- کتاب فہرست 181620
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1877
طب795 تحریکات284 ناول4121 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار64
- دیوان1404
- دوہا65
- رزمیہ97
- شرح174
- گیت87
- غزل945
- ہائیکو12
- حمد35
- مزاحیہ37
- انتخاب1506
- کہہ مکرنی6
- کلیات640
- ماہیہ18
- مجموعہ4542
- مرثیہ362
- مثنوی775
- مسدس53
- نعت497
- نظم1130
- دیگر65
- پہیلی17
- قصیدہ176
- قوالی19
- قطعہ55
- رباعی273
- مخمس18
- ریختی12
- باقیات27
- سلام32
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی26
- ترجمہ73
- واسوخت24
تمام
تعارف
ای-کتاب205
افسانہ233
مضمون40
اقوال107
افسانچے29
طنز و مزاح1
خاکہ24
ڈرامہ59
ترجمہ2
ویڈیو 82
گیلری 4
بلاگ5
دیگر
ناولٹ1
خط10
سعادت حسن منٹو کے خاکے
منٹو
منٹو کے متعلق اب تک بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے۔ اس کے حق میں کم اور خلاف زیادہ۔ یہ تحریریں اگر پیشِ نظر رکھی جائیں تو کوئی صاحبِ عقل منٹو کے متعلق کوئی صحیح رائے قائم نہیں کر سکتا۔ میں یہ مضمون لکھنے بیٹھا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ منٹو کے متعلق
نور جہاں سرور جہاں
میں نے شاید پہلی مرتبہ نور جہاں کو فلم ’’خاندان‘‘ میں دیکھا تھا۔ اس زمانے میں وہ بے بی تھی۔ حالانکہ پردے پروہ ہرگز ہرگز اس قسم کی چیز معلوم نہیں ہوتی تھی۔ اس کے جسم میں وہ تمام خطوط، وہ تمام قوسیں موجود تھیں جو ایک جوان لڑکی کے جسم میں ہو سکتی ہیں
عصمت چغتائی
آج سے تقریباً ڈ یڑھ برس پہلے جب میں بمبئی میں تھا، حیدر آباد سے ایک صاحب کا ڈاک کارڈ موصول ہوا۔ مضمون کچھ اس قسم کا تھا، ’’یہ کیا بات ہے کہ عصمت چغتائی نے آپ سے شادی نہ کی؟ منٹو اور عصمت۔ اگر یہ دو ہستیاں مل جاتیں تو کتنا اچھا ہوتا مگر افسوس کہ عصمت
اختر شیرانی سے چند ملاقاتیں
خدا معلوم کتنے برس گزر چکے ہیں۔ حافظہ ا س قد ر کمزور ہے کہ نام، سن اور تاریخ کبھی یاد ہی نہیں رہتے۔ امرتسر میں غازی عبدالرحمن صاحب نے ایک روزانہ پرچہ’’مساوات‘‘ جاری کیا۔ اس کی ادارت کے لئے باری علیگ (مرحوم) اور ابو العلاء چشتی الصحافی(حاجی لق لق)
اشوک کمار
نجم الحسن جب دیوکارانی کو لے اڑا تو بمبئی ٹاکیز میں افراتفری پھیل گئی۔ فلم کا آغاز ہو چکا تھا۔ چند مناظر کی شوٹنگ پایہ تکمیل کو پہنچ چکی تھی کہ نجم الحسن اپنی ہیروئن کو سلولائڈ کی دنیا سے کھینچ کر حقیقت کی دنیا میں لے گیا۔ بمبے ٹاکیز میں سب سے زیادہ
میرا صاحب
یہ سن سینتیس کا ذکر ہے۔ مسلم لیگ روبہ شباب تھی۔ میں خود شباب کی ابتدائی منزلوں میں تھا جب خواہ مخواہ کچھ کرنے کو جی چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ صحت مند تھا، طاقت ور تھا اور جی میں ہر وقت یہی خواہش تڑپتی تھی کہ سامنے جو قوت آئے اس سے بھڑ جاؤں۔ اگر کوئی قوت
تین گولے
حسن بلڈنگز کے فلیٹ نمبر ایک میں تین گولے میرے سامنے میز پر پڑے تھے، میں غور سے ان کی طرف دیکھ رہا تھااور میرا جی کی باتیں سن رہا تھا۔ اس شخص کو پہلی بار میں نے یہیں دیکھا۔ غالباً سن چالیس تھا۔ بمبے چھوڑ کرمجھے دہلی آئے کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا۔
پری چہرہ نسیم بانو
میرا فلم دیکھنے کا شوق امرتسر ہی میں ختم ہو چکا تھا۔ اس قدر فلم دیکھے تھے کہ اب ان میں میرے لئے کوئی کشش ہی نہ رہی تھی۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ جب میں ہفتہ وار’’مصور‘‘ کو ایڈٹ کرنے کے سلسلے میں بمبئی پہنچا تو مہینوں کسی سینما کا رخ نہ کیا۔ پرچہ فلمی
مرلی کی دھن
اپریل کی تیئس یا چوبیس تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد نہیں رہا۔ پاگل خانے میں شراب چھوڑنے کے سلسلے میں زیر علاج تھا کہ شیام کی موت کی خبر ایک اخبار میں پڑھی۔ ان دنوں ایک عجیب و غریب کیفیت مجھ پرطاری تھی۔ بے ہوشی اور نیم بے ہوشی کے ایک چکر میں پھنسا ہوا تھا۔
آغا حشر سے دو ملاقاتیں
تاریخیں اور سن مجھے کبھی یاد نہیں رہے، یہی وجہ ہے کہ یہ مضمون لکھتے وقت مجھے کافی الجھن ہو رہی ہے۔ خدا معلوم کون سا سن تھا اور میری عمر کیا تھی، لیکن صرف اتنا یاد ہے کہ بصد مشکل انٹرنس پاس کرکے اور دو دفعہ ایف۔ اے میں فیل ہونے کے بعد میری طبیعت پڑھائی
باری صاحب
مستبد اور جابر حکمرانوں کا عبرت ناک انجام روس کے گلی کوچوں میں صدائے انتقام زاریت کے تابوت میں آخری کیل ان تین جلی سرخیوں کے قدِ آدم ا شتہار امرتسر کی متعدد دیواروں پر چسپاں تھے۔ لوگ زیادہ تر صرف یہ سرخیاں ہی پڑھتے تھے اور آپس میں چہ میگوئیاں
نرگس
عرصہ ہوا، نواب چھتاری کی صاحب زادی تسنیم (مسز تسنیم سلیم) نے مجھے ایک خط لکھا تھا: ’’تو کیا خیال ہے آپ کا اپنے بہنوئی کے متعلق؟ وہ جو اندازہ آپ کی طرف سے لگا کر لوٹے ہیں تو مجھے اپنے لیے شادی مرگ کا اندیشہ ہوا جاتا ہے۔ اب میں آپ کو تفصیل سے بتادوں
چراغ حسن حسرت
مولانا چراغ حسن حسرت جنہیں اپنی اختصار پسندی کی وجہ سے حسرت صاحب کہتا ہوں، عجیب و غریب شخصیت کے مالک ہیں۔ آپ پنجابی محاورے کے مطابق دودھ دیتے ہیں مگر مینگنیاں ڈال کر۔ ویسے یہ دودھ پلانے والے جانوروں کی قبیل سے نہیں ہیں حالانکہ کافی بڑے کان رکھتے ہیں۔
کشت زعفران
’’لائٹس اون۔۔۔ فین اوف۔۔۔ کیمرہ ریڈی۔۔۔ شارٹ مسٹر جگتاپ!‘‘ ’’سٹارٹڈ‘‘ ’’سین تھر ٹی فور۔۔۔ ٹیک ٹن۔‘‘ ’’نیلا دیوی آپ کچھ فکر نہ کیجئے۔ میں نے بھی پشاور کا پیشاب پیاہے۔‘‘ ’’کٹ کٹ‘‘ لائٹس اون ہوئیں۔ وی ایچ ڈیسائی نے رائفل ایک طرف
انور کمال پاشا
اگر کسی اسٹوڈیو میں آپ کو کسی مرد کی بلند آواز سنائی دے،اگر آپ سے کوئی بار بار ہونٹوں پر اپنی زبان پھیرتے ہوئے بڑے اونچے سروں میں بات کرے، یا کسی محفل میں کوئی اس انداز سے بول رہے ہیں جیسے وہ سانڈے کا تیل بیچ رہے ہیں تو آپ سمجھ جائیں گے کہ وہ حکیم
ستارہ
لکھنے کے معاملے میں، میں نے بڑے بڑے کڑے مراحل طے کیے ہیں لیکن مشہور رقاصہ اور ایکٹرس ستارہ کے بارے میں اپنے تاثرات قلم بند کرنے میں مجھے بڑی ہچکچاہٹ کا سامنا کرنا پڑا ہے، آپ تو اسے ایک ایکٹریس کی حیثیت سے جانتے ہیں جو ناچتی بھی ہے اور خوب ناچتی
پراسرار نینا
شاہدہ جوکہ محسن عبداللہ کی فرماں بردار بیوی تھی اور اپنے گھرمیں خوش تھی اس لیے کہ علی گڑھ میں میاں بیوی کی محبت ہوئی تھی اور یہ محبت ان دونوں کے دلوں میں ایک عرصے تک برقرار رہی۔ شاہدہ اس قسم کی لڑکی تھی جو اپنے خاوند کے سوا اور کسی مرد کی طرف نظر
رفیق غزنوی
معلوم نہیں کیوں لیکن میں جب بھی رفیق غزنوی کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے معاً محمود غزنوی کا خیال آتا ہے جس نے ہندوستان پرسترہ حملے کیے تھے جن میں سے بارہ مشہور ہیں۔ رفیق غزنوی اور محمود غزنوی میں اتنی مماثلت ضرور ہے کہ دونوں بت شکن ہیں۔ رفیق غزنوی
بابو راؤ پاٹیل
غالباً سن اڑتالیس کی بات ہے کہ بابو راؤ سے میری ملاقات ہوئی۔ میں ان دنوں ہفتہ وار’’مصّور‘‘ ایڈٹ کیا کرتا تھا، تنخواہ واجبی تھی، یعنی کل چالیس روپے ماہوار۔ ’’مصّور‘‘ کا مالک نذیر لدھیانوی چاہتا تھا کہ میری اس آمدنی میں کچھ اضافہ ہو جائے، چنانچہ
دیوان سنگھ مفتون
لغت میں’’مفتون‘‘ کا مطلب عاشق بیان کیا گیا ہے۔ اب ذرا اس عاشق زار کا حلیہ ملاحظہ فرمائیے۔ ناٹا قد، بھّدا جسم، ابھری ہوئی توند، وزنی سر جس پر چھدرے کھچڑی بال جو کیس کہلانے کے ہرگز مستحق نہیں۔ اکٹھے کیے جائیں تو بمشکل کسی کٹر برہمن کی چوٹی بنے۔ گہرا
کے کے
یہ اس مشہور ایکٹریس کا نام ہے جو ہندوستان کے متعدد فلموں میں آچکی ہے اور آپ نے یقیناً اسے سیمیں پردے پر کئی مرتبہ دیکھا ہوگا۔ میں جب بھی اس کا نام کسی فلم کے اشتہار میں دیکھتا ہوں تو میرے تصور میں اس کی شکل بعد میں، لیکن سب سے پہلے اس کی ناک ابھرتی
نواب کاشمیری
یوں تو کہنے کو ایک ایکٹر تھا جس کی عزت اکثر لوگوں کی نظر میں کچھ نہیں ہوتی، جس طرح مجھے بھی محض افسانہ نگار سمجھا جاتا ہے یعنی ایک فضول سا آدمی۔ پر یہ فضول سا آدمی اس فضول سے آدمی کا جتنا احترام کرتا تھا، وہ کوئی بے فضول شخصیت، کسی بے فضول شخصیت کا
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets
-
ادب اطفال1877
-