- کتاب فہرست 180758
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1643
طب539 تحریکات257 ناول3422 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی9
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1328
- دوہا61
- رزمیہ92
- شرح149
- گیت85
- غزل744
- ہائیکو11
- حمد31
- مزاحیہ38
- انتخاب1383
- کہہ مکرنی7
- کلیات630
- ماہیہ16
- مجموعہ3988
- مرثیہ328
- مثنوی678
- مسدس44
- نعت423
- نظم1001
- دیگر42
- پہیلی14
- قصیدہ140
- قوالی9
- قطعہ51
- رباعی255
- مخمس18
- ریختی17
- باقیات27
- سلام28
- سہرا8
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی19
- ترجمہ80
- واسوخت24
تمام
تعارف
ای-کتاب185
افسانہ233
مضمون40
اقوال107
افسانچے29
طنز و مزاح1
خاکہ24
ڈرامہ59
ترجمہ2
ویڈیو 82
گیلری 4
بلاگ5
دیگر
ناولٹ1
خط10
سعادت حسن منٹو کے خاکے
منٹو
منٹو کے متعلق اب تک بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے۔ اس کے حق میں کم اور خلاف زیادہ۔ یہ تحریریں اگر پیشِ نظر رکھی جائیں تو کوئی صاحبِ عقل منٹو کے متعلق کوئی صحیح رائے قائم نہیں کر سکتا۔ میں یہ مضمون لکھنے بیٹھا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ منٹو کے متعلق
نور جہاں سرور جہاں
میں نے شاید پہلی مرتبہ نور جہاں کو فلم ’’خاندان‘‘ میں دیکھا تھا۔ اس زمانے میں وہ بے بی تھی۔ حالانکہ پردے پروہ ہرگز ہرگز اس قسم کی چیز معلوم نہیں ہوتی تھی۔ اس کے جسم میں وہ تمام خطوط، وہ تمام قوسیں موجود تھیں جو ایک جوان لڑکی کے جسم میں ہو سکتی ہیں
عصمت چغتائی
آج سے تقریباً ڈ یڑھ برس پہلے جب میں بمبئی میں تھا، حیدر آباد سے ایک صاحب کا ڈاک کارڈ موصول ہوا۔ مضمون کچھ اس قسم کا تھا، ’’یہ کیا بات ہے کہ عصمت چغتائی نے آپ سے شادی نہ کی؟ منٹو اور عصمت۔ اگر یہ دو ہستیاں مل جاتیں تو کتنا اچھا ہوتا مگر افسوس کہ عصمت
اختر شیرانی سے چند ملاقاتیں
خدا معلوم کتنے برس گزر چکے ہیں۔ حافظہ ا س قد ر کمزور ہے کہ نام، سن اور تاریخ کبھی یاد ہی نہیں رہتے۔ امرتسر میں غازی عبدالرحمن صاحب نے ایک روزانہ پرچہ’’مساوات‘‘ جاری کیا۔ اس کی ادارت کے لئے باری علیگ (مرحوم) اور ابو العلاء چشتی الصحافی(حاجی لق لق)
اشوک کمار
نجم الحسن جب دیوکارانی کو لے اڑا تو بمبئی ٹاکیز میں افراتفری پھیل گئی۔ فلم کا آغاز ہو چکا تھا۔ چند مناظر کی شوٹنگ پایہ تکمیل کو پہنچ چکی تھی کہ نجم الحسن اپنی ہیروئن کو سلولائڈ کی دنیا سے کھینچ کر حقیقت کی دنیا میں لے گیا۔ بمبے ٹاکیز میں سب سے زیادہ
میرا صاحب
یہ سن سینتیس کا ذکر ہے۔ مسلم لیگ روبہ شباب تھی۔ میں خود شباب کی ابتدائی منزلوں میں تھا جب خواہ مخواہ کچھ کرنے کو جی چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ صحت مند تھا، طاقت ور تھا اور جی میں ہر وقت یہی خواہش تڑپتی تھی کہ سامنے جو قوت آئے اس سے بھڑ جاؤں۔ اگر کوئی قوت
پری چہرہ نسیم بانو
میرا فلم دیکھنے کا شوق امرتسر ہی میں ختم ہو چکا تھا۔ اس قدر فلم دیکھے تھے کہ اب ان میں میرے لئے کوئی کشش ہی نہ رہی تھی۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ جب میں ہفتہ وار’’مصور‘‘ کو ایڈٹ کرنے کے سلسلے میں بمبئی پہنچا تو مہینوں کسی سینما کا رخ نہ کیا۔ پرچہ فلمی
تین گولے
حسن بلڈنگز کے فلیٹ نمبر ایک میں تین گولے میرے سامنے میز پر پڑے تھے، میں غور سے ان کی طرف دیکھ رہا تھااور میرا جی کی باتیں سن رہا تھا۔ اس شخص کو پہلی بار میں نے یہیں دیکھا۔ غالباً سن چالیس تھا۔ بمبے چھوڑ کرمجھے دہلی آئے کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا۔
باری صاحب
مستبد اور جابر حکمرانوں کا عبرت ناک انجام روس کے گلی کوچوں میں صدائے انتقام زاریت کے تابوت میں آخری کیل ان تین جلی سرخیوں کے قدِ آدم ا شتہار امرتسر کی متعدد دیواروں پر چسپاں تھے۔ لوگ زیادہ تر صرف یہ سرخیاں ہی پڑھتے تھے اور آپس میں چہ میگوئیاں
مرلی کی دھن
اپریل کی تیئس یا چوبیس تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد نہیں رہا۔ پاگل خانے میں شراب چھوڑنے کے سلسلے میں زیر علاج تھا کہ شیام کی موت کی خبر ایک اخبار میں پڑھی۔ ان دنوں ایک عجیب و غریب کیفیت مجھ پرطاری تھی۔ بے ہوشی اور نیم بے ہوشی کے ایک چکر میں پھنسا ہوا تھا۔
نرگس
عرصہ ہوا، نواب چھتاری کی صاحب زادی تسنیم (مسز تسنیم سلیم) نے مجھے ایک خط لکھا تھا: ’’تو کیا خیال ہے آپ کا اپنے بہنوئی کے متعلق؟ وہ جو اندازہ آپ کی طرف سے لگا کر لوٹے ہیں تو مجھے اپنے لیے شادی مرگ کا اندیشہ ہوا جاتا ہے۔ اب میں آپ کو تفصیل سے بتادوں
آغا حشر سے دو ملاقاتیں
تاریخیں اور سن مجھے کبھی یاد نہیں رہے، یہی وجہ ہے کہ یہ مضمون لکھتے وقت مجھے کافی الجھن ہو رہی ہے۔ خدا معلوم کون سا سن تھا اور میری عمر کیا تھی، لیکن صرف اتنا یاد ہے کہ بصد مشکل انٹرنس پاس کرکے اور دو دفعہ ایف۔ اے میں فیل ہونے کے بعد میری طبیعت پڑھائی
چراغ حسن حسرت
مولانا چراغ حسن حسرت جنہیں اپنی اختصار پسندی کی وجہ سے حسرت صاحب کہتا ہوں، عجیب و غریب شخصیت کے مالک ہیں۔ آپ پنجابی محاورے کے مطابق دودھ دیتے ہیں مگر مینگنیاں ڈال کر۔ ویسے یہ دودھ پلانے والے جانوروں کی قبیل سے نہیں ہیں حالانکہ کافی بڑے کان رکھتے ہیں۔
ستارہ
لکھنے کے معاملے میں، میں نے بڑے بڑے کڑے مراحل طے کیے ہیں لیکن مشہور رقاصہ اور ایکٹرس ستارہ کے بارے میں اپنے تاثرات قلم بند کرنے میں مجھے بڑی ہچکچاہٹ کا سامنا کرنا پڑا ہے، آپ تو اسے ایک ایکٹریس کی حیثیت سے جانتے ہیں جو ناچتی بھی ہے اور خوب ناچتی
انور کمال پاشا
اگر کسی اسٹوڈیو میں آپ کو کسی مرد کی بلند آواز سنائی دے،اگر آپ سے کوئی بار بار ہونٹوں پر اپنی زبان پھیرتے ہوئے بڑے اونچے سروں میں بات کرے، یا کسی محفل میں کوئی اس انداز سے بول رہے ہیں جیسے وہ سانڈے کا تیل بیچ رہے ہیں تو آپ سمجھ جائیں گے کہ وہ حکیم
کشت زعفران
’’لائٹس اون۔۔۔ فین اوف۔۔۔ کیمرہ ریڈی۔۔۔ شارٹ مسٹر جگتاپ!‘‘ ’’سٹارٹڈ‘‘ ’’سین تھر ٹی فور۔۔۔ ٹیک ٹن۔‘‘ ’’نیلا دیوی آپ کچھ فکر نہ کیجئے۔ میں نے بھی پشاور کا پیشاب پیاہے۔‘‘ ’’کٹ کٹ‘‘ لائٹس اون ہوئیں۔ وی ایچ ڈیسائی نے رائفل ایک طرف
پراسرار نینا
شاہدہ جوکہ محسن عبداللہ کی فرماں بردار بیوی تھی اور اپنے گھرمیں خوش تھی اس لیے کہ علی گڑھ میں میاں بیوی کی محبت ہوئی تھی اور یہ محبت ان دونوں کے دلوں میں ایک عرصے تک برقرار رہی۔ شاہدہ اس قسم کی لڑکی تھی جو اپنے خاوند کے سوا اور کسی مرد کی طرف نظر
بابو راؤ پاٹیل
غالباً سن اڑتالیس کی بات ہے کہ بابو راؤ سے میری ملاقات ہوئی۔ میں ان دنوں ہفتہ وار’’مصّور‘‘ ایڈٹ کیا کرتا تھا، تنخواہ واجبی تھی، یعنی کل چالیس روپے ماہوار۔ ’’مصّور‘‘ کا مالک نذیر لدھیانوی چاہتا تھا کہ میری اس آمدنی میں کچھ اضافہ ہو جائے، چنانچہ
تپش کشمیری
مجھے ان کا اصل نام ابھی تک معلوم نہیں۔۔۔ حالانکہ میں ان کو بارہ برس سے جانتا ہوں۔۔۔ سات برس تو ہم اکٹھے ایک ساتھ رہے۔۔۔ دراصل ان کا نام پوچھنے کی مجھے کبھی ضرورت ہی محسوس نہ ہوئی۔۔۔ تپش کاشمیری کافی تھا۔۔۔ وہ اس نام سے مشہور تھے۔ تپش کاشمیری
رفیق غزنوی
معلوم نہیں کیوں لیکن میں جب بھی رفیق غزنوی کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے معاً محمود غزنوی کا خیال آتا ہے جس نے ہندوستان پرسترہ حملے کیے تھے جن میں سے بارہ مشہور ہیں۔ رفیق غزنوی اور محمود غزنوی میں اتنی مماثلت ضرور ہے کہ دونوں بت شکن ہیں۔ رفیق غزنوی
کے کے
یہ اس مشہور ایکٹریس کا نام ہے جو ہندوستان کے متعدد فلموں میں آچکی ہے اور آپ نے یقیناً اسے سیمیں پردے پر کئی مرتبہ دیکھا ہوگا۔ میں جب بھی اس کا نام کسی فلم کے اشتہار میں دیکھتا ہوں تو میرے تصور میں اس کی شکل بعد میں، لیکن سب سے پہلے اس کی ناک ابھرتی
پارو دیوی
’’چل چل رے نوجوان‘‘ کی ناکامی کا صدمہ ہمارے دل و دماغ سے قریب قریب مند مل ہو چکا تھا۔ گیان مکرجی، فلمستان کے لیے ایک پروپیگنڈہ کہانی لکھنے میں ایک عرصے سے مصروف تھے۔ کہانی لکھنے لکھانے اور اسے پاس کرانے سے پیشتر نلنی جیونت اور اس کے شوہر وریندر
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi
GET YOUR PASS
-
ادب اطفال1643
-