Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

انور کمال پاشا

سعادت حسن منٹو

انور کمال پاشا

سعادت حسن منٹو

MORE BYسعادت حسن منٹو

    اگر کسی اسٹوڈیو میں آپ کو کسی مرد کی بلند آواز سنائی دے،اگر آپ سے کوئی بار بار ہونٹوں پر اپنی زبان پھیرتے ہوئے بڑے اونچے سروں میں بات کرے، یا کسی محفل میں کوئی اس انداز سے بول رہے ہیں جیسے وہ سانڈے کا تیل بیچ رہے ہیں تو آپ سمجھ جائیں گے کہ وہ حکیم احمد شجاع صاحب کے فرزند نیک اختر مسٹر انور کمال پاشا ہیں۔

    انور کمال پاشا کا نام جب میں نے پہلی مرتبہ کسی اخبار میں دیکھا تو میرا دماغ اس انور پاشا کی طرف چلا گیا جو’’ترکیہ‘‘ کا ہیرو تھا۔ بچپن میں ہم یہ پنجابی گانا گایا کرتے تھے۔

    مصطفے پاشا کمال وے تیریاں دور بلایاں

    کر بکرے یونانی حلا وے بیبا وانگ قصائیاں

    نال تیرے ہووے انور دی گھوڑی

    آگے یاد نہیں رہا کیا تھا۔

    مصطفے پاشا کمال اور انور پاشا دونوں نے مل کر ہزاروں یونانی بکرے حلال کیےلیکن بعد میں ان دونوں میں چپقلش شروع ہوگئی اور ایک دوسرے سے علیحدہ ہوگئے۔ میرا خیال ہے انور کمال پاشا نے ان دونوں شخصیتوں کو ذہنی طور پر متحد کرنے کے لیے یہ نام اختیار کیا۔ ہو سکتا ہے کوئی اور مصلحت پیش نظر ہورہی ہولیکن اگر آپ انور کمال پاشا صاحب کو دیکھیں تو ان میں نہ تو مصطفے کمال پاشا سا بھیڑیا پن (مؤرخ کمال اتاترک کو’’گرے ولف‘‘ کہتے تھے) اور نہ انور پاشا کا سا تیکھا پن۔۔۔میرا مطلب ہے انور کمال پاشا، یا تو بھیڑیے بننے کی کوشش میں بھیڑ بن کر رہ گیےہیں یا حسین بننے کی کوشش میں تھک ہار کر اپنے ہی خدوخال پر قناعت کر گئے ہیں۔

    بہر حال کچھ بھی ہو، قیاس آرائیوں سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا۔ انور کمال پاشا کی شخصیت منفرد ہے۔ گوانور پاشا کی آنکھوں کا بھیڑیا پن نہیں تو ان میں ایک ہلکی سی چمک ضرور ہےجو ظاہر کرتی ہے کہ وہ دوسروں پر چھا جانے کی قوت رکھتے ہیں۔ جسمانی قوت تو خیر ان میں اسی قدر ہوگی جتنی میرے جسمِ ناتواں میں ہے مگر وہ میری طرح دھونس جما کر اس کمی کو پورا کرہی لیتے ہیں۔ فلمی دنیا میں دراصل بلند بانگ دعوے ہی بااثر ثابت ہوتے ہیں۔ ایک محاورہ ہے ’’پدرم سلطان بود‘‘ لیکن اس کے برعکس انور کمال پاشا ہمیشہ یہ کہتے سنے گیے ہیں کہ میرا باپ سلطان نہیں گڈریا تھا، سلطان تو میں ہوں۔

    نفسیاتی اعتبار سے یہ نفی اکثر اوقات کارگر اور بااثر ثابت ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ انور کمال پاشا نفسیات کا مطالعہ کر چکے ہیں اس لیے وہ اس گر کو بڑی بے تکلفی سے استعمال کرتے چلے آئے ہیں۔ کہیں کہیں ٹھوکر بھی کھائی ہے لیکن ان کا الو سیدھا ہوتا رہا ہے۔ وہ اپنے باپ کے ناخلف بیٹے نہیں لیکن دنیوی کاروبار کے لیے دوسروں پر اپنا رعب جمانے کے لئے شاید وہ ضروری سمجھتے ہیں کہ حسب ضرورت اپنے والد محترم کے متعلق یہ کہہ دیں کہ وہ تو جاہل مطلق ہیں اور ان کے والد محترم کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہوتا اس لیے کہ وہ ہزار ہا پاپڑ بیلنے کے بعد اتنا جان گئے ہیں کہ میرا فرزند نیک اختر مجھے جاہل مطلق بنا کر ایک ایسی سیڑھی تعمیر کررہا ہے جس کے ذریعے سے اسے بامِ عروج پر پہنچنا ہے۔

    ابھی اس سیڑھی کے تمام زینے مکمل نہیں ہوئے لیکن امید ہے جلد ہو جائیں گے۔ اس لیے انور کمال پاشا بہت ممکن ہے کسی رسّے کو کھڑا کرکے عرش تک پہنچ جائے اور نامکمل سیڑھی کو حیرت زدہ چھوڑ جائے۔ اس میں شعبدہ بازی کے جراثیم موجود ہیں۔ جس طرح مداری اپنے منہ سے فٹ بال کی جسامت کے بڑے بڑے گولے نکالتا ہے اسی طرح وہ بھی کوئی اس قسم کاا سٹنٹ کرسکتا ہے۔لیکن مجھے حیرت ہے اور یہ حیرت اس لیے کہ وہ چالاک نہیں، عیار نہیں، دغا باز نہیں لیکن پھربھی جب لوگ اس کے منہ سے فٹ بال جتنے گولے باہر نکلتے دیکھتے ہیں تو کچھ عرصے کے لیے اس کی ساحری سے مرعوب ہو جاتے ہیں۔

    ہوسکتا ہے، بعد میں وہ اپنی حماقت پر افسوس کریں کہ یہ تو محض فریبِ نظر تھا، یا گولے نکالنے میں کوئی خاص ترکیب استعمال کی گئی مگر اس سے کیا ہوتا ہے۔ انور کمال پاشا اس دوران میں کوئی اور شعبدہ ایجاد کرلیتا ہے۔ اس وقت اپنا دوسرا فلم بنانے کے لیےسرمایہ داروں سے، بہت ممکن ہے یہ کہہ رہا ہو کہ میں اب کے ایسا فلم بنانے کا ارادہ رکھتا ہوں جو ہالی ووڈ بھی نہیں بنا سکتا۔ اس میں کوئی ایکٹر ہوگا نہ ایکٹریس۔ صرف کاٹھ پتلیاں ہوں گی جو بولیں گی۔ گانا گائیں گی اور ناچیں گی بھی۔۔۔ اور کلائمکس اس کا یہ ہوگا کہ وہ گوشت پوست کی بن جائیں گی۔

    انور کمال پاشا پڑھا لکھا ہے۔ ایم اے ہے۔ انگریزی ادب سے اسے کافی شغف رہا ہے۔ یہی وجہ ہے وہ اپنے فلموں کی کہانی اسی سے مستعار لیتا ہے اور حسبِ ضرورت یا حسبِ لیاقت اردو زبان میں ڈھال دیتاہے۔ اس کے فلموں کے کردار ہمیشہ ڈرامائی انداز میں گفتگو کرتے ہیں۔ خواہ اس کی ضرورت ہو یا نہ ہو۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ خود ڈرامائی انداز میں گفتگو کرنے کا عادی ہے۔ اس کی وجہ ایک اور بھی ہے کہ اس کے والد محترم جناب حکیم احمد شجاع صاحب کسی زمانے میں اچھے خاصے ڈرامہ نگار تھے۔ ان کا لکھا ہوا ڈرامہ’’باپ کا گناہ‘‘ بہت مشہور ہے۔ایک لطیفہ سنیے۔ انور کمال پاشا کے متعلق کسی جگہ گفتگوہورہی تھی۔ اس دوران میں ایک صاحب نے جن کا نام نہیں لینا چاہتا کہا، ’’جی میں انور صاحب کو جانتا ہوں، وہ باپ کا گناہ ہیں۔‘‘

    انور کمال پاشا بہر حال بڑی دلچسپ شخصیت کا مالک ہے۔ وہ اتنا بولتا، اتنا بولتا ہے کہ اس کے مقابلے میں اور کوئی نہیں بول سکتا۔ اصل میں جہاں تک میں سمجھتا ہوں وہ اپنی آواز خود سننا چاہتا ہے اور دل ہی دل میں داد دیتا ہے کہ انور کمال پاشا تو نے آج کمال کردیا۔ تیرے مقابلے میں اور کوئی اتنا زبردست مقرر نہیں ہوسکتا۔ اگر آپ نفسیات کے متعلق کچھ جانتے ہیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ بعض انسانوں کو یہ مرض ہوتا ہے کہ وہ ریکارڈ بن جائیں اور اسے گراموفون کی سوئی تلے رکھ کر ہر وقت سنتے رہیں۔ انور کمال پاشا بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔

    اس کے پاس اپنی گفتگوؤں کے کئی ریکارڈ ہیں جو اپنی زبان کی سوئی کے نیچے رکھ کربجانا شروع کردیتا ہے اور جب سارے ریکارڈ بج چکتے ہیں تو وہ ریڈیو کے فرمائشی پروگرام سننے والے بچوں کے مانند خوش ہو کر محفل سے چلا جاتا ہے۔اس کے خیالات میں \FIOCOATIAN\ کو بہت زیادہ دخل ہے۔ معلوم نہیں کیوں؟ یہ کوئی ماہر نفسیات ہی بتا سکتا ہے۔ اس کے اکثر فلموں میں دریا ضرور نظر آئے گا، اس میں ضرور کوئی ڈوبے گا۔ اس نے اب تک مندرجہ ذیل فلم بنائے ہیں جن میں سے کچھ کامیاب رہے اور کچھ ناکام۔

    ’دو آنسو‘، ’دلبر‘، ’غلام‘، ’گھبرو‘، ’گمنام‘۔

    اگر آپ نے یہ فلم دیکھے ہیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ ان میں کتنے فلموں میں دریا آتا ہے جس میں کہانیوں کے کردار گرے ہیں لیکن وہ موت کا قائل نہیں۔ وہ ان کو دریا میں گراتا ضرور ہے مگر بعد میں بتاتا ہے کہ وہ ڈوبا نہیں تھا یعنی مر نہیں گیا تھا، کسی نہ کسی ذریعے سے ( انور کمال پاشا کے اپنے دماغ کی عجیب و غریب تخلیق ہوتا ہے) زندہ رہا تھا۔

    معلوم نہیں، میں کہاں تک صحیح ہوں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ انور کمال پاشا کی زندگی بھی شاید ڈوب ڈوب کر زندہ رہنے سے دو چار رہی ہے۔

    اس نے اپنی زندگی میں کئی ندیاں پار کی ہیں۔ ایک تو وہ تھی جو سہرے جلوے کی بیاہی ہوئی تھی۔ اس کو پارکرنے میں تو خیر اس کو کوئی دقّت محسوس نہ ہوئی ہوگی مگر جب اس کے سامنے وہ ندی جس کا نام شمیم تھا، بمبئی سے بہتی ہوئی لاہور آئی تو اسے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ ماہر تیراک کے مانند اسے بھی پار کرگیا۔

    اس کو بہت دیر سے فلم بینی کا شوق تھا۔ بعد میں یہ شوق اس دھن میں تبدیل ہوگیا کہ وہ ایک فلم بنائے۔ جب شمیم سے اس کی راہ و رسم ہوئی تو اس نے اس سے فائدہ اٹھایا اور لاؤڈ اسپیکربن کر ہر طرف گونجنے لگا کہ، ’’آؤ میں فلم بنانا چاہتا ہوں۔ ہے کوئی سخی ایسا جو مجھے سرمایہ دے۔‘‘

    اس کی مسلسل صدا پر آخر کار اسے سرمایہ مل گیا۔ شمیم بمبئی میں ایک ایسی ندی تھی جس کا پانی بہت صاف ستھرا تھا۔ اس میں کئی غواص تیر چکے تھے لیکن کچھ عرصے کے بعد وہ پانی پتھر کی طرح ٹھہر گیا اس لیے کہ تیراکوں کے لیے وہ دلچسپی کا سامان نہ رہی۔ یہی وجہ ہے اسے اپنے وطن لاہور میں واپس آنا پڑا۔خیر اس قصے کو چھوڑیے۔ یہ کوئی اصول اور لگا بندھا قاعدہ تو نہیں لیکن عام طور پر یہی دیکھنے میں آیا ہے۔ فلم ڈائریکٹر، عورت کے ذریعے ہی سے آگے بڑھتے ہیں اور پیچھے بھی اس کی وجہ سے ہٹتے ہیں اور ایسے ہٹتے ہیں یا ہٹائے جاتے ہیں کہ ان کا نام و نشان تک باقی نہیں رہتا۔

    پاشا نے تھوڑی دیر کے بعد شمیم سے شادی کرلی جو اپنا تنگ ماتھا، چوڑا کرنے کے لیے قریب قریب ہر روز اپنے بال موچنے سے نوچتی رہتی تھی۔ پاشا نے اس کی خوشنودی کی خاطر ضرور مصنوعی طور پر اپنے سارے پروبال نوچ کے اس کے سامنے پلیٹ میں ڈال کر رکھ دیے ہوں گے۔ میں اب لمبے مضمون کو مختصر کرنا چاہتا ہوں اس لیے کہ میں انور کمال پاشا کی طرح طوالت پسند ہونا نہیں چاہتا۔ وہ بہت دلچسپ شخصیت کا مالک ہے اور اس شخصیت کے کئی پہلو ہیں۔وہ ہٹ دھرم بھی ہے اور تلون مزاج بھی، بکواسی بھی اور بعض اوقات سنجیدہ مزاج بھی۔

    اس کے کردارمیں جو میں نے خاص بات دیکھی، وہ یہ ہے کہ وہ مغلئی ٹھاٹ کا آدمی ہے، اس کی طبیعت میں آجائے تو وہ آپ کا منہ موتیوں سے بھر دے گا اور اگر وہ ’’موڈ‘‘ میں نہیں تو وہ آپ سے کوئی بات نہیں کرے گا۔میں آپ کو اختتامی طورپر ایک واقعہ سناتا ہوں۔ میں آج سے کچھ عرصہ پہلے شاہ نور اسٹوڈیو میں تھا، جہاں انور کمال پاشا اپنے فلم ’’گمنام‘‘ کی شوٹنگ میں مصروف تھا۔سردیوں کا موسم تھا، میں اپنے کمرے کے باہر کرسی پر بیٹھا ٹائپ رائٹر میزپر رکھے کچھ سوچ رہا تھا کہ پاشا اپنی کار سے اترا اور میرے پاس والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ علیک سلیک ہوئی۔ تھوڑی دیر کے بعد اس نے مجھ سے کہا:

    ’’منٹو صاحب! میں ایک سخت الجھن میں گرفتار ہوں۔‘‘

    میں نے اپنے خیالات جھٹک کر پوچھا، ’’کیا الجھن ہے آپ کو؟‘‘

    اس نے کہا، ’’یہ فلم جو میں بنا رہا ہوں، اس میں ایک مقام پر اٹک گیا ہوں، آپ کی رائے لینا چاہتا ہوں،ممکن ہے آپ مشکل کشائی کرسکیں۔‘‘ میں نے اس سے کہا، ’’میں حاضر ہوں فرمائیے! آپ کہاں اٹکے ہوئے ہیں؟‘‘ اس نے مجھے اپنے فلم کی کہانی سنانا شروع کردی۔ دو سین تفصیل سے اس انداز میں سنائے جیسے پولیس جیپ میں بیٹھی لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے سے راہ چلتے لوگوں کو ہدایت کررہی ہے کہ انہیں بائیں ہاتھ چلنا چاہئے۔ میں اپنی زندگی میں ہمیشہ الٹے ہاتھ چلا ہوں اس لیے میں نے پاشا سے کہا، ’’آپ کو ساری کہانی سنانے کی ضرورت نہیں۔ میں سمجھ گیا ہوں کہ آپ کس گڑھے میں پھنسے ہوئے ہیں۔‘‘ پاشا نے حیرت آمیز لہجے میں مجھ سے پوچھا،’’آپ کیسے سمجھ گئے؟‘‘ میں نے اس کوسمجھا دیا اور اس کی مشکل کا حل بھی بتا دیا۔ جب اس نے میری تجویز سنی تو اٹھ کر ادھر ادھر ٹہلنا شروع کردیا اور اس کے بعد کہا،’’ہاں کچھ ٹھیک ہی معلوم ہوتا ہے۔‘‘

    میں ذرا چڑ سا گیا، ’’حضرت! اس سے بہتر حل آپ کو اور کوئی پیش نہیں کرسکتا۔ مصیبت یہ ہے کہ میں فوری طور پر سوچنے کا عادی ہوں۔۔۔ اگر میں نے یہی حل آپ کو دس بارہ روز کے بعد پیش کیا ہوتا تو آپ نے کہا ہوتا سبحان اللہ۔ مگر اب کہ میں نے چند منٹوں میں آپ کی مشکل حل کردی ہے تو آپ کہتے ہیں ہاں کچھ ٹھیک ہی معلوم ہوتا ہے۔ آپ کو شاید اس مشورے کی قیمت معلوم نہیں۔‘‘ پاشا نے فوراً اپنے پروڈکشن منیجر کو بلایا۔ اس سے چیک بک لی اور اس پر کچھ لکھا۔ چیک پھاڑ کر بڑے خلوص سے مجھے دیا، ’’آپ یہ قبول فرمائیں۔‘‘ اس کے اصرار پرمیں نے یہ چیک لے لیا۔۔۔ جو پانچ سو روپے کا تھا۔۔۔ یہ میری زیادتی تھی۔ اگر میں آسودہ حال ہوتا تو یقیناً میں نے یہ چیک پھاڑ دیا ہوتا لیکن انسان بھی کتنا ذلیل ہے یا اس کے حالات زندگی کتنے افسوس ناک ہیں کہ وہ گراوٹ پر مجبور ہو جاتا ہے۔۔۔!

    میں اب اس مضمون کو ختم کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ انور کمال پاشا اپنے سہرے جلوے کی بیاہی بیوی سے بچے پیدا کرتا ہے جن کی نگہداشت شمیم کرتی ہے۔ وہ ریل گاڑی ہے جو مسافروں کو اپنے اندر جگہ دیتی ہے اور انور کمال پاشا انجن ڈرائیور ہے جو اس کے پیٹ میں ایندھن جھونکتا رہتا ہے لیکن مجھے یوں محسوس ہوتا کہ وہ ریل گاڑی کے انجن کی ایسی سیٹی ہے جو رات کی خاموش فضا میں’’فیڈ آؤٹ‘‘ ہو رہی ہے۔

    مأخذ:

    لاؤڈ اسپیکر (Pg. 212)

    • مصنف: سعادت حسن منٹو
      • ناشر: ساقی بک ڈپو، دہلی
      • سن اشاعت: 1987

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے