیانک تھے۔ اور انہوں نے میرے ذہن پر کوئی خوش گوار اثر نہیں چھوڑا۔

    پھر جب ہمارے ہاں ایک ‘‘ڈرامیٹک کلب’’ کی بنیاد پڑی۔ اور اسیر حرص، سفید خون، خواب ہستی، ہملٹ کے نام ہر شخص کی زبان سے سنائی دینے لگے، تو آغا حشر کا نام بھی بار بار زبانوں پر آنے لگا۔ اس دور افتادہ مقام میں لے دے کے یہی ایک تفریح تھی۔ اس لیے بوڑھے بچے، جو ان سب تھیٹر دیکھنے جاتے تھے۔ مستری خدا بخش سے جو تھیئٹر کے پردے بھی بناتے تھے اور میلوں میں اپنا ہنڈولا لے کر بھی پہنچ جاتے تھے۔ سہیلیوں تک جن میں اکثر اسکول کے بھاگے ہوئے لڑکے تھے۔ میں سب کو جانتا تھا۔ لیکن ان میں آغا حشر کوئی بھی نہیں تھا۔ مجھے یقین تھا کہ آغا حشر پردوں کے پیچھے کھڑا ہے، اس کا سر چھت سے لگا ہوا ہے، لمبی داڑھی ہے، گیسو کمر تک پہنچتے ہیں، ایک ہاتھ میں ہینگ کی گٹھڑی ہے، دوسرے میں جادو کا ڈنڈا۔ اسی کے حکم سے پردے اٹھتے اور گرتے اور ایکٹر بھیس بدل بدل کر نکلتے ہیں۔ ایک آدھ مرتبہ خیال آیا کہ کسی طرح پردے کے پیچھے جاکر اس کی ایک جھلک دیکھ لوں۔ لیکن پھر ہمت نہ پڑی۔

    میں نے جس زمانے کا ذکر کیا ہے۔ ابھی ہندوستان میں فلموں کا رواج نہیں تھا۔ جو کچھ تھا تھیئٹر ہی تھیئٹر تھا۔ اور اس دنیا میں آغا حشر کا طوطی بول رہا تھا۔ یوں تو اور بھی اچھے اچھے ڈراماٹسٹ موجود تھے۔ احسن، بیتاب، طالب، مائل سب کے سب ناٹک کی لنکا کے باون گزے تھے۔ لیکن آغا کے سامنے بونے معلوم ہوتے تھے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ آغا سے پہلے اس فن کی قدر بھی کیا تھی؟ بیچارے ڈراماٹسٹ تھیئٹر کے ‘‘منشی’’ کہلاتے تھے۔ اور یہ لقب اتنا ذلیل ہوچکا تھا کہ تھانہ کے محرر، نہر کے پٹواری، ساہوکاروں اور تاجروں کے گماشتے بھی اسے اپنے نام کے ساتھ لکھتے ہچکچاتے تھے۔

    پنجاب میں اگرچہ تھیئٹرنے چنداں ترقی نہیں کی اور یہاں منشی غلام علی دیوانہ اور ماسٹر رحمت کے کینڈے کے لوگ اس فن میں سندالوقت سمجھے جاتے تھے۔ لیکن ۱۹۲۱ء میں جب مجھے پہلی مرتبہ لاہور آنے کا اتفاق ہوا تو یہاں آغا حشر کی شاعری کی دھوم تھی۔ جن لوگوں نے انہیں انجمن حمایت اسلام میں نظمیں پڑھتے دیکھا تھا۔ وہ ان کے انجمن کے جلسے میں آنے اور نظم سنانے کی کیفیت اس ذوق و شوق سے بیان کرتے تھے گویا کربلائے معلیٰ کے محرم کا حال بیان کر رہے ہیں۔ ‘‘موجِ زمزم’’ اور ‘‘شکریہ یورپ’’ کے اکثر اشعار لوگوں کو زبانی یاد تھے اور انہیں آغا کی طرح مٹھیاں بھینچ کر گونجیلی آواز میں پڑھنے کی کوشش بھی کرتے تھے۔

    اگرچہ آغا اپنے عروجِ شباب کے زمانے میں صرف ایک مرتبہ پنجاب آئے۔ لیکن ان کا یہ آنا عوام و خواص دونوں کے حق میں قیامت تھا۔ یعنی جو ثقہ حضرات ڈراما کو بدوضع اور آوارہ لوگوں سے مخصوص سمجھتے تھے، ان کی رائے اس فن کے متعلق بدل گئی۔ اور کیوں نہ بدلتی؟ اسی گروہ کے ایک شخص نے انجمن حمایت اسلام کے جلسہ میں جو ان دنوں ایک قومی میلہ سمجھا جاتا تھا۔ ایسی نظم پڑی کہ روپے پیسے کا مینہ برس گیا۔ اور جو کام بڑے بڑے عالموں سے نہ ہوسکا، اس نے کر دکھایا۔

    یہ تو خواص کاحال تھا۔ آغا کے لاہور آنے نے عوام کے مذاق پر بھی اثر ڈالا۔ اور جو لوگ ماسٹر رحمت کی غزلوں پر سردھنتے اور ان کے ڈراموں کو اس فن کی معراج سمجھتے تھے وہ بھی یک بیک چونک پڑے۔ اور انہوں نے جان لیا کہ اس فن میں اس سے اونچا کوئی مقام بھی ہے۔ اور ماسٹر رحمت سے بہتر ڈراماٹسٹ بھی دنیا میں موجود ہیں۔

    میں ۱۹۲۵ء میں کلکتہ گیا تو آغا صاحب کلکتہ چھوڑ کرمہاراجہ ٹکاری کے ہاں جاچکے تھے۔ لیکن ان کے ہزاروں مداح، ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے کلکتہ میں موجود تھے۔ ان کی زبانی آغا کی زندگی کے اکثر واقعات، ان کے لطیفے، اشعار، پھبتیاں سنیں۔ کوئی سال بھر کے بعد ایک دن کسی نے آکر کہا، کہ آغا آئے ہیں۔ فائن آرٹ پریس والے لالہ برج لال اروڑہ آغا کے بڑے عقیدت مند تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ ‘‘آغاآگئے، ان سے کب ملوائے گا؟’’ وہ کہنے لگا، ابھی چلو۔ نیکی اور پوچھ پوچھ۔ میں نے رسالہ آفتاب کے کچھ پرچے بغل میں دبائے۔ لالہ برج لال نے ٹوپی ٹیڑھی کرکے سر پررکھی اور بخط مستقیم آغا کے ہاں پہنچے۔ وہ ان دنوں سکی ا سٹریٹ میں ہتے تھے۔ بڑا وسیع مکان تھا۔ ڈیوڑھی سے داخل ہوتے ہی صحن تھا۔ اس کے داہنے بائیں کمرے۔ لالہ برج لال نے ان کے نوکر سے پوچھا: ‘‘آغا صاحب کہاں ہیں؟’’ اس نے بائیں ہاتھ کی طرف اشارہ کیا۔ صحن سے ملا ہوا ایک وسیع کمرہ تھا۔ اس میں ایک چار پائی اور دو تین کرسیاں پڑی تھیں۔ چار پائی پر آغا صاحب صرف لنگی باندھے اور ایک کرتا پہنے لیٹے تھے۔ ہمیں دیکھتے ہی اٹھ بیٹھے۔ اب جو دیکھتا ہوں تو ہینگ والے آغا اور اس آغا میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ سر پر انگریزی فیشن کے بال، داڑھی منڈی ہوئی، چھوٹی چھوٹی مونچھیں، دوہرا جسم، سرخ و سپید رنگ، میانہ قد، ایک آنکھ میں نقص تھا۔ محفل میں بیٹھے ہوئے ہر شخص یہ سمجھتا تھا کہ میری طرف ہی دیکھ رہے ہیں۔ بڑے تپاک سے ملے۔ پہلے لالہ برج لال سے خیر و عافیت پوچھی۔ پھر میری طرف متوجہ ہوئے اور ادبی ذکر و افکار چھڑ گئے۔

    آغا صاحب نے اگرچہ ہزاروں کمائے اور لاکھوں اڑائے لیکن ان کی معاشرت ہمیشہ سیدھی سادی رہی۔ مکان میں نہ نفیس قالین تھے، نہ صوفے، نہ کوچ، نہ ریشمی پردے، نہ غالیچے۔ نفیس کپڑے پہننے کابھی شوق نہ تھا۔ گھر میں ہیں تو لنگی باندھے، ایک بنیان پہنے۔ کھری چار پائی پر بیٹھے ہیں۔ باہر نکلے ہیں تو ریشمی لنگی اورلمبا کرتا پہن لیا۔ میں نے پہلی مرتبہ انھیں اسی وضع میں دیکھا اور زندگی کے آخری ایام میں جب لاہور آئے ان کی یہی وضع تھی۔ ہاں اکثر لوگوں سے اتنا سنا ہے کہ لاہور آنے سے پہلے وہ کلکتہ میں بڑے ٹھاٹھ سے رہتے تھے۔ لیکن اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ اس زمانے میں انہوں نے شراب چھوڑدی تھی اور گھر کی آرائش اور ٹھاٹھ باٹھ میں طبیعت کے حوصلے نکال کے اس کمی کی تلافی کرناچاہتے تھے۔

    آغا بڑے حاضر جواب اور بذلہ سنج شخص تھے۔ جس محفل میں جابیٹھے تھے۔ سب پر چھاجاتے تھے۔ ان کے ملنے والوں میں اکثر لوگ ضلع جگت میں طاق اور پھبتی میں مشاق تھے۔ اور جب شام کو صحبت گرم ہوتی، تین تین چار چار آدمی مل کے آغا پر پھبتیوں کا جھاڑ باندھ دیا کرتے تھے۔ لیکن آغا چومکھی لڑنا جانتے تھے۔ حریف دم بھر میں ہتھیار ڈال دیتا لیکن آغا کی زبان نہ رکتی تھی۔ اس وقت ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک بانکا پھکیت سرد ہی کے ہاتھ پھینکتا چلاجارہا ہے۔ کبھی کمر کو بتاکے سر پر وار کیا، کبھی پالٹ کا ہاتھ مارا، کبھی داہنے سے کبھی بائیں سے۔ اس فن میں ان کا کوئی حریف نہیں تھا۔ البتہ حکیم صاحب (شفاء الملک حکیم فقری محمد صاحب چشتی نظامی مرحوم جو آغا مرحوم کے جگری دوست تھے) سے آغا کی بھی کور دبتی تھی۔

    جس شخص سے بے تکلفی بڑھانا منظور ہوتا۔ اسے اس بے ساختگی سے گالی دے بیٹھتے تھے کہ بیچارا حیران رہ جاتا تھا۔ ‘‘گالی’’ کا نام سن کر کچھ لوگ کہیں گے کہ گالی دینا کہاں کااخلاق؟ لیکن آغا کنجڑے قصابوں جیبی گالاھں تھوڑے ہی دیتے تھے۔ انہوں نے ‘‘گالی’’ کو ادب و شعر سے ترکبد دے کر ایی خوش نما چزج بنادیا تھا کہ مرحوم اگر کچھ دنوں اور زندہ رہتے تو اس کا شمار فنونِ لطفہی مںں ہونے لگتا۔ اصل میں آغا ایک تو یوں بھی بڑے ذہین اور طباع شخص تھے۔ پھر انہوں نے جوانی میں ہی تھیئٹر کی طرف توجہ کی جہاں دنیا بھر کے بگڑے دل جمع تھے۔ رات بھر نوک جھونک کا بازار گرم رہتا تھا۔ کچھ تو ان صحبتوں میں ان کی طبیعت نے جلا پائی۔ اس پر مطالعہ کا شوق سونے پر سہاگہ ہوگیا۔

    وہ ہرقسم کی کتابیں پڑھتے تھے۔ ادنی قسم کے بازاری ناولوں، اخباروں، رسالوں سے لے کر فلسفہ اور مابعد الطبیعات کی اعلیٰ تصانیف تک سب پر ان کی نظر تھی۔ اور فضل بک ڈپو سے دارالمصنفین تک وہ سارے اداروں کی سرپرستی فرماتے تھے۔ کلکتہ میں ان کا معمول یہ تھا کہ سہ پہر کو گھر سے نکلے اور بخط مستقیم اخبار عصر جدید کے دفتر میں پہنچے۔ پہلے سارے اخبار پڑھے، پھر رسالوں کی نوبت آئی۔ کبھی ریویو کے لیے کوئی کتاب آگئی تو وہ بھی آغا صاحب کی نذر ہوئی۔ کچھ اخبار اور رسالے تو وہیں بیٹھے بیٹھے دیکھ لئے۔ جو بچ رہے انہیں گھر لے گئے۔ بازار میں چلتے چلتے کتابوں کی دکان نظر آگئی، کھڑے ہوگئے۔ اچھی اچھی کتابیں چھانٹ کے بغل میں دبائیں اور چل کھڑے ہوئے۔ راستہ میں کسی کتاب کا کوئی گرا پڑا ورق دکھائی دیا تو اسے اٹھالیا اور وہیں کھڑے کھڑے پڑھ ڈالا۔ نوکر بازار سے سودا سلف لے کر آیا ہے، بنئے نے اخباروں اور کتابوں کے اوراق میں پڑیاں باندھ کے دی ہیں۔ یکایک آغا صاحب کی نظر پڑگئی۔ نوکر سے پوچھ رہے ہیں اس پڑیا میں کیا ہے؟ شکر! اچھا شکر ڈبے میں ڈالو۔ پڑیا خالی کرکے لاؤ۔ اسے کہیں پھینک نہ دیجیو، یہ بڑے کام کی چیز معلوم ہوتی ہے۔ خدا جانے کسی اخبار کے ورق ہیں یا کتاب کے، بہر حال مجھے ان پر شبلی کا نام لکھا نظر آیا ہے۔

    مطالعہ سے ان کے اس شغف کا حال سن کر شاید بعض لوگوں کا خیال ہو کہ آغا نے بہت بڑا کتب خانہ جمع کرلیا ہوگا۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ کتب خانہ چھوڑ ان کے ہاں دس پانچ کتابیں بھی نہیں تھیں۔ ایک تو ان کا حافظہ بہت اچھا تھا۔ ایک مرتبہ کوئی کتاب پڑھ لیتے تھے تو اسے دوسری مرتبہ دیکھنے کی ضرورت نہیں رہتی تھی۔ دوسرے ان کی طبیعت علائق سے گھبراتی تھی۔ کتابیں سینت سنبھال کے رکھنے کے جھنجھٹ میں کون پڑے۔ ان کا تو بس یہ حال تھا کہ کتاب آئی، پڑھ کے مکان کے کسی گوشے میں ڈال دی۔ کوئی ملنے والا آیا اور اٹھا کے لے گیا۔

    یہ اسی مطالعہ کی برکت تھی کہ ان کی معلومات پر لوگوں کو حیرت ہوتی تھی۔ طب ہو یا فلسفہ، شاعری ہو یا ادب۔ کسی موضوع میں بند نہیں تھے۔ اور جہاں علم ساتھ نہیں دیتا تھا وہاں ان کی ذہانت آڑے آجاتی تھی۔ بازار سے نئی جوتی منگوائی ہے۔ کسی نے پوچھا آغا صاحب کتنے کی مول لی ہے؟ بس آغا صاحب نے جوتی کے فضائل اور محاسن پر تقریر شروع کردی۔ چمڑے کی مختلف قسموں، دباغت کے طریقوں، جوتی کی وضع قطع، ایک ایک چیز پر اس تفصیل سے بحث کر رہے ہیں گویا کسی نہایت اہم مسئلہ پر گفتگو ہو رہی ہے۔ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد جب ان کی تقریر ختم ہوئی تو سننے والوں کو یہ احساس تھا کہ آغا صاحب کی جوتی کو سچ مچ تاریخی حیثیت حاصل ہے۔

    ایک دن آغا عصر جدید کے دفتر میں بیٹھے تھے۔ کچھ اور لوگ بھی جمع تھے۔ آغا باتیں کر رہے تھے۔ ہم سب بُت بنے بیٹھے سن رہ تھے۔ اتنے میں سید ذاکر علی جو ان دنوں کلکتہ خلافت کمیٹی کے سکریٹری تھے اور آج کل مسلم لیگ کے جائنٹ سکریٹری ہیں، پھرتے پھراتے آنکلے۔ تھوڑی دیر وہ چپکے بیٹھے آغا کی باتیں سنا کئے۔ لیکن پھر ان کے چہرے سے بے چینی کے آثار ظاہر ہونےلگے۔ کچھ تو انہیں یہ بات ناگوار گزری کہ ایک شخص بیٹھا باتیں کیے جارہا ہے اور کسی دوسرے کو بات نہیں کرنے دیتا۔ کیونکہ سید صاحب خود بھی بڑے بذلہ سنج اور لطیفہ گو بزرگوار ہیں اور انہوں نے اگلے پچھلے ہزاروں لطیفے یاد کر رکھے ہیں اور غالباً اس وقت انہیں کوئی نیا لطیفہ یاد آگیا جسے سنانے کے لیے وہ بے قرار تھے۔ دوسرے آغا کی گفتگو میں خود ستائی کا عنصر بہت زیادہ تھا۔ اور وہ اپنی شاعری کا تذکرہ کر رہے تھے اور اپنے بعض ہمعصر شعرا پر چوٹیں بھی کرتے جاتے تھے۔ سید ذاکر علی کو ان کی باتوں پر غصہ بھی تھا اور حیرت بھی۔ جی ہی جی میں کہہ رہے تھے کہ خدا جانے یہ کون شخص ہے جو اقبال، ابوالکلام، ظفر علی خاں کا ذکر اس انداز میں کر رہا ہے گویا سب ساتھ کے کھیلے ہوئے دوست اور بچپن کے رفیق ہیں۔ آخر ان سے ضبط نہ ہوسکا اور کہنے لگے ‘‘یہ کون بزرگوار ہیں، ذرا ان سے میرا تعارف تو کرادیجئے۔’’ مولانا شائق بولے ‘‘آپ انہیں نہیں جانتے۔ آغا حشر یہی ہیں۔ آغا صاحب یہ سید ذاکر علی ہیں۔ کلکتہ خلافت کمیٹی کے نئے سکریٹری۔ مولانا شوکت علی نے انہیں بمبئی سے بھیجا ہے۔’’

    ہم سمجھتے تھے کہ اس معرفی کے بعد سید ذاکر علی کا استعجاب دور ہوجائے گالیکن وہ بڑی سادگی سے کہنے لگے ‘‘آغا حشر؟ کون آغا حشر؟’’ بس ان کا یہ کہنا قیامت ہوگیا۔ آغا صاحب کڑک کر بولے: ‘‘آپ نے آغا حشر کا نام نہیں سنا۔’’ سید ذاکر علی نے جواب دیا ‘‘نہیں صاحب! میں نے آج پہلی مرتبہ جناب کا نام سنا ہے۔’’ پھر پلٹ کے مولانا شائق سے پوچھنے لگے، ‘‘آغا صاحب کا شغل کیا ہے؟’’ مولانا شائق نے فرمایا: ‘‘ہائیں سید ذاکر علی صاحب! آپ نے واقعی آغا حشر کا نام نہیں سنا۔ آپ کس دنیا میں رہتے ہیں؟’’ انہوں نے بڑی مسمی صورت بناکے کہا، ‘‘مجھ سے قسم لے لیجیے، میں نے آج تک یہ نام نہیں سنا۔’’ خدا جانے وہ بن رہے تھے یا واقعی انہوں نے آغا کا نام نہیں سنا تھا۔ ہم سب کو حیرت تھی کہ یہ شخص کلکتہ خلافت کمیٹی کا سکریٹری مدتوں اہل ذوق کی صحبت میں رہ چکا ہے۔ شعر و شاعری کا بھی مذاق رکھتا ہے لیکن آغا حشر کو نہیں جانتا۔ خیر مولانا شائق احمد نے انہیں سمجھایا کہ دیکھئے یہ آغا حشر ہیں۔ بہت بڑے شاعر، بہت بڑے ڈراماٹسٹ، لوگ انہیں ہندوستان کا شیکسپیئر کہتے ہیں۔ تو ان کی سمجھ میں بات آگئی اور کہنے لگے، ‘‘اچھا تو آپ شاعر ہیں۔ میں اب سمجھا۔ خیر اب اس بحث کو جانے دیجیے اپنا کوئی شعر سنائیے۔’’ آغا بھرے بیٹھے تھے۔ یہ سن کے آگ بگولا ہوگئے، اور کہنے لگے ‘‘سنیے جناب! آپ کو شعر سننا ہے تو خلافت کمیٹی کے لونڈوں سے سنیے۔ میں ایسا ویسا شاعر نہیں کہ ہر ایرے غیرے پچ کلیان کو شعر سناتا پھروں۔’’ پھر جو انھوں نے تقریر شروع کی تو اللہ دے اور بندہ لے۔ ہمارا یہ حال تھا کہ کاٹو تو لہو نہیں بدن میں اور سید ذاکر علی پر تو سینکڑوں گھڑے پانی کے پڑگئے۔

    ایک سید ذاکر علی پر کیا موقوف ہے۔ آغا مناظرہ کے میدان کے شیر تھے۔ جس محفل میں جابیٹھتے تھے، سب پر چھا جاتے تھے۔ باقاعدہ تعلیم تو واجبی تھی لیکن مطالعہ نے انہیں کہیں سے کہیں پہنچا دیا تھا۔ ایک دن میں نے کہا، آغا صاحب جی چاہتا ہے آپ کے سوانح حیات لکھ ڈالوں۔ کہنے لگے ‘‘میرے سوانح حیات میں کیا پڑا ہے۔

    حاصل عمرم سہ حرف است و بس

    خام بدم پختہ شدم سو ختم

    بزرگوں کا وطن کشمیر ہے۔ وطن میں ان پر کچھ ایسی افتاد پڑی کہ امرت سر اٹھ آئے۔وہاں سے والد مرحوم شالوں کی تجارت کے سلسلہ میں بنارس پہنچے اور وہیں ڈیرے ڈال دئے۔ ہر چند انہوں نے میری تعلیم میں سعی کی لیکن جی نہ لگا۔ فارسی کی چند کتابیں پڑھ کر چھور دیں۔ وہ پرانی وضع کے آدمی تھے اور مجھے ملائے مکتبی بنانا چاہتے تھے۔ لیکن مجھے ملائیت سے نفرت تھی۔ ابھی مسیں بھی نہیں بھیگی تھیں کہ بنارس سے بھاگ کر بمبئی پہنچا۔ وہاں پارسیوں نے تھیئٹر کا ایسا طلسم باندھ رکھا تھا کہ ادنی و اعلیٰ سب اس پر غش تھے۔ میں نے بھی ڈرامہ لکھنے کو ذریعہ معاش بنایا اور ایک دو ڈرامے لکھ کر شیکسپئر پر ہاتھ صاحب کیا۔ اگرچہ ان دنوں بمبئی میں بڑے بڑے انشاء پر داز اور شاعر موجو دتھے۔ لیکن خدا کی قدرت کہ تھوڑے دنوں میں سب گرد ہوگئے۔ لو میرے سوانح حیات کا بہت بڑا حصہ تو چند لفظوں میں ختم ہوگیا۔’’

    ایک دن کہنے لگے ‘‘تمہیں معلوم ہے، جوانی کے زمانے میں ہمارے دوست کون کون لوگ تھے؟’’میں نے کہا‘‘نہیں!’’۔ کہنے لگے: ‘‘بزرگوں میں مولانا شبلی مرحوم، نوجوانوں میں ابونصر غلام یسین آہ، یہ تمہارا ابوالکلام اور حکیم فقیر محمد چشتی۔ لیکن بھائی میں نے ابونصر آہؔ جیسا ذہین آدمی نہیں دیکھا۔ جانتے ہو آہ کون تھا؟ ابوالکلام کا بڑا بھائی۔ بیچارے نے جوانی میں انتقال کیا۔ زندہ رہتا تو لوگ ابوالکلام کو بھول جاتے۔ آہ نے وفات پائی۔ ابوالکلام اور میں دونوں برسوں سے ایک ہی شہر میں رہتے ہیں۔ لیکن سلام و کلام تک ترک ہے۔’’

    پھر کچھ دیر خاموش رہ کے بولے ‘‘وہ زمانہ بھی عجیب تھا۔ میں ڈرامے بھی لکھتا تھا، شراب میں پیتا تھا، نہ کبھی نماز پڑھی نہ روزہ رکھا، لیکن دینی حرارت سے دل گداز تھا۔ آریہ اور عیسائی اسلام پر اعتراض کرتے تھے اور میں اور ابوالکلام انہیں جواب دیتے تھے۔ اسی شوق میں مختلف مذاہب کی کتابیں پڑھیں۔ آریوں اور عیسائیوں کے رد میں رسالے لکھے، مناظرے کیے اور جس دنگل میں اترا فتح پائی۔ ان دنوں پادری احمد مسیح کا بڑا زور تھا۔ ایک تو اندھا دوسرے حافظ قرآن۔ کترنی کی طرح زبان چلتی تھی۔ وہ دلی میں فوارہ پر اکثر تقریریں کیا کرتا تھا۔ میرے اور اس کے کئی معرکے ہوئے اور ہمیشہ میدان میرے ہی ہاتھ رہا۔ وہ کسی دوسرے کو خاطر میں نہیں لاتا تھا صرف مجھ سے اس کی کور دبتی تھی۔ اکثر مناظروں میں تو تکار تک نوبت پہنچ جاتی تھی۔ میں اس پر پھبتیاں کہتا تھا وہ مجھ پر ایک دفعہ پادری احمد مسیح بمبئی آیا اور ایک دو معرکے کی تقریریں کیں۔ ان دنوں میرے قیام کا کچھ ٹھیک نہیں تھا۔ کبھی کلکتہ کبھی دلی، لیکن اتفاق یہ ہوا کہ احمد مسیح کو بمبئی آئے صرف دو دن ہوئے تھے کہ میں بھی پہنچا۔ لوگوں نے مجھے مناظرہ کے لیے کہا، میں نے کہا میں چلنے کو تو تیار ہوں لیکن اسے میرا نام نہ بتانا۔ غرض وہ مجھے لے گئے اور احمد مسیح سے صرف اتنا کہا کہ ایک مولوی صاحب مناظرہ کرنے آئے ہیں۔ لیکن میں نے تقریر شروع کی تو وہ آواز پہچان کر بولا ‘‘آغا صاحب ہیں’’۔ میں نے کہا ‘‘جی ہاں!’’ وہ کہنے لگا ‘‘ارے کسی مولوی کو لائے ہوتے، اس بھانڈ کو کیوں لے آئے؟’’ میں بولا ‘‘پادری صاحب کسی بھلے مانس کے ہاں کتا گھس آئے۔ تو خود اٹھ کے اسے نہیں دھتکارتا۔ بلکہ نوکر سے کہتا ہے۔ کہ اسے نکال دو۔ پھر تمہارے مقابلہ پر کوئی مولوی کیوں آئے؟’’ پادری چیخ کے بولا ‘‘یہ مجلس مناظرہ ہے یا بھانڈوں کی منڈلی؟’’ میں نے کہا۔ ‘‘بھانڈوں کی منڈلی سہی۔ لیکن ان میں چت خورے تم ہو۔’’ پادری نے کہا ‘‘ارے تو تو تھیئٹر کا نچنیا ہے۔ تجھ سے کون زبان لڑائے؟’’ میں نے کہا ‘‘اب تمہیں تھیئٹر میں نچاؤں گا۔’’ غرض میں نے مارے پھبتیوں کے الو کر دیا اور وہ صاف انکار کرگیا کہ میں آغا سے بحث نہیں کرتا۔

    اکثر لوگوں کو یہ بات بہت ناگوار گزرتی تھی کہ آغا خود اپنی تعریفیں کرتے ہیں اور اپنے سامنے سب کو ہیچ سمجھتے ہیں۔ لیکن آغا صاحب کا خیال تھا کہ دنیا میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے اپنی تعریف کرنا بہت ضروری ہے۔ ایک مرتبہ کسی اخبار میں میری ایک نظم جو غالباً عید کے متعلق تھی، شائع ہوئی۔ آغا نے اخبار دیکھا تو نظم کی بڑی تعریف کی۔ خصوصاً آخری شعر کئی مرتبہ پڑھا اور پھر بولے ‘‘اماں تم بہت خوب کہتے ہو۔ اس سے اچھا کوئی کیا کہے گا؟’’ میں نے کہا ‘‘آغا صاحب آپ تو کانٹوں میں گھسیٹتے ہیں۔ میں کیا اور میری نظم کیا؟’’ کہنے لگے ‘‘کیا کہا؟’’ ہم تعریف کرتے ہیں اور تم اپنی مذمت سننا چاہتے ہو۔ اچھا صاحب یوں ہی سہی۔ نظم بہت بُری ہے۔ تم نے جھک ماری جو یہ نظم لکھی اور ہم نے جھک ماری جو تمہاری تعریف کی۔ کہو کہو۔ اس ہیچ مدان، پنبہ دہان، کج مج زباں، حقیر فقیر سراپا تقصیر کو کیا شعور ہے کہ نظم لکھ سکے۔ حضور کی ذرہ نوازی ہے اور سیدھی سادی زبان میں یہ مضمون ادا کرنا چاہو تو کہو میں نے یہ نظم نہیں لکھی اور تم جھوٹے جو اس کی تعریف کر رہے ہو۔ ارے بھائی، میں تو سمجھتا ہوں کہ اگر تمہارے انکسار کا یہی حال رہا تو فاقے کروگے۔ سینہ تان کے کیوں نہیں کہتے کہ جی ہاں میری نظم تعریف کے قابل ہے۔ میں تو یہی کرتا ہوں۔ ترکی حور لکھ کے رستم جی کو سنایا۔ سب نے واہ واہ کی۔ لیکن سرگوشیاں بھی برابر ہو رہی تھیں۔ حریف اس تاک میں تھے کہ موقع ملے تو ایسی اکھیڑ ماریں کہ آغا چاروں شانے چت جاگرے۔ اتنے میں کڑک کے کہا، کون ہے جو آج ایسا ڈرامہ لکھ سکے؟ یہ سن کے سب کے سر جھک گئے اور ہر طرف سے آوازیں آئیں، پیر و مرشد بجا و درست۔’’

    آغا سے یہ بات سن کے مجھے ہمیشہ کے لیے کان ہوگئے۔ اگرچہ میں ان کی طرح اپنی تعریفیں آپ نہیں کرتا۔ لیکن کوئی تعریف کرے تو یہ بھی نہیں کہتا کہ حضرت میں تو بالکل جاہل ہوں۔

    آغا جوانی سے شراب کے عادی اور روز کے پینے والے تھے۔ دن ڈھلتے ہی پینا شروع کردیتے تھے اور بہت مدت گئے تک یہ محفل جمی رہتی تھی۔ ان محفلوں میں جب کہیں کوئی تھیئٹر اور ڈرامے کا ذکر چھیڑ دیتا تھا تو بیچارے شیکسپئر کی شامت آجاتی تھی۔ لیکن شیکسپیئر غریب کی گت صرف انہیں محفلوں میں بنتی تھی ورنہ عام طورپر آغا اس کا ذکر ہمیشہ عزت و احترام سے کرتے تھے۔

    وہ چھپ کے پینے کے قائل نہیں تھے۔ سب کے سامنے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ بیچ کھیت پیتے تھے اور بوتلوں کی بوتلیں خالی کردیتے تھے۔ لیکن موت سے کوئی تین سال پیشتر شراب ترک کردی۔ یوں دفعتہً شراب چھوڑ دینے سے ان کی صحت پر بہت بُرا اثر پڑا۔ رنگت سنولا گئی، آنکھوں کے گرد حلقے پڑگئے، ہڈیاں نکل آئیں۔ اور ایسا روگ لگا جو آخر ان کی جان لے کر ہی ٹلا۔ ڈاکٹروں نے ہر چند کہا کہ اس حالت میں آپ کے لیے شراب کا استعمال مفید ہے۔ تھوڑی مقدار میں روز پی لیا کریں لیکن انہوں نے نہ مانا اور مرتے مرگئے۔ شراب نہ پی۔ ہاں یہ ضرور تھا کہ اس حالت میں بھی ان کا کوئی پرانا دوست آجاتا تھا تو اسے شراب منگوا کے اپنے سامنے پلواتے۔ اس کی باتیں سن سن کر ہنستے۔

    آغا ہاتھ کے سخی تھے اور دل کے صاف۔ ان کے ملنے والوں میں ہر قسم کے لوگ تھے۔ تھیئٹر کے ایکٹروں میں ڈوم ڈھاڑیوں سے لے کر بڑے بڑے علم تک سب سے ان کی بے تکلفی تھی۔ اور وہ ان سب سے بڑے خلق اور مروت کے ساتھ پیش آتے تھے۔ ان کے چھوٹے بھائی آغا محمود کو یہ بات ناگوار تھی کہ آغا چھوٹی امت کے لوگوں سے کیوں بے تکلفی سے ملتے ہیں۔ لیکن ان کے جن لوگوں سے جس قسم کے تعلقات تھے انہیں مرتے دم تک نبھائے چلے گئے اور وضع داری میں فرق نہ آنے دیا۔ وہ ہر شخص سے اس کی لیاقت اور مذاق کے مطابق گفتگو کرتے تھے۔ عالموں میں بیٹھے ہیں تو حدوث و قدم مادہ کے متعلق گفتگو ہو رہی ہے۔ یا احادیث کی حیثیت پر بحث کر رہے ہیں۔ اسلام، عیسائیت اور آریہ سماج کے اصولوں پر تقریریں کی جارہی ہیں۔ ایکٹروں میں جاپہنچے تو ضلع جگت شروع ہوگئی۔ پھبتیاں کہی جارہی ہیں، قہقہے اڑ رہے ہیں۔

    آغا نے اگرچہ لاکھوں کمائے اور لاکھوں ہی اڑائے لیکن وہ تنہا خوری کے عادی نہیں تھے۔ جب روپیہ آتا تھا اس میں سب عزیزوں کے حصے لگائے جاتے تھے۔ قریب کے رشتہ داروں کو تو انہوں نے ہزاروں لاکھوں دے ڈالے۔ والدہ کی ایسی خدمت کی کہ کوئی کیا کرے گا۔ لیکن دور کے رشتہ داروں کو بھی وہ کبھی نہ بھولے۔ ان کے عزیزوں میں کئی بیوہ عورتیں اور یتیم بچے تھے۔ ان سب کے درماہے مقرر تھے۔ روپیہ آتا تھا تو جس کا جو حصہ مقرر تھا اسے گھر بیٹھے پہنچ جاتا تھا۔ غرض آغا کی ذات کئی بے کسوں کی زندگی کا سہارا بنی ہوئی تھی۔ ان کے اٹھتے ہی یہ سہارا مٹ گیا۔

    آغا کے والد ایک صوفی منش بزرگ تھے۔ وہ اکثر بیٹے کی بے قیدی اور آزادہ روی دیکھ دیکھ کے بہت کڑھتے تھے۔ شفاء الملک حکیم فقیر محمد چشتی مرحوم فرماتے تھے کہ جب آغا لاہور آئے۔ مولانا ظفر علی خاں کے ہفتہ وار اخبار ستارۂ صبح میں ان کی ایک نظم چھپی۔ جس کا روئے سخن اگرچہ خواجہ حسن نظامی کی طرف تھا لیکن جگہ جگہ تمام صوفیوں پر چوٹیں کی گئی تھیں۔ حکیم صاحب مرحوم تو ایک ہی زندہ دل بزرگ تھے۔ انہوں نے آغا کو دق کرنے کے لیے ان کے والد کو یہ نظم پڑھ کر سنائی اور کہا کہ دیکھیے آپ کا صاحبزادہ اب صوفیوں پر طعن کرنے لگا۔ وہ یہ نظم سن کر بیٹے پر بہت بگڑے پھر کہنے لگے۔ دیکھ لینا بڑھاپے میں یہ ان تمام حرکتوں سے توبہ کرلے گا۔ معلوم نہیں آخری عمر میں صوفیوں کے متعلق آغا صاحب کا کیا عقیدہ تھا۔ البتہ اتنا تو ہم نے بھی دیکھا کہ موت سے پہلے انہوں نے شراب سے توبہ کرلی۔

    آغا کے کلام اور ان کے ڈراموں پر تبصرہ کرنا میرا فرض نہیں۔ البتہ اتنا ضرور کہوں گا کہ وہ شعر بہت جلد کہتے تھے۔ مولانا ظفر علی خاں کے بعد اگر میں نے کسی کو اس قدر جلد شعر کہتے دیکھا تو وہ آغا تھے۔ شعر خود نہیں لکھتے تھے بلکہ دوسروں کو لکھوادیتے تھے۔ ڈراموں کا بھی یہی حال تھا۔ اصل میں انہیں لکھنے سے نفرت سی تھی۔ عمر بھر کبھی کسی کو خط کا جواب نہیں دیا اور جواب دیا بھی تو اپنے ہاتھ سے نہیں لکھا۔

    کئی موقعوں پر ایسا ہوا کہ میں نے ایک مصرع پڑھا۔ انہوں نے برجستہ دوسرا مصرع کہہ دیا اور چند منٹوں میں غزل ہوگئی۔ ان کی غزلوں میں ایک سرمستی اور جوش ہے جو اردو میں ان کے سوا کسی کے ہاں نظر نہیں آتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ غزل گوئی کا اثر ان کے ڈراموں پر بھی پڑا ہے۔ یعنی جس طرح غزل میں ہر شعر مستقل حیثیت رکھتا ہے۔ اسی طرح ان کے ڈراموں کے مختلف اجزاء تو اپنی اپنی جگہ خوب ہیں لیکن آپس میں مل کر وہ اپنا حسن کسی حدتک کھو بیٹھے ہیں۔ گویا یوں کہنا چاہےا کہ آغا کے ڈراموں کا حسن اجزا مں ہے کل مںس نہں ۔ اسی مفہوم کو یوں باشن کاب جاسکتا ہے کہ مکان کا گارا، چونا، ایںٹ اور لکڑی تو اپنی اپنی جگہ بہت اچھے ہںل۔ لکنس جب ان سے مل کر مکان بنتا ہے تو اس مںی بہت سے نقص نظر آتے ہں ۔ پھر بھی یہ کہنا پڑتا ہے کہ انہوں نے اردو ڈرامے کو بہت اونچے مرتبہ پر پہنچا دیا اور اس معاملہ مںں ان کا کوئی حریف نہںو تھا۔

    وہ خود بھی اکثر کہا کرتے تھے کہ میں لوگوں کے مذاق کو ملحوظ رکھ کر ڈرامے لکھتا ہوں۔ ورنہ اگر میں عوام کے مذاق کی پروا نہ کرکے اپنے اصلی رجحان طبیعت کے مطابق کچھ لکھوں تو اور ہی عام نظر آئے۔ مں نے ایک مرتبہ کہا کہ آغا صاحب آپ اپنی طبعتب کے حقی ن جوش کو ظاہر کو ں نہںا ہونے دیتے اور عوام کے مذاق کا اتنا خاتل کوتں رکھتے ہںغ؟ یہ سن کر آغا کے ابرو پر بل پڑگئے اور کہنے لگے کہ اگر مںا اپنی طبعتا کے صححے رجحان کی پرنوی کرتا تو جوتا ں چٹخاتا پھرتا۔ وہ تو بڑی خروگزری کہ مںا نےزمانے کی نبض کو پہچان لاک۔ لوگوں کے مذاق کے مطابق ڈرامے لکھتا ہوں اور موٹروں مںا اڑا پھرتا ہوں۔

    ۱۹۲۸ء کے اواخر میں آغا حشر ٹکاری سے کلکتہ آئے ہوئے تھے کہ ایک دن میں ان سے ملنے گیا۔ پہلے تھوڑی دیر ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے پھر کہنے لگے ‘‘ارے میاں اس اخبار نویسی میں کیا پڑا ہے۔ اسے چھوڑو اور میرے ساتھ ٹکاری چلو۔ ڈرامہ لکھنے میں برق نہ کردوں تو میرا ذمہ۔’’ میں نے اس وقت تو کہہ دیا کہ اچھا آغا صاحب یوں ہی سہی۔ مگر گھر آکے سوچا تو خیال آیا کہ اب تو آغا صاحب سے نیاز مندانہ تعلق ہے۔ ملازمت کا قصہ ہوگا تو اور بات ہوجائے گی۔ کیا عجب کہ کسی بات پر ان سے بگڑ جائے اور جو صاحب سلامت آج ہے یہ بھی نہ رہے۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ آغا سے اقرار کرچکا تھا۔ اب انکار کرنے کی ہمت نہیں پڑتی۔ اتفاقاً اسی درمیان کچھ ایسے پیچ پڑے کہ میں نے کلکتہ چھوڑ لاہور آنے کا تہیہ کر لیا۔ چلنے سے پہلے ایک دن آغا سے ملنے گیا۔ مجھے دیکھتے ہی بولے ٹکاری چلتے ہونا؟ میں نے کہا، میں تو لاہور جانے کا ارادہ کرچکا ہوں۔ وہ یہ سن کر بہت ناراض ہوئے۔ میرے ساتھ لاہور اور لاہور کے اخباروں اور اخبارنویسوں کو بھی لے ڈالا۔ میں تھوڑی دیر بیٹھا ان کی باتیں سنتا رہا پھر اٹھ کر چلا آیا۔ دوسرے تیسرے دن معلوم ہوا کہ آغا ٹکاری چلے گئے۔

    کوئی سات سال کے بعد پھر آغا سے لاہور میں ملاقات ہوئی۔ میں حکیم فقیر محمد مرحوم کے ہاں ملنے گیا تو وہ چھ سات آدمیوں میں گھرے بیٹھے تھے۔ لیکن میں نے بالکل انہیں نہیں پہچانا۔ آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے پڑے تھے، گالوں میں گڑھے، ہنڈیاں نکلی ہوئیں، گردن کا گوشت لٹکا ہوا۔ پہلے کچھ دن حکیم صاحب کے ہاں ٹھہرے پھر شہر کے باہر ایک کوٹھی کرایہ پر لی اور وہاں اٹھ گئے۔ میں کبھی کبھی وہاں جاتا تھا۔ اگرچہ اب بھی ان کی طبیعت اور وضعداری کا وہی عالم تھا لیکن یک لخت شراب چھوڑ دینے سے جہاں انہیں امراض نے آگھیرا تھا وہاں طبیعت میں وہ اگلی سی جودت بھی نہیں رہی تھی۔ البتہ وہ کبھی نہیں مانتے تھے کہ شراب چھوڑ دینے سے ان کے دماغ پر کوئی اثر پڑا ہے۔ میں نے اس بات کا ذکر کیا تو کہنے لگے کہ تم غلط کہتے ہو۔ میں نے جب سے شراب چھوڑی ہے میری طبیعت زیادہ رواں ہوگئی ہے۔

    ایک دن میں میکلوڈ روڈ سے گزر رہا تھا کہ کسی نے آواز دی۔ مڑ کر کیا دیکھتا ہوں کہ آغا صاحب ایک دکان کے سامنے بیٹھے ہیں۔ میں نے پوچھا ‘‘آپ یہاں کہاں؟’’ فرمانے لگے ‘‘آج مجھے امرت سر جانا ہے اور موٹر خراب ہوگئی ہے اس کی مرمت کرانے یہاں بیٹھا ہوں۔’’ پھر بولے ‘‘یہ کیا حرکت ہے، تم ہمارے ہاں آتے کیوں نہیں؟’’میں نے کہا ‘‘آغا صاحب فرصت نہیں ملتی’’۔ بولے ‘‘چل چلاؤ لگ رہا ہے ہم مرجائیں گے تو افسوس کروگے کہ آغا سے اس کی زندگی کے آخری دنوں میں بھی نہ ملے۔’’ میں نے کہا ‘‘آغا صاحب کل ضرور حاضر ہوں گا۔’’ فرمانے لگے ‘‘آج تو میں امرت سر جارہاہوں۔ پرسوں واپس آؤں گا۔ مجھے فون کرلینا۔’’

    دوسرے دن فون کیا تو معلوم ہوا کہ آغا صاحب ابھی نہیں آئے۔ تیسرے دن رات کے وقت کسی نے کہا کہ آغا صاحب سخت بیمار ہیں۔ میں نے سوچا کہ اس وقت تو ان سے ملنا مناسب نہیں، صبح چلیں گے۔ صبح میں اٹھ کر کپڑے پہن رہا تھا۔ اتنے میں خبر ملی کہ آغا کا انتقال ہوگیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

    لوگوں کو خیال تھا کہ جنازہ شہر میں لایا جائے گا۔ اخباروں میں یہ خبر بھی چھپی کہ نیلے گنبد میں نماز جنازہ ہوگی لیکن پھر خدا جانے کیا ہوا کہ یہ ارادہ ترک کردیا گیا۔ جنازہ کے ساتھ صرف سو، سوا سو آدمی تھے۔ ان میں بھی یا تو ان کی فلم کمپنی کے لوگ تھے یا بعض بعض خاص خاص نیاز مند۔ کوئی دس بجے جنازہ اٹھا اور گیارہ ساڑھے گیارہ بجے انہیں میانی صاحب کے قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔ افسوس کہ آج تک کسی کو ان کی قبر پختہ بنوانے یا لوحِ مزار تک نصب کرنے کی توفیق بھی نہیں ہوئی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے