Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نرگس

MORE BYسعادت حسن منٹو

    عرصہ ہوا، نواب چھتاری کی صاحب زادی تسنیم (مسز تسنیم سلیم) نے مجھے ایک خط لکھا تھا:

    ’’تو کیا خیال ہے آپ کا اپنے بہنوئی کے متعلق؟ وہ جو اندازہ آپ کی طرف سے لگا کر لوٹے ہیں تو مجھے اپنے لیے شادی مرگ کا اندیشہ ہوا جاتا ہے۔ اب میں آپ کو تفصیل سے بتادوں کہ یہ حضرت مجھے آپ کے نام سے چھیڑا کرتے تھے، اور ان کا خیال تھا کہ جب وہ میرے نادیدہ بھائی سے ملیں گے، تو نہ جانے کیا کیا حماقتیں سرزد ہوں گی۔۔۔ اور مجھے شرمندگی ہوگی۔ اور آپ پرسوں سے مصر ہیں کہ بمبئی چل کر منٹو سے ملو۔ بہت دلچسپ آدمی ہیں۔ اور اس طرح کہتے ہیں، گویا منٹو میرے بجائے ان کا بھائی ہے۔ اور میں ہمیشہ سے کہتی تھی کہ دیکھنا یہ حضرت کیسے نکلتے ہیں۔۔۔ زبردستی تو ملاحظہ کیجئے۔۔۔ بہر حال بہت خوش ہیں کہ میرا انتخاب بہت خوب رہا۔۔۔ ہمارے برادرِ محترم یعنی ابن بھائی سلیم سے قبل ہی پہنچ گیے تھے اور انہوں نے سب سے قبل یہی بات بتائی کہ وہ آپ سے نیاز حاصل کرکے آئے ہیں۔ نرگس کا ذکر عمداً گول کرکے باقی سب تفصیل سے بتادیا۔ پھر جب سلیم آئے تو انہوں نے نہ صرف داستانِ جبہ سائی بتائی، بلکہ آپ کی اور نخشب کی جنگ کا واقعہ بھی دلچسپی سے بیان کیا۔ اس سلسلے میں سلیم معافی خواہ ہیں۔ دوبارہ جدن بائی کے یہاں جانے کے محرک شمشاد بھائی (جو آپ سے مل چکے ہیں) وغیرہ تھے۔ اور ان سے ممکن ہوتا تو آپ سے علاوہ نہ جاتے۔ اور یہ تو آپ بھی جانتے ہیںکہ سلیم کو اگر عشق ہوا ہے تو لیلا چٹنس سے ورنہ ایسے بد نظر بھی نہیں۔‘‘

    میں بہت مصروف تھا جب سلیم میرے یہاں آئے۔ ان سے میری پہلی ملاقات تھی، اور بقول تسنیم کے وہ میرے بہنوئی تھے۔ اس لیے ان کی خاطر داری کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ گھر میں جو حاضر تھا ان کو اور ان کے مصاحبوں کی خدمت میں پیش کردیا۔ فلم سے متعلق لوگوں کے پاس ایک تحفے کی چیز ’’شوٹنگ‘‘ ہوتی ہے چنانچہ وہ بھی ان کو شری ساؤنڈ اسٹوڈیو میں دکھا دی گئی۔ غالباً ’’پھول‘‘ کی تھی جسے ڈائرکٹر دھانسو یعنی آصف بنا رہا تھا۔

    سلیم اور ان کے ساتھیوں کو بظاہر مطمئن ہو جانا چاہئے تھا۔ مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنا پروگرام بنا کر بمبے پہنچے تھے۔ سلیم نے برسبیلِ تذکرہ مجھ سے پوچھا، ’’کیوں صاحب نرگس کہاں ہوتی ہے آج کل؟‘‘

    میں نے ازراہِ مذاق کہا، ’’اپنی ماں کے پاس۔‘‘

    میرا مذاق غیر طبعی موت کی گود میں چلا گیا۔ جب میرے مہمانوں میں سے ایک نے بڑی نوابانہ سادہ لوحی سے کہا، ’’جدن بائی کے پاس؟‘‘

    ’’جی ہاں‘‘

    سلیم نے پوچھا، ’’کیا اس سے ملاقات ہو سکتی ہے۔۔۔میرا یہ مطلب ہے کہ میرے یہ دوست اس کو دیکھنے کے بہت مشتاق ہیں۔۔۔ کیا آپ اس کو جانتے ہیں؟‘‘

    میں نے جواب دیا، ’’جانتا ہوں۔۔۔ مگر معمولی سا۔‘‘

    ایک صاحب نے بڑے بے ڈھب انداز میں سوال کیا، ’’کیوں؟‘‘

    ’’اس لیے کہ اسے اور مجھے ابھی تک کسی فلم میں اکٹھےکام کرنے کا موقع نہیں ملا۔‘‘

    سلیم نے یہ سن کر کہا، ’’تو چھوڑیئے۔۔۔ ہم آپ کو خواہ مخواہ تکلیف دینا نہیں چاہتے۔‘‘

    لیکن میں خود نرگس کے ہاں جانا چاہتا تھا۔ کئی دفعہ ارادہ کیا تھا مگر اکیلا جانا مجھے پسند نہیں تھا۔ ساتھ ملتا تو تھا مگر نہایت ہی بے ہودہ۔ یعنی دیدے پھاڑ پھاڑ کرگھورنے والا۔ اب موقعہ تھا، آدمی سادہ لوح تھے، محض عیاشی کے طور پر نرگس کو ایک نظر دیکھنا چاہتے تھے تاکہ واپس اپنی جاگیروں اور ریاستوں میں جا کر اپنے دوستوں اور مصاحبوں کو مشہور فلم اسٹار نرگس کے چشم دید حالات سنائیں۔ چنانچہ میں نے سلیم سے کہا، ’’تکلیف کی کوئی بات نہیں۔ چلتے ہیں۔ ممکن ہے ملاقات ہو جائے۔‘‘

    میں نرگس سے کیوں ملنا چاہتا تھا۔ بمبے میں اتنی ایکٹرسیں تھیں جن کے ہاں میں جب چاہتا آجاسکتا تھا، مگر خاص طور پر نرگس سے ملنے کا مطلب کیا تھا؟ میرا خیال ہے، اس کا جواب دینے سے پہلے میں آپ کو ایک دلچسپ واقعہ سنا دوں۔

    میں فلمستان میں ملازم تھا۔ صبح جاتا تو شام کو آٹھ کے قریب لوٹتا۔ ایک روز اتفاق سے واپسی جلدی ہوئی۔ یعنی میں دوپہرہی کے قریب گھر پہنچ گیا۔ اندر داخل ہوا تو ساری فضا مرتعش نظر آئی۔ جیسے کوئی ساز کے تار چھیڑ کر خود چھپ گیا ہے۔ ڈریسنگ ٹیبل کے پاس میری دو سالیاں کھڑی بظاہر اپنے بال گوندھ رہی تھیں، مگر ان کی انگلیاں ہوامیں چل رہی تھیں، ہونٹ دونوں کے پھڑپھڑا رہے تھے مگر آواز نہیں نکلتی تھی۔ دونوں مل جل کر گھبراہٹ کی ایسی تصویر پیش کررہی تھی جو اپنی گھبراہٹ چھپانے کی خاطر بے مطلب دوپٹہ اوڑھنے کی کوشش کررہی ہو۔ملحقہ کمرے کے دروازے کا پردہ اندر کی طرف دبا ہوا تھا۔

    میں صوفے پر بیٹھ گیا۔ دونوں بہنوں نے ایک دوسرے کی طرف قصور وار نگاہوں سے دیکھا۔ ہولے ہولے کُھسر پھسر کی ۔ پھر دونوں نے بیک وقت کہا، ’’بھاجی سلام۔‘‘

    ’’وعلیکم السلام‘‘ میں نے غور سے ان کی طرف دیکھا، ’’کیا بات ہے؟‘‘

    میں نے سوچا کہ سب مل کرسینما جارہی ہیں۔ دونوں نے میرا سوال سن کر پھر کھسر پھسر کی۔ پھر ایک دم کھکھلا کر ہنسیں اور دوسرے کمرے میں بھاگ گئیں۔ میں نے سوچا کہ شاید انہوں نے اپنی کسی سہیلی کو مدعو کیا ہے، وہ آنے والی ہے اور چونکہ میں غیر متوقع طور پر جلد چلا آیا ہوں۔ اس لئے ان کا پروگرام درہم برہم ہوگیا ہے۔

    دوسرے کمرے میں کچھ دیر تک تینوں بہنوں میں سرگوشیاں ہوتی رہیں۔ دبی دبی ہنسی کی آوازیں بھی آتی رہیں۔ اس کے بعد سب سے بڑی بہن یعنی میری بیوی بظاہر اپنی بہنوں سے مخاطب، مگر دراصل مجھے سنانے کے لیے یہ کہتی ہوئی باہر نکلی، ’’مجھے کیا کہتی ہو، کہنا ہے تو خود ان سے کہو۔۔۔ سعادت صاحب آج بہت جلدی آگئے؟‘‘ میں نے وجہ بیان کردی کہ اسٹوڈیو میں کوئی کام نہیں تھا اس لئے چلا آیا۔ پھر اپنی بیوی سے پوچھا، ’’کیا کہنا چاہتی ہیں میری سالیاں؟‘‘

    ’’یہ کہنا چاہتی ہیں کہ نرگس آرہی ہے۔‘‘

    ’’تو کیا ہوا۔۔۔ آئے۔ کیا وہ پہلے کبھی نہیں آئی۔‘‘

    میں سمجھا کہ وہ اس پارسی لڑکی کی بات کررہی ہے جس کی ماں نے ایک مسلمان سے شادی کرلی تھی اور ہمارے پڑوس میں رہتی تھی مگر میری بیوی نے کہا، ’’ہائے، وہ پہلے کب ہمارے ہاں آئی ہے۔‘‘

    ’’تو کیا وہ کوئی اور نرگس ہے؟‘‘

    ’’میں نرگس ایکٹرس کی بات کررہی ہوں۔‘‘

    میں نے تعجب سے پوچھا، ’’وہ کیا کرنے آرہی ہے یہاں؟‘‘

    میری بیوی نے مجھے سارا قصہ سنایا۔ گھرمیں ٹیلیفون تھا، جسے تینوں بہنیں فرصت کے اوقات میں بڑی فراخ دلی سے استعمال کرتی تھیں۔ جب اپنی سہیلیوں سے باتیں کرتی کرتی تھک جاتیں تو کسی ایکٹرس کا نمبر گھما دیتیں۔ وہ مل جاتی تو اس سے اوٹ پٹانگ گفتگو شروع ہو جاتی۔۔۔ ہم آپ کی بہت مداح ہیں، آج ہی دلی سے آئی ہیں، بڑی مشکلوں سے آپ کا نمبر حاصل کیا ہے، آپ سے ملاقات کرنے کے لئے تڑپ رہی ہیں، ضرور حاضر ہوتیں مگر پردے کی پابندی ہے۔۔۔ آپ بہت حسین ہیں چندے آفتاب چندے ماہتاب۔ گلا ماشاء اللہ بہت ہی سریلا (حالانکہ ان کو معلوم ہوتا تھا کہ اس میں امیر بائی بولتی ہے یا شمشاد) عام طور پر مشہور فلم ایکٹرسوں کے ٹیلیفون نمبر ڈائرکٹری میں درج نہیں ہوتے۔ وہ خود نہیں کراتیں کہ ان کے چاہنے والے بیکار تنگ نہ کریں۔ مگر ان تین بہنوں نے میرے دوست آغا خلش کاشمیری کے ذریعے سے قریب قریب ان تمام ایکٹرسوں کے فون نمبر حاصل کرلیے تھے جو انہیں ڈائریکٹری میں نہیں ملے تھے۔

    اس ٹیلی فونی شغل کے دوران میں جب انہوں نے نرگس کو بلایا اور اس سے بات چیت کی تو بہت پسند آگئی۔ اس گفتگو میں ان کو اپنی عمر کی آواز سنائی دی۔ چنانچہ چند گفتگوؤں ہی میں وہ اس سے بے تکلف ہوگئیں مگر اپنی اصلیت چھپائی رکھی۔ ایک کہتی میں افریقہ کی رہنے والی ہوں، وہی دوسری بار یہ بتاتی کہ لکھنو سے اپنی خالہ کے پاس آئی ہے۔ دوسری یہ ظاہر کرتی کہ راولپنڈی کی رہنے والی ہے اور صرف اس لیےبمبے آئی ہے کہ اسے نرگس کو ایک بار دیکھنا ہے تیسری، یعنی میری بیوی کبھی گجراتن بن جاتی کبھی پارسن۔

    ٹیلیفون پر کئی بار نرگس نے جھنجھلا کرپوچھا کہ تم لوگ اصل میں کون ہو۔ کیوں اپنا نام پتہ چھپاتی ہو۔ صاف صاف کیوں نہیں بتاتیں کہ یہ روز روز کی ٹن ٹن ختم ہو۔ظاہر ہے کہ نرگس ان سے متاثر تھی۔ اس کو یقیناً اپنے سیکڑوں مداحوں کے فون آتے ہوں گے مگر یہ تین لڑکیاں ان سے کچھ مختلف تھیں اس لیےوہ سخت بے چین تھی کہ ان کی اصلیت جانے اور ان سے ملے جلے، چنانچہ جب بھی اسے معلوم ہوتا کہ ان پر اسرار لڑکیوں نے اسے بلایا ہے تووہ سو کام چھوڑ کر آتی اور بہت دیر تک ٹیلیفون کے ساتھ چپکی رہتی۔

    ایک دن نرگس کے پیہم اصرار پر بالآخر طے ہوگیا کہ ان کی ملاقات ہو کے رہے گی۔ میری بیوی نے اپنے گھر کا پتہ اچھی طرح سمجھا دیا اور کہا کہ اگر پھر بھی مکان ملنے میں دقت ہو تو بائی کھلہ کے پاس کے پاس کسی ہوٹل سے ٹیلیفون کردیا جائے۔ وہ سب وہاں پہنچ جائیں گی۔جب میں گھر میں داخل ہوا،بائی کھلہ پل کے ایک اسٹور سے نرگس نے فون کیا تھا کہ وہ پہنچ چکی ہے مگر مکان نہیں مل رہا۔ چنانچہ تینوں افراتفری کے عالم میں تیار ہورہی تھیں کہ میں بلائے ناگہانی کی طرح پہنچ گیا۔

    چھوٹی دو کا خیال تھا کہ میں ناراض ہوں گا۔ بڑی یعنی میری بیوی محض بوکھلائی ہوئی تھی کہ یہ سب کیا ہوا ہے۔۔۔ میں نے ناراض ہونے کی کوشش کی مگرمجھے اس کے لئے کوئی معقول جواز نہ ملا۔ سارا قصہ کافی دلچسپ اور بے حد معصوم تھا۔ اگر’’کان مچولی‘‘ کی یہ حرکت صرف میری بیوی سے سرزد ہوئی ہوتی تو بالکل جدابات تھی۔ ایک سالی آدھی گھر والی ہوتی ہے اور یہاں دو سالیاں تھیں۔ پورا گھرہی ان کا تھا۔ میں جب اٹھا تو دوسرے کمرے میں خوش ہونے اور تالیاں بجانے کی آوازیں بلند ہوئیں۔

    بائی کھلہ کے چوک میں جدن بائی کی لمبی چوڑی موٹر کھڑی تھی۔ میں نے سلام کیا تو اس نے حسبِ معمول بڑی بلند آواز میں اس کا جواب دیا اور پوچھا، ’’کہو منٹو کیسے ہو؟‘‘

    میں نے کہا، ’’اللہ کا شکر ہے۔۔ کہئے آپ یہاں کیا کررہی ہیں؟‘‘

    جدن بائی نے پچھلی نشست پر بیٹھی ہوئی نرگس کی طرف دیکھا، ’’کچھ نہیں بے بی کو اپنی سہیلیوں سے ملنا تھا۔ مگر ان کا مکان نہیں مل رہا۔‘‘

    میں نے مسکرا کر کہا، ’’چلئے میں آپ کو لے چلوں۔‘‘

    نرگس یہ سن کر کھڑکی کے پاس آگئی، ’’آپ کو ان کا مکان معلوم ہے؟‘‘

    میں نے اور زیادہ مسکرا کر کہا، ’’کیوں نہیں۔۔۔ اپنا مکان کون بھول سکتا ہے۔‘‘

    جدن بائی کے حلق نے عجیب سی آواز نکالی۔ پان کے بیڑے کو دوسرے کلے میں تبدیل کرتے ہوئے کہا، ’’یہ تم کیا افسانہ نگاری کررہے ہو؟‘‘

    میں دروازہ کھول کر جدن بائی کے پاس بیٹھ گیا، ’’بی بی! یہ افسانہ نگاری میری نہیں ہے۔ میری بیوی اور اس کی بہنوں کی ہے۔‘‘ اس کے بعد میں نے مختصراً تمام واقعات بیان کردیے۔ نرگس بڑی دلچسپی سے سنتی رہی۔ جدن بائی کو بہت کوفت ہوئی، ’’ لاحول ولا۔۔۔ یہ کیسی لڑکیاں ہیں۔ پہلے ہی دن کہہ دیا ہوتا کہ ہم منٹو کے گھر سے بول رہی ہیں۔۔۔ خدا کی قسم میں فوراً بے بی کو بھیج دیتی۔ بھئی حد ہوگئی ہے اتنے دن پریشان کیا۔۔۔ خدا کی قسم بے چاری بے بی کو اتنی الجھن ہوتی تھی کہ میں تم سے کیا کہوں۔ جب ٹیلی فون آتا، بھاگی بھاگی جاتی۔۔۔ میں ہزار پوچھتی یہ کون ہے جس سے اتنی دیر میٹھی میٹھی باتیں ہوتی ہیں۔ مجھ سے کہتی کوئی ہیں،جانتی نہیں کون ہیں، مگر ہیں بڑی اچھی۔ دو ایک بار میں نے بھی ٹیلیفون اٹھایا۔ گفتگو ماشاء اللہ بڑی شائستہ تھی۔ کسی اچھے گھر کی معلوم ہوتی تھیں۔ مگر معاف کرنا، کم بخت اپنا نام پتہ صاف بتاتی ہی نہیں تھیں۔

    آج بے بی آئی۔ خوشی سے دیوانی ہورہی تھی۔ کہنے لگی۔ بی بی! انہوں نے بلایا ہے۔ اپنا ایڈریس دے دیا ہے۔ میں نے کہا۔ پاگل ہوئی ہو، ہٹو جانے کون ہیں، کون نہیں ہیں۔ پر اس نے میری ایک نہ مانی، بس پیچھے پڑ گئی۔ چنانچہ مجھے ساتھ آنا پڑا۔۔۔ خدا کی قسم اگرمعلوم ہوتا کہ یہ آفتیں تمہارے گھر کی ہیں۔۔۔‘‘

    میں نے بات کاٹ کر کہا، ’’تو ساتھ آپ نازل نہ ہوتیں۔‘‘

    جدن بائی کے کلے میں دبے ہوئے پان میں چوڑی مسکراہٹ پیدا ہوئی۔

    ’’اس کی ضرورت ہی کیا تھی۔۔۔ میں کیا تمہیں جانتی نہیں۔‘‘

    مرحومہ کو اردو ادب سے بڑا شغف تھا۔ میری تحریریں بڑے شوق سے پڑھتی اور پسند کرتی تھیں۔ ان دنوں میرا ایک مضمون’’ساقی‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ غالباً ترقی یافتہ قبرستان، معلوم نہیں کہ اس کا ذہن کیوں اس طرف چلا گیا، ’’خدا کی قسم منٹو۔۔۔ بہت خوب لکھتے ہو۔ ظالم کیا طنز کیا ہے اس مضمون میں۔۔۔ کیوں بے بی، اس دن کیا حال ہوا تھا میرا یہ مضمون پڑھ کر۔‘‘

    مگر نرگس اپنی نادیدہ سہیلیوں کے متعلق سوچ رہی تھی۔ اضطراب بھرے لہجہ میں اس نے اپنی ماں سے کہا، ’’چلو بی بی۔‘‘

    جدن بائی مجھ سے مخاطب ہوئی، ’’چلو بھائی۔‘‘

    گھرپاس ہی تھا۔ موٹر اسٹارٹ ہوئی اور ہم پہنچ گئے۔ اوپر بالکنی سے تینوں بہنوں نے ہمیں دیکھا۔ چھوٹی دو کا مارے خوشی کے برا حال ہورہا تھا۔ خدا معلوم آپس میں کیا کھسر پھسر کررہی تھیں۔جب ہم اوپر پہنچے تو عجیب وغریب طریقے پر سب کی ملاقات ہوئی۔ نرگس اپنی ہم عمر لڑکیوں کے ساتھ دوسرے کمرے میں چلی گئی،اور میں، میری بیوی اور جدن بائی وہیں بیٹھ گئے۔بہت دیر تک مختلف زاویوں سے کان مچولی کے سلسلے پر تبصرہ کیا گیا۔ میری بیوی کی بوکھلاہٹ جب کسی قدر کم ہوئی تو اس نے میزبان کے فرائض سرانجام دینے شروع کردیے۔میں اور جدن بائی فلم انڈسٹری کے حالات پر تبادلہ خیالات کرتے رہے۔ پان کھانے کے معاملے میں بڑی خوش ذوق تھی۔ ہر وقت اپنی پندنیا ساتھ رکھتی تھی۔ بڑی دیر کے بعد موقع ملا تھا۔ اس لئے میں نے اس پر خوب ہاتھ صاف کیا۔

    نرگس کو میں نے ایک مدت کے بعد دیکھا تھا۔ دس گیارہ برس کی بچی تھی جب میں نے ایک دو مرتبہ فلموں کی نمائشِ عظمیٰ میں اسے اپنی ماں کی انگلی کے ساتھ لپٹی دیکھا تھا۔ چندھیائی ہوئی آنکھیں، بے کشش سا لمبوترا چہرہ، سوکھی سوکھی ٹانگیں، ایسا معلوم ہوتا تھا۔ سوکے اٹھی ہے یا سونے والی ہے۔ مگر اب وہ ایک جون لڑکی تھی۔ عمر نے اس کی خالی جگہیں پرکردی تھیں۔ مگر آنکھیں ویسی کی ویسی تھیں۔ چھوٹی اور خواب زدہ۔۔۔ بیمار بیمار۔۔۔ میں نے سوچا اس رعایت سے اس کا نام نرگس موزں و مناسب ہے۔

    طبیعت میں نہایت ہی معصوم کھلنڈرا پن تھا۔ بار بار اپنی ناک پونچھتی تھی جیسے ازلی زکام کی شکار ہے (برسات میں اس کو ادا کے طور پرپیش کیا گیا ہے) مگر اس کے اداس اداس چہرے سے صاف عیاں تھا کہ وہ اپنے اندر کردار نگاری کا جوہر رکھتا ہے۔ ہونٹوں کو کسی قدر بھینچ کربات کرنے اور مسکرانے میں گو بظاہر ایک بناوٹ تھی، مگر صاف پتہ چلتا تھا کہ یہ بناوٹ سنگارکا روپ اختیار کرکے رہے گی۔ آخر کردار نگار کی بنیادیں بناوٹ ہی پر استوار ہوتی ہیں۔

    ایک بات جو خاص طور پر میں نے محسوس کی وہ یہ ہے کہ نرگس کو اس بات کا کامل احساس تھا کہ وہ ایک دن بہت بڑی اسٹار بننے والی ہے۔ مگر یہ دن قریب تر لانے اور اسے دیکھ کر خوش ہونے میں اسے کوئی عجلت نہیں تھی۔ اس کے علاوہ اپنے لڑکپن کی ننھی منی خوشیاں گھسیٹ کر بڑی بڑی بے ہنگم خوشیوں کے دائرے میں نہیں لے جانا چاہتی تھی۔

    تینوں ہم عمر لڑکیاں دوسرے کمرے میں جو باتیں کررہی تھیں، ان کا دائرہ گھر اور کنونٹ کی چار دیواری تک محدود تھا۔ فلم اسٹوڈیو میں کیا ہوتا ہے، رومانس کیا بلا ہے، اس سے ان کو کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ نرگس بھول گئی تھی کہ وہ فلم اسٹار ہے، پردے پر جس کی ادائیں بکتی ہیں اور اس کی سہیلیاں بھی یہ بھول گئی تھیں کہ نرگس اسکرین پر بری بری حرکتیں کرنے والی ایکٹرس ہے۔

    میری بیوی جو عمر میں نرگس سے بڑی تھی۔ اس کی آمد پر بالکل بدل گئی تھی۔ اس کا سلوک اس سے ایساہی تھاجیسا اپنی چھوٹی بہنوں سے تھا۔ پہلے اس کو نرگس سے اس لیے دلچسپی تھی کہ وہ فلم ایکٹرس ہے۔ پردے پر بڑی خوبی سے نت نئے مردوں سے محبت کرتی ہے، ہنستی ہے ،آہیں بھرتی ہے، کدکڑے لگاتی ہے۔ اب اسے خیال تھا کہ وہ کھٹی چیزیں نہ کھائے، بہت ٹھنڈا پانی نہ پئے، زیادہ فلموں میں کام نہ کرے، اپنی صحت کا خیال رکھے۔ اب اس کے نزدیک نرگس کا فلموں میں کام کرنا کوئی معیوب بات نہیں تھی۔

    میں، میری بیوی، اور جدن بائی ادھر ادھر کی باتوں میں مشغول تھے کہ آپا سعادت آگئیں۔ میری ہم نام ہیں اوربڑی دلچسپ چیز ہیں۔ تصنع سے لاکھوں میل دور۔۔۔ حسبِ معمول وہ اس انداز سے آئیں کہ جدن بائی سے ان کو متعارف کرانے کا ہمیں موقع ہی نہ ملا۔ اپنے دوڈھائی من کے وجود کے بوجھ کو صوفے پر ہلکا کرتے ہوئے بولیں، ’’صفو جان! تمہارے بھائی جان سے میں نے لاکھ کہا تھا کہ ایسی مردار موٹر نہ خریدو۔ مگر انہوں نے ایک نہ سنی۔۔۔ دو قدم چلی ہوگی کہ ہانپنے لگی اور کھڑی ہوگئی۔ اب کھڑے ہینڈل مار رہے ہیں۔ میں نے کہا آپ جائیے۔ میں تو صفو کے پاس بیٹھتی ہوں۔‘‘

    جدن بائی غالباً کسی نواب کی بات کررہی تھیں جو بہت عیاش تھا۔ آپا سعادت کی وجہ سے یہ بات مکمل نہ ہوسکی تھی۔ جب پھر شروع ہوئی تو آپا سعادت نے بھی اس میں حصہ لینا شروع کردیا۔ کاٹھیا واڑ کی قریب قریب تمام ریاستوں اور ان کے نوجوانوں کو وہ اچھی طرح جانتی تھیں۔ کیونکہ ریاست مانگرول کے نوابی خاندان میں بیاہی گئی تھیں۔

    جدن بائی اپنے پیشے کی وجہ سے تمام والیانِ ریاست کو اچھی طرح جانتی پہچانتی تھیں۔ باتوں باتوں میں ایک بڑی ریاست خور قسم کی طوائف کا ذکر چھڑ گیا۔ آپا سعادت شروع ہوگئیں، ’’خدا ان سے محفوظ رکھے، جس کے ساتھ چمٹتی ہیں، اس کو دین کا رکھتی ہیں نہ دنیا کا، دولت برباد، صحت برباد، عزت برباد، صفو جان میں تمہیں کیا بتاؤں، سو بیماریوں کی ایک بیماری ہے یہ طوائف۔۔۔‘‘

    میں اور میری بیوی سخت پریشان کہ آپا سعادت کو کیسے روکیں۔ جدن بائی بڑی فراخ دلی سے آپا سعادت کی ہاں میں ہاں ملا رہی تھی اور ہم دونوں پسینہ پسینہ ہوئے جارہے تھے۔ ایک دوبار میں نے ان کو روکنے کی کوشش کی مگر وہ اور زیادہ جوش میں آگئیں۔ جی بھر کے گالیاں دینے لگیں، لیکن یک لخت انہوں نے جدن بائی کی طرف دیکھا۔ ان کے سفید گوشت بھرے چہرے پر ایک عجیب و غریب تھرتھری پیدا ہوئی۔ ان کی ناک کی کیل کا ہیرا گردن کی جنبش کے ساتھ دو تین دفعہ بڑی تیزی سے چمکا اور پھر ان کا منہ کھلا۔ زور سے اپنی رانوں پر دو ہتڑ مار کر انہوں نے تتلاتے ہوئے لہجے میں جدن بائی سے کہا، ’’آپ۔۔۔؟ آپ تو جدن۔۔۔ آپ جدن بائی ہیں نا؟‘‘

    جدن بائی نے بڑی متانت سے جواب دیا، ’’جی ہاں!‘‘

    آپا سعادت کا منہ اور زیادہ کھلا، ’’اوہ۔۔۔ تو آپ۔۔ میرا مطلب ہے کہ آپ تو بہت اونچی طوائف ہیں۔۔۔ کیوں صفو جان؟ صفو جان برف ہوگئی۔ میں نے جدن بائی کی طرف دیکھا اور مسکرایا۔۔۔ میراخیال ہے بہت ہی واہیات قسم کی مسکراہٹ تھی۔ جدن بائی نے یوں ظاہر کیا جیسے کوئی بات ہی نہیں ہوئی اور اس بڑی ریاست خور قسم کی طوائف کے بقایا حالات بیان کرنے شروع کردیے جس کا ذکر چھیڑنے پر آپا سعادت کو لیکچر دینا پڑا تھا۔

    جدن بائی کی کوشش کے باوجود بات نہ جمی۔ آپا سعادت کو اپنی غلطی کا اور ہمیں اپنی خفت کا بہت ہی شدید احساس تھا۔ مگر جب لڑکیاں آگئیں تو فضا کا تکدر دور ہوگیا۔ ادھر ادھر کی باتوں کے بعد نرگس سے فرمائش کی گئی کہ وہ گانا سنائے۔ اس پر جدن بائی نے کہا، ’’میں نے اس کو موسیقی کی تعلیم نہیں دی، موہن بابو اس کے خلاف تھے اور سچ پوچھیے تو مجھے بھی پسند نہیں تھا۔۔۔ تھوڑا بہت ٹوں ٹاں کرلیتی ہے۔‘‘ اس کے بعد وہ اپنی بیٹی سے مخاطب ہوئی۔

    ’’سنا دو بے بی۔۔۔ جیسا بھی آتا ہے سنا دو۔‘‘

    نرگس نے بڑی ہی معصومانہ بے تکلفی سے گانا شروع کردیا۔۔۔ پرلے درجے کی کن سری تھی۔ آواز میں رس نہ لوچ، میری چھوٹی سالی اس سے لاکھوں درجے بہتر گاتی تھی۔ مگر فرمائش کی گئی تھی اور وہ بھی بڑی پر اصرار، اس لئے دو تین منٹ تک اس کا گانا برداشت کرنا ہی پڑا۔ جب اس نے ختم کیا تو سب نے تعریف کی۔ میں اور آپا سعادت خاموش رہے۔ تھوڑی دیر کے بعد جدن بائی نے رخصت چاہی۔ لڑکیاں نرگس سے گلے ملیں۔ دوبارہ ملنے کے وعدے وعید ہوئے۔ کچھ کھسر پھسر بھی ہوئی اور ہمارے مہمان چلے گئے۔

    نرگس سے یہ میری پہلی ملاقات تھی۔

    اس کے بعد اور کئی ملاقاتیں ہوئیں۔لڑکیاں ٹیلیفون کرتی تھیں اور نرگس اکیلی موٹر میں چلی آتی تھی۔ اس آمدورفت میں اس کے ایکٹرس ہونے کا احساس قریب قریب مٹ گیا۔ وہ لڑکیوں سے اور لڑکیاں اس سے یوں ملتی تھیں جیسے وہ ان کی بہت پرانی سہیلی ہے یا کوئی رشتہ دار ہے۔ لیکن جب وہ چلی جاتی تو کبھی کبھی تینوں بہنیں اس استعجاب کا اظہار کرتیں، خدا کی قسم عجیب بات ہے کہ نرگس بالکل ایکٹرس معلوم نہیں ہوتی۔

    اس دوران میں تینوں بہنوں نے اس کا ایک تازہ فلم دیکھا جس میں ظاہر ہے کہ وہ اپنے ہیرو کی محبوبہ تھی۔ جس سے وہ پیار محبت کی باتیں کرتی تھی اور اسے عجیب عجیب نگاہوں سے دیکھتی تھی، اس کے ساتھ لگ کر کھڑی ہوتی تھی، اس کا ہاتھ دباتی تھی۔ میری بیوی کہتی، ’’کم بخت اس کے فراق میں کیسی لمبی لمبی آہیں بھر رہی تھی جیسے سچ مچ اس کے عشق میں گرفتار ہے۔‘‘ اور اس کی چھوٹی دو بہنیں اپنے کنوارے ایکٹنگ سے نا آشنا دلوں میں سوچتیں، ’’اور کل وہ ہم سے پوچھ رہی تھی کہ گڑکی ٹوفی کیسے بنائی جاتی ہے۔‘‘

    نرگس کی اداکاری کے متعلق میرا خیال بالکل مختلف تھا۔ وہ قطعی طور پر جذبات و احساسات کی صحیح عکاسی نہیں کرتی تھی۔ محبت کی نبض کس طرح چلتی ہے یہ اناڑی انگلیاں کیسے محسوس کرسکتی تھیں۔ عشق کی دوڑ میں تھک کر ہانپنا اور اسکول کی دوڑ میں تھک کر سانس کا پھول جانا دو بالکل مختلف چیزیں ہیں۔ میرا خیال ہے کہ خود نرگس بھی اس کے فرق سے آگاہ نہیں تھی۔ اس کے شروع شروع کے فلموں میں چنانچہ دقیقہ رس نگاہیں فوراً معلوم کرسکتی ہیں کہ اس کی اداکاری یکسر فریب کاری سے معرا تھی۔

    تصنع کا یہ کمال ہے کہ وہ تصنع معلوم نہ ہو، لیکن نرگس کے تصنع کی بنیادیں چونکہ تجربے پر استوار نہیں تھیں، اس لئے اس میں یہ خوبی نہیں تھی۔ یہ صرف اس کا خلوص تھا، وہ بے پناہ خلوص جو اسے اپنے شوق سے تھا کہ وہ جذبات و احساسات کے نہایت ہی خام اظہار کے باوجود اپناکا م نبھا جاتی تھی۔ عمر اور تجربے کے ساتھ ساتھ اب وہ بہت پختگی اختیار کرچکی ہے۔ اب اس کو عشق کی دوڑ اوراسکول کی ایک میل کی دوڑ میں تھک کر ہانپنے کا فرق معلوم ہے۔ اب تو اس کو سانس کے ہلکے سے ہلکے زیرو بم کا نفسیا تی پس منظر بھی معلوم ہے۔

    یہ بہت اچھا ہوا کہ اس نے اداکاری کی منازل آہستہ آہستہ طے کیں۔ اگر وہ ایک ہی جست میں آخری منزل پر پہنچ جاتی تو اہلِ ذوق فلم بینوں کے صناعانہ جذبات کو بہت ہی گنوار قسم کا صدمہ پہنچتا، اور اگر لڑکپن کے زمانے میں پردے سے الگ زندگی میں بھی وہ ایکٹرس بنی رہتی اور اپنی عمر کو عیاربزازوں کے گز سے ماپ کر دکھاتی تو میں اس صدمے کی تاب نہ لا کر یقیناً مر گیا ہوتا۔

    نرگس ایسے گھرانے میں پیدا ہوئی تھی کہ اس کو لامحالہ ایکٹرس بننا ہی تھا۔۔۔ جدن بائی کے گلے میں بڑھاپے کا گھنگرو بول رہا تھا۔ اس کے دو بیٹے تھے۔ مگر اس کی ساری توجہ بے بی نرگس پر مرکوز تھی۔ اس کی شکل و صورت معمولی تھی۔ گلے میں سر کی پیدائش کا بھی کوئی امکان نہیں تھا، مگر جدن بائی جانتی کہ سرمستعار لیا جاسکتا ہے اور معمولی شکل و صورت میں اندرونی روشنی سے، جسے جوہر کہتے ہیں، دلکشی پیدا کی جاسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے جان مار کر اس کی پرورش کی۔ اور کانچ کے نہایت ہی نازک اور چھوٹے چھوٹے ذرے جوڑ جوڑ کر اپنا درخشاں و تاباں خواب پورا کیا۔

    جدن بائی تھی۔ اس کی ماں تھی۔۔۔ موہن بابو تھا۔ بے بی نرگس تھی۔ اس کے دو بھائی تھے۔ اتنا بڑا کنبہ تھا جس کا بوجھ صرف جدن بائی کے کندھوں پر تھا۔۔۔ موہن بابو ایک بڑے رئیس زادہ تھے۔ جدن بائی کے گلے کی تانوں اور مرکیوں میں ایسے الجھے کہ دین دنیا کا ہوش نہ رہا۔ خوبصورت تھے،صاحبِ ثروت تھے، تعلیم یافتہ تھے، صحت مند تھے،مگر یہ سب دولتیں جدن بائی کے درپرمفلس اور گداگر بن گئیں۔ جدن بائی کے نام کا اس زمانے میں ڈنکا بجتا تھا۔ بڑے بڑے نواب اور راجے اس کے مجروں پر سونے اور چاندی کی بارش برساتے تھے۔ مگر جب بارشیں تھم جاتیں اور آسمان نکھر جاتا تو جدن بائی اپنے موہن کو اٹھا کر سینے سے لگا لیتی کہ اسی موہن کے پاس اس کا من تھا۔

    موہن بابو تادمِ آخر جدن بائی کے ساتھ تھے۔ وہ ان کی بہت عزت کرتی تھی۔ اس لیے کہ وہ راجوں اور نوابوں کی دولت میں غریبوں کے خون کی بو سونگھ چکی تھی۔ اس کو اچھی طرح معلوم تھا کہ ان کے عشق کا دھارا ایک ہی سمت نہیں بہتا۔ وہ موہن بابو سے محبت کرتی تھی کہ وہ اس کے بچوں کا باپ تھا۔

    خیالات کی رو میں جانے کدھر بہہ گیا۔ نرگس کو بہر حال ایکٹرس بننا تھا۔ چنانچہ وہ بن گئی۔ اس کے بامِ عروج تک پہنچنے کا راز جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس کا خلوص ہے جو قدم بہ قدم، منزل بہ منزل اس کے ساتھ رہا ہے۔

    ایک بات جو ان ملاقاتوں میں خاص طور پر میں نے محسوس کی وہ یہ ہے کہ نرگس کو اس بات کا احساس تھا کہ جن لڑکیوں سے وہ ملتی ہے وہ جدا قسم کے آب و گل سے بنی ہیں۔ وہ ان کے پاس آتی تھی،گھنٹوں ان سے معصوم معصوم باتیں کرتی تھی، مگر وہ ان کو اپنے گھر مدعو کرنے میں ایک عجیب قسم کی جھجک محسوس کرتی تھی۔ اس کو شاید یہ ڈر تھا کہ وہ اس کی دعوت ٹھکرا دیں گی۔ یہ کہیں گی کہ وہ اس کے یہاں کیسے جاسکتی ہیں۔ میں ایک دن گھر پر موجود تھا کہ اس نے سرسری طور پر اپنی سہیلیوں سے کہا، ’’اب کبھی تم بھی ہمارے گھر آؤ۔‘‘

    یہ سن کر تینوں بہنوں نے بڑے ہی بینڈے پن سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ وہ شاید یہ سوچ رہی تھیں کہ ہم نرگس کی یہ دعوت کیسے قبول کرسکتی ہیں، لیکن میری بیوی چونکہ میرے خیالات سے واقف تھی، اس لئے ایک روز نرگس کے پیہم اصرار پر اس کی دعوت قبول کرلی گئی۔ اورمجھے بتائے بغیر تینوں اس کے گھر چلی گئیں۔

    نرگس نے اپنی کار بھیج دی تھی۔ جب وہ بمبے کے خوبصورت ترین مقام میرین ڈرائیو کے اس فلیٹ میں پہنچیں جہاں نرگس رہتی تھی تو انہوں نے محسوس کیا کہ ان کی آمد پر خاص انتظامات کیے گیے تھے۔ موہن بابو اور اس کے دو نوجوان لڑکوں کو منع کردیا گیا تھا کہ وہ گھر میں داخل نہ ہوں۔ کیونکہ نرگس کی سہیلیاں آرہی ہیں۔ مرد نوکروں کو بھی اس کمرے میں آنے کی اجازت نہیں تھی، جہاں ان ’’معزز‘‘ مہمانوں کو بٹھایا گیا تھا۔ خود جدن بائی تھوڑی دیر کے لیے رسمی طور پر ان کے پاس بیٹھی اور اندر چلی گئی۔ وہ ان کی معصوم گفتگوؤں میں حارج نہیں ہونا چاہتی تھی۔

    تینوں بہنوں کا بیان ہے کہ نرگس اُن کی آمد پر پھولی نہ سماتی تھی۔ وہ اس قدر خوش تھی کہ بار بار گھبرا سی جاتی تھی۔ اپنی سہیلیوں کی خاطر داری میں اس نے بڑے جوش کا اظہار کیا۔ پاس ہی پیرژین ڈئیری تھی، اس کے ’’مِلک شیک‘‘ مشہور تھے۔ گاڑی میں جا کر نرگس خود یہ مشروب جگ میں تیار کراکے لائی۔ کیونکہ وہ یہ کام نوکر کے سپرد کرنا نہیں چاہتی تھی، اس لیے کہ پھراس کے اندر آنے کا احتمال تھا۔خاطر داری کے اس جوش و خروش میں نرگس نے اپنے نئے سیٹ کا گلاس توڑ دیا۔ مہمانوں نے افسوس کا اظہار کیا تو نرگس نے کہا، ’’کوئی بات نہیں، بی بی غصے ہوں گی مگر ڈیڈی ان کو چپ کرا دیں گے اور معاملہ رفع دفع ہو جائے گا۔‘‘

    موہن بابو کو اس سے اور اس کو موہن بابو سے بہت محبت تھی۔

    ’’ملک شیک‘‘ پلانے کے بعد نرگس نے مہمانوں کو اپنا البم دکھایا جس میں اس کے مختلف فلموں کے اسٹل تھے۔ اس نرگس میں جو ان کو یہ فوٹو دکھا رہی تھی، اور اس نرگس میں جو ان تصویروں میں موجود تھی کتنا فرق تھا۔ تینوں بہنیں کبھی اس کی طرف دیکھتیں اور اس کبھی البم کے اوراق کی طرف اور اپنی حیرت کا یوں اظہار کرتیں، ’’نرگس! تم یہ نرگس کیسے بن جاتی ہو؟‘‘

    نرگس جواب میں صرف مسکرا دیتی۔

    میری بیوی نے مجھے بتایا کہ گھر میں نرگس کی ہر حرکت، ہر ادا میں الھڑ پن تھا۔ اس میں وہ شوخی، وہ طراری، وہ تیکھا پن نہیں تھا جو اس کے سراپا میں پردے پر نظر آتاہے۔ وہ بڑی ہی گھریلو قسم کی لڑکی تھی۔ میں نے خود یہی محسوس کیا تھا لیکن جانے کیوں، اس کی چھوٹی چھوٹی آنکھوں میں مجھے ایک عجیب و غریب قسم کی اداسی تیرتی نظر آتی تھی۔ جیسے کوئی لاوارث لاش، تالاب کے ٹھہرے پانی پر ہوا کے ہلکے ہلکے جھونکوں سے ارتعاش پذیر ہے۔

    یہ قطعی طور پر طے تھا کہ شہرت کی جس منزل پر نرگس کو پہنچنا تھا، وہ کچھ زیادہ دور نہیں۔ تقدیر اپنا فیصلہ اس کے حق میں کرکے تمام متعلقہ کاغذات اس کے حوالے کر چکی تھی۔ لیکن پھر وہ کیوں مغموم تھی۔ کیا غیر شعوری طور پر وہ یہ محسوس تو نہیں کررہی تھی کہ عشق و محبت کا یہ مصنوعی کھیل کھیلتے کھیلتے ایک دن وہ کسی ایسے لق و دق صحرا میں نکل جائے گی جہاں سراب ہی سراب ہوں گے۔ پیاس سے اس کا حلق سوکھ رہا ہوگا۔ اور آسمان پرچھوٹی چھوٹی بدلیوں کے تھنوں میں صرف اس لیے دودھ نہیں اترے گا کہ وہ یہ خیال کریں گی کہ نرگس کی پیاس محض بناوٹ ہے۔ زمین کی کوکھ میں پانی کی بوندیں اور زیادہ اندر کو سمٹ جائیں گی، اس خیال سے کہ اس کی پیاس صرف ایک دکھاوا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خو د نرگس بھی یہ محسوس کرنے لگے کہ میری پیاس کہیں جھوٹی پیاس تو نہیں۔ اتنے برس گزر جانے پر میں اب اسے پردے پر دیکھتا ہوں تو مجھے اس کی اداسی کچھ مضمحل سی نظر آتی ہے۔ پہلے اس میں ایک مستعد جستجو تھی۔ لیکن اب یہ جستجو بھی اداس اور مضمحل ہے۔ کیوں۔۔۔؟ اس کا جواب خود نرگس ہی دے سکتی ہے۔

    تینوں بہنیں چونکہ چوری چوری نرگس کے ہاں گئی تھیں۔ اس لئے وہ زیادہ دیر تک اس کے پاس نہ بیٹھ سکیں۔ چھوٹی دو کو یہ اندیشہ تھا کہ ایسا نہ ہو مجھے اس کا علم ہو جائے۔ چنانچہ انہوں نے نرگس سے رخصت چاہی اور واپس گھر آگئیں۔نرگس کے متعلق وہ جب بھی بات کرتیں، گھوم پھر کر اس کی شادی کے مسئلے پر آجاتیں۔ چھوٹی دو کو یہ جاننے کی خواہش تھی کہ وہ کب اورکہاں شادی کرے گی۔ بڑی جس کی شادی ہوئے پانچ برس ہو چکے تھے، یہ سوچتی تھی کہ شادی کے بعد وہ ماں کیسے بنے گی۔کچھ دیر تک میری بیوی نے نرگس سے اس خفیہ ملاقات کا حال چھپائے رکھا۔ آخر ایک روز بتا دیا، میں نے مصنوعی خفگی کا اظہار کیا تو اس نے سچ سمجھتے ہوئے مجھ سے معافی مانگی اور کہا، ’’واقعی ہم سے غلطی ہوئی۔ مگر خدا کے لیے اب آپ اس کا ذکر کسی سے نہ کیجئے گا۔‘‘

    وہ چاہتی تھی کہ بات مجھی تک رہے۔ ایک ایکٹرس کے گھر جانا تینوں بہنوں کے نزدیک بہت ہی معیوب بات تھی۔ وہ اس ’’حرکت‘‘ کو چھپانا چاہتی تھیں۔ چنانچہ جہاں تک مجھے معلوم ہے اس کا ذکرانہوں نے اپنی ماں سے بھی نہیں کیا تھا۔ حالانکہ وہ بالکل تنگ خیال نہیں تھیں۔

    میں اب تک نہیں سمجھ سکا کہ ان کی وہ حرکت حرکتِ مذموم کیوں تھی۔ اگر وہ نرگس کے ہاں گئی تھیں تو اس میں برائی ہی کیا تھی۔ اداکاری معیوب کیوں سمجھی جاتی ہے۔ کیا ہمارے اپنے خاندان کے حلقے میں ایسے افراد نہیں ہوتے جن کی ساری عمر فریب کاریوں اور ملمع کاریوں میں گزر جاتی ہے۔ نرگس نے تو اداکاری کو اپنا پیشہ بنایا تھا۔ اس نے اس کو راز بنا کر نہیں رکھا تھا۔ کتنا بڑا فریب جس میں یہ لوگ مبتلا رہتے ہیں۔

    اس مضمون کے آغاز میں میں نے ایک خط کا کچھ حصہ نقل کیا ہے جو مجھے تسنیم سلیم نے لکھا تھا۔ اب اس کی طرف لوٹتا ہوں۔ دراصل ساری بات ہی اسی سے چلی تھی۔

    چونکہ مجھے نرگس کو اس کے گھر میں ملنے کا اشتیاق تھا، اس لئے میں مصروف ہونے کے باوجود مسٹر سلیم اور ان کے مصاحبوں کے ساتھ میرین ڈرائیو چل پڑا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ میں فون کے ذریعے سے جدن بائی کو اپنی آمد سے مطلع کردیتا اور یہ بھی معلوم کرلیتا کہ نرگس فارغ بھی ہے یا نہیں۔ لیکن میں عام زندگی میں بھی چونکہ ایسے تکلفات کا قائل نہیں، اس لیے بغیر اطلاع دیے وہاں جا دھمکا۔ جدن بائی باہر برآمدے میں بیٹھی سروتے سے چھالیا کاٹ رہی تھی۔ مجھے دیکھا تو بآواز بلند کہا، ’’اوہ منٹو۔۔۔ آؤ۔ بھائی آؤ۔‘‘ پھر نرگس کو آواز دی، ’’بے بی۔۔۔ تمہاری سہیلیاں آئی ہیں۔‘‘

    میں نے قریب جا کر اسے بتایا کہ میرے ساتھ سہیلیاں نہیں’’سہیلے‘‘ ہیں۔

    جب میں نے نواب چھتاری کے داماد کا ذکر کیا تو اس کا لہجہ بدل گیا، ’’بلالو انہیں۔‘‘

    نرگس دوڑی دوڑی آئی ۔ تو اس سے کہا،’’تم اندر جاؤ بے بی۔منٹو صاحب کے دوست آئے ہیں۔‘‘

    جدن بائی نے میرے دوستوں کی کچھ اس انداز سے آؤ بھگت کی جیسے وہ مکان دیکھنے اور پسند کرنے آئے تھے۔ وہ بے تکلفی جو میرے لیے مخصوص تھی، غائب ہوگئی۔ بیٹھو تشریف رکھیے میں تبدیل ہوگیا۔کیا پیو گے کیا نوش فرمائیے گا بن گیا۔ تم آپ ہوگیا، اور میں خود کو چغد محسوس کرنے لگا۔

    میں نے اپنی اور اپنے دوستوں کی آمد کا مدعا بیان کیاتو جدن بائی نے بڑے ہی پر تصنع انداز میں مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے میرے ساتھیوں سے کہا، ’’بے بی سے ملنا چاہتے ہیں۔۔۔ کیا بتاؤں کئی دنوں سے غریب کی طبیعت ناساز ہے۔ دن رات کی شوٹنگ نے اسے بے حد مضمحل کردیا ہے۔ بہت منع کرتی ہوں کہ ایک روز آرام کرلو۔ مگر شوق ایسا ہے کہ نہیں سنتی۔ محبوب نے بھی کہا کہ بیٹا کوئی ہرج نہیں، تم ریسٹ کرلو، میں شوٹنگ بند کردیتا ہوں۔ مگر نہ مانی۔۔۔ آج میں نے زبردستی روک لیا۔۔۔ زکام سے نڈھال ہورہی ہے غریب!‘‘

    یہ سن کر میرے دوستوں کو ظاہر ہے،بہت مایوسی ہوئی۔ نرگس کی ایک جھلک وہ ٹیکسی میں بیٹھے بیٹھے دیکھ چکے تھے اور اس کومفصل طور پر دیکھنے کے لئے بے تاب تھے۔ جب ان کو معلوم ہوا کہ اس کی طبیعت ناساز ہے تو انہیں بڑی کوفت ہوئی۔ جدن بائی ادھر ادھر کی باتیں کیے جاتی تھی، جن سے ان کو کوئی دلچسپی نہ تھی۔ میں صاف دیکھ رہا تھا کہ وہ تھوڑی دیر کے بعد جمائیاں لینے لگیں گے اور مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ نرگس کی ناسازی طبیعت کا بہانہ محض رسمی ہے۔ چنانچہ میں نے جدن بائی سے کہا، ’’بے بی کو زحمت تو ہوگی مگر یہ اتنی دور سے آئے ہیں۔ ذرا بلا لیجئے۔‘‘

    اندر تین چار مرتبہ کہلوانے کے بعد نرگس آئی۔ سب نے اٹھ کر تعظیماً اسے سلام کیا۔ میں بیٹھا رہا۔ نرگس کا داخلہ فلمی تھا۔ اس کا سلام کا جواب دینا فلمی تھا۔ اس کا بیٹھنا اٹھنا فلمی تھا۔ اس کی گفتگو فلمی تھی جیسے سیٹ پر مکاملے بول رہی ہو۔ اور میرے ساتھیوں کے سوال جواب بڑے ہی نوابانہ قسم کے اوٹ پٹانگ تھے۔

    ’’آپ سے مل کر بڑی مسرت ہوئی۔‘‘

    ’’جی ہاں آج ہی بمبے پہنچے ہیں۔‘‘

    ’’کل پرسوں واپس چلے جائیں گے۔‘‘

    ’’آپ ماشاء اللہ اس وقت ہندوستان کی چوٹی کی اداکارہ ہیں۔‘‘

    ’’آپ کے ہر فلم کا ہم نے پہلا شو دیکھا ہے۔‘‘

    ’’یہ تصویر جو آپ نے دی ہے میں اسے اپنے البم میں لگاؤں گا۔‘‘

    اس دوران میں موہن بابو بھی آگئے مگر وہ خاموش بیٹھے رہے ۔کبھی کبھی اپنی بڑی بڑی خوبصورت آنکھیں گھما کر ہم سب کو دیکھ لیتے اور پھر خدا جانے کس سوچ میں غرق ہو جاتے۔

    سب سے زیادہ باتیں جدن بائی نے کیں۔ ان میں اس نے ملاقاتیوں پر بڑے واضح الفاظ میں ظاہر کردیا کہ وہ ہندوستان کے ہر راجے اور ہر نواب کو اندر باہر سے اچھی طرح جانتی ہے نرگس نے جتنی باتیں کیں بہت مختصر اور بناوٹ سے بھرپور تھیں۔ اس کی ہر حرکت اور ہر ادا سے یہ صاف مترشح تھا کہ وہ اپنے ملنے والوں کو یہ چیزیں پلیٹ میں ڈال کر بڑے تکلف سے پیش کررہی ہےتاکہ وہ اس کا شکریہ ادا کریں۔ وہ دلی طور پر ممنون و متشکر تھے مگر اس امتنان و تشکر سے نرگس متشفی نہیں تھی۔ وہ غالباً جواب میں تصنع ہی کی طالب تھی۔

    یہ ملاقات کچھ بہت ہی پھیکی رہی، میرے لیے بھی اور میرے ساتھیوں کے لیےبھی۔ میری موجودگی میں وہ کھل کر احمقانہ باتیں نہیں کرسکے تھے اور میں ان کی موجودگی کے باعث بہت ہی تکلف دہ گھٹن محسوس کرتا رہا تھا۔ بہر حال نرگس کا دوسرا رنگ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں تھا۔

    سلیم اپنے دوستوں کے ساتھ دوسرے روز پھر نرگس کے ہاں گیے۔ اس کی اطلاع انہوں نے مجھے نہ دی۔ میرا خیال ہے اس ملاقات کا رنگ کچھ اور ہی ہوگا۔۔۔ نخشب کے ساتھ جس جنگ کا ذکر تسنیم نے اپنے خط میں کیا ہے وہ مجھے بالکل یاد نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اس وقت وہاں موجود ہوں۔ کیونکہ جدن بائی کو شعر و شاعری سے بڑی دلچسپی تھی اور بمبے کے اکثر شعرا اپنا کلام سنانے کے لیے وہاں جایا کرتے تھے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نخشب سے ان کی شاعری ہی پر اختلاف رائے کے باعث ہلکی سی چخ ہوگئی ہو۔

    نرگس کا ایک اور دلچسپ رنگ میں نے اس وقت دیکھا جب اشوک میرے ساتھ تھا۔ جدن بائی کوئی اپناذاتی فلم تیار کرنے کا ارادہ کررہی تھی۔ اس کی خواہش تھی کہ اشوک اس کا ہیرو ہو۔ اشوک حسبِ عادت اکیلا جانے سے گھبراتا تھا۔ چنانچہ وہ مجھے اپنے ساتھ لے گیا۔ دورانِ گفتگو میں کئی نکتے تھے۔ کاروباری نکتے، دوستانہ نکتے، خوشامدی نکتے۔ یہ نکتے بڑے ہی دلچسپ طریقے پر آپس میں گڈمڈ ہوتے رہے۔ جدن بائی کا انداز کبھی بزرگانہ ہوتا تھا اور کبھی ہم عصرانہ۔ وہ کبھی پروڈیوسر بن جاتی تھی اور کبھی نرگس کی ماں۔ ایسی ماں جو اپنی بیٹی کی قدر و قیمت بڑھانا چاہتی ہے۔ موہن بابو سے کبھی کبھی ہاں میں ہاں ملا لی جاتی تھی۔

    لاکھوں روپے کا ذکر آیا۔ وہ جو خرچ ہو چکے تھے، خرچ ہونے والے تھے اور جو خرچ کیےجاسکتے تھے۔ سب کا حساب انگلیوں پر گنوایا گیا۔ نرگس کا یہ انداز تھا کہ دیکھو اشوک، مانتی ہوں کہ تم منجھے ہوئے ایکٹرہو، تمہاری دھاک بیٹھی ہوئی ہے مگر میں بھی کسی طرح کم نہیں۔ تم مان جاؤ گے کہ میں اداکاری کے میدان میں تمہارا مقابلہ کرسکتی ہوں۔ چنانچہ اس کی تمام کوششیں اس نقطے پر مرکوز تھیں۔ اس کے علاوہ کبھی کبھی اس کے اندر عورت بھی بیدار ہو جاتی تھی۔ اس وقت وہ اشوک سے یہ کہتی معلوم ہوتی، ’’تم پرہزاروں لڑکیاں فریفتہ ہیں لیکن میں اسے کیا سمجھتی ہوں۔ میرے بھی ہزاروں چاہنے والے موجود ہیں۔ یقین نہ آئے تو کسی مرد سے پوچھ لو۔‘‘ اور ساتھ ہی ساتھ اس چیلنج کی ہلکی سی جھلک بھی ہوتی، ’’ہوسکتا ہے تم ہی مجھ پر مرنا شروع کردو۔‘‘

    اور جدن بائی کبھی مصالحت کی طرف جھک جاتی کہ نہیں، اشوک تم اور بے بی دونوں پر دنیا مرتی ہے۔ اسی لیے تو میں چاہتی ہوں کہ تمہیں ایک ساتھ پیش کروں تاکہ ایک قتلِ عام ہو اور ہم سب خوب فائدہ اٹھائیں۔ کبھی کبھی وہ ایک اور انداز اختیار کرلیتی اور مجھ سے مخاطب ہوتی۔

    ’’منٹو، اشوک اتنا بڑا ایکٹر بن گیا ہے۔ لیکن خدا کی قسم بہت ہی نیک آدمی ہے بڑا کم گو بڑا ہی شرمیلا۔۔۔ خدا عمر دراز کرے۔ میں جو فلم شروع کررہی ہوں، اس میں اشوک کے لیے خاص طورپر میں نے کیریکٹر لکھوایا ہے۔ تم سنو گے تو خوش ہو جاؤ گے۔‘‘

    میں یہ کیریکٹر سنے بغیر ہی خوش تھا۔ اس لئے کہ جدن بائی کا کیریکٹر خودبہت ہی دلچسپ تھا اور نرگس جو رول کررہی تھی وہ تو اور بھی زیادہ دلچسپ تھا۔ میرا خیال ہے اگر پردے پر وہ حالات پیش کیے جاتے اور اس سے کہا جاتا کہ اشوک سے مل کرتمہیں ایسی گفتگوکرنا ہے تو وہ کبھی اتنی کامیاب نہ ہوتی جتنی کہ وہ اس وقت تھی۔

    باتوں باتوں میں ثریا کا ذکر آیا تو جدن بائی نے ناک بھوں چڑھا کر اس میں اور اس کے سارے خاندان میں کیڑے ڈالنے شروع کردیے۔ ثریا کی عیب جوئی وہ ایک فرض کے طور پر کرتی تھی۔ اس کا گلا خراب ہے۔۔۔ بے سری ہے۔ بے استادی ہے۔ دانت بڑے واہیات ہیں۔ ادھر ثریا کے ہاں جاؤ تو نرگس اور جدن بائی پر عملِ جراحی شروع ہوجاتا تھا۔ ثریا کی نانی جو حقیقت میں اس کی ماں تھی، حقے کے بقے اڑا اڑا کر دونوں کو خوب کوستی تھی۔ نرگس کا ذکر آتا تو وہ برا سا منہ بنا کر میراثنوں کے انداز میں جگت کرتی۔ منہ دیکھو جیسے گلا سڑا پپیتا ہوتا ہے۔

    موہن بابو کی خوبصورت اور بڑی بڑی آنکھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مند چکی ہیں۔ جدن اپنے دل کی بقایا حسرتیں اور تمنائیں لئے منوں مٹی کے نیچے دفن ہے۔ اس کی بے بی،نرگس تصنع اور بناوٹ کے آخری زینے پر پہنچ کر معلوم نہیں اور اوپر دیکھ رہی ہے یا اس کی اداس اداس آنکھیں نیچے سب سے پہلے زینے کو دیکھ رہی ہیں،جب اس نے گھٹنوں چلنا سیکھا تھا۔ وہ خیرہ کن روشنی میں تاریک ترین سائے کی تلاش میں ہے،یا تاریک ترین سائے میں روشنی کی ننھی سی کرن ٹٹول رہی ہے۔۔۔؟ روشنی اور سائے کا تانا بانا ہی زندگی ہے اور اس تانے بانے کی عکاسی فلمی زندگی جس میں کبھی ایسا پیچ، ایسا خم بھی آجاتا ہے جب روشنی روشنی رہتی ہے نہ سایہ، سایہ!

    مأخذ:

    گنجے فرشتے (Pg. 237)

    • مصنف: سعادت حسن منٹو
      • ناشر: ساقی بک ڈپو، دہلی
      • سن اشاعت: 1993

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے