Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پراسرار نینا

سعادت حسن منٹو

پراسرار نینا

سعادت حسن منٹو

MORE BYسعادت حسن منٹو

    شاہدہ جوکہ محسن عبداللہ کی فرماں بردار بیوی تھی اور اپنے گھرمیں خوش تھی اس لیے کہ علی گڑھ میں میاں بیوی کی محبت ہوئی تھی اور یہ محبت ان دونوں کے دلوں میں ایک عرصے تک برقرار رہی۔

    شاہدہ اس قسم کی لڑکی تھی جو اپنے خاوند کے سوا اور کسی مرد کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتی، لیکن محسن عبداللہ ایسا نوجوان تھا جومختلف میوے چکھنے کا عادی تھا۔ شاہدہ کو اس کی اس عادت کا علم نہیں تھا۔ ویسے وہ جانتی تھی کہ اس کے خاوندکی بہنیں بڑی آزاد خیال ہیں، مردوں سے بڑی بے باکی سے ملتی ہیں۔ ان سے جنسیات کے بارے میں گفتگو کرنے سے بھی نہیں جھجکتیں مگر اسے ان کے یہ انداز پسند نہیں تھے۔

    محسن کی ایک بہن (ڈاکٹر رشید جہاں) نے تو ایسے پرپرزے نکالے تھے کہ حد ہی کردی تھی۔۔۔ میں ان دنوں ایم۔ اے۔او کالج، امرتسر میں پڑھتا تھا۔ اس میں ایک نئے پروفیسر صاحب زادہ محمود الظفر آئے۔ یہ ڈاکٹر رشید جہاں کے خاوند تھے۔میں بہت پیچھے چلا گیا ہوں لیکن واقعات کیونکہ اچانک میرے دماغ میں آرہے ہیں اس لیے میں مجبور ہوں کہ اس مضمون کا تسلسل قائم نہیں رہ سکے گا۔ بہر حال آپ پڑھیں تو آپ کڑیاں ملا سکیں گے۔

    پروفیسر صاحب زادہ محمود الظفر بڑے خوش شکل نوجوان تھے۔ ان کے خیالات اشتراکی تھے۔ اسی کالج میں فیض احمد فیض صاحب جو بڑے افیمی قسم کے آدمی تھے، پڑھایا کرتے تھے، ان سے میرے بڑے اچھے مراسم تھے۔ ایک ہفتے کی شام کو انہوں نے مجھ سے کہا وہ ڈیرہ دون جارہے ہیں۔ چند چیزیں انہوں نے مجھے بتائیں کہ میں خرید کرلے آؤں، میں نے ان کے حکم کی تعمیل کی، اس کے بعد ہر ہفتے ان کے حکم کی تعمیل کرنا میرا معمول بن گیا۔وہ دراصل ڈیرہ دون میں ڈاکٹر رشید جہاں سے ملنے جاتے تھے۔ ان سے غالباً ان کو عشق کی قسم کا لگاؤ تھا۔ معلوم نہیں اس لگاؤ کا کیا حشر ہوا مگر فیض صاحب نےان دنوں اپنی افیمگی کے باعث بڑی خوب صورت غزلیں لکھیں۔

    یہ تمام عقبی مناظرہیں۔ محسن عبداللہ کو کسی دوست کی وساطت سے بمبئی ٹاکیز میں ملازمت مل گئی۔ ان دنوں یہ فلمی ادارہ بڑا وقار رکھتا تھا۔ اس کے روح رواں ہمانسورائے تھے۔ وہ تنظیم اور اچھی فضا کے بہت قائل تھے۔ ان کی یہی خواہش ہوتی تھی کہ وہ پڑھے لکھے لوگوں کو اپنے اسٹوڈیو میں جگہ دیں۔محسن عبداللہ کو لیبارٹری میں جگہ مل گئی۔ ہمانسورائے آنجہانی کے احکام کے مطابق اسٹوڈیو کے کسی اعلیٰ اور متوسط کارکن کو’’ملاڈ‘‘ ( جہاں کہ یہ نگار خانہ تھا) سے دور رہائش اختیار کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ قریب قریب سب اسٹوڈیو کے آس پاس ہی رہتے تھے۔ محسن عبداللہ اپنی بیوی شاہدہ کے ساتھ قریب ہی ایک چھوٹی سی ٹوٹی پھوٹی کوٹھی میں مقیم تھا۔

    محسن لیبارٹری میں بڑی توجہ سے کام کرتا تھا۔ ہمانسو رائے اس سے بہت خوش تھا۔ اس کی تنخواہ اتنی ہی تھی جتنی اشوک کمار کی تھی، جب وہ اس لیبارٹری میں ملازم ہوا تھا، مگر وہ اب کامیاب ایکٹر بن رہا تھا۔ ان دنوں آزوری اور ممتاز بھی وہیں تھے۔ مسٹر مکر جی جو اس وقت مسٹر واچا ساؤنڈ ریکارڈسٹ کے اسسٹنٹ تھے،سب خوش باش آدمی تھے۔ہر سال ہولی کے موقع پر بڑا دلکش ہنگامہ برپا ہوتا، سب ایک دوسرے پررنگ پھینکتے اور بڑی پیاری رنگ رلیاں مچتیں۔

    ’’پنرملن‘‘ کی شوٹنگ شروع ہوئی تو ہمانسورائے نے سنہہ پربھا پردھان کو جو خاصی پڑھی لکھی لڑکی تھی، اپنے اس فلم کے لئے ہیروئن منتخب کیا۔ ان دنوں خواجہ احمد عباس وہاں پبلسٹی کا کام کرتے تھے۔ محسن اور عباس دونوں اس لڑکی پر عاشق ہوگیےجو سندھ کی رہنے والی تھی اور بمبئی میں نرسنگ کا کورس مکمل کر چکی تھی۔ محسن اور عباس دونوں چاہتے تھے کہ پربھا ان کے جذبات کی نرسنگ کرے مگر وہ بڑی تیز نشتر تھی، وہ دونوں کو چرکے لگاتی تھی۔یہ ایک لمبی کہانی ہے جسے میں پھر کسی وقت لکھوں گا۔

    محسن اس کے عشق میں کچھ ایسا مبتلا ہوا کہ اس نے بے تحاشا جوا کھیلنا شروع کردیا۔ اسے جتنی تنخواہ ملتی، سب قمار بازی کی نذر ہو جاتی۔ شاہدہ سخت پریشان تھی۔ اس کو اپنے گھر سے ہر مہینے کچھ نہ کچھ منگوانا پڑتا تھا۔ اس کے ایک بچہ بھی ہو چکا تھا جو آئے دن بیمار رہتا۔ اس کے علاج پر کافی خرچ کرنا پڑتا تھا۔ شاہدہ نے ایک دن اس سے بڑے شریفانہ انداز میں کہا، ’’محسن تم میرا خیال نہیں کرتے۔۔۔ کم از کم اپنے بچے کا تو کرو۔‘‘ وہ اس پر بہت برسا اس لیے کہ اس کے سر پر جوئے اور سنہہ پربھا پردھان کا عشق سوار تھا۔

    میں ان دنوں نانو بھائی ڈیسائی کے ہندوستان سنے ٹون اسٹوڈیو میں ملازم تھا۔ شانتا رام نے جو پربھات فلم کمپنی میں کئی شاندار فلم تیار کر چکے تھے۔ مجھے دعوت دی کہ تم پونہ آؤ۔ کئی صحافی اور افسانہ نویس وہاں جارہے تھے۔ یہ خیر سگالی قسم کی دعوت تھی۔ مدعو کیے گیے لوگوں میں ایک صاحب ڈبلیو زیڈ احمد بھی تھے جوغالباً سادھنا بوس کی ٹیم میں کام کرتا تھا۔ مجھے اتنا یاد ہے احمد نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ بنگالی کے مکالمے اردو میں ترجمہ کرتا ہے۔

    ہم پونہ میں دو روز رہے۔ اس دوران میں مجھے اس کے متعلق کچھ معلوم نہ ہوسکا۔ اس لیے کہ وہ اپنے چہرے پر خول چڑھائے رکھتا تھا۔ اس کی ہنسی، اس کی گفتگو، اس کا ہر انداز مصنوعی سا دکھائی دیتا تھا۔ ایک اور بات جو میں نے نوٹ کی تھی، وہ یہ تھی کہ وہ مشہور یہودی ڈائریکٹر ارنسٹ بھوشن کی طرح ہر وقت منہ میں ایک لمبا سا سگار دبائے رکھتا تھا۔اس کے بعد میری اور اس کی ملاقات راماشکل ایکٹر کے مکان پر ہوئی۔ وہ میرا دوست تھا۔ میں جب اس کے کمرے میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ ایک کونے میں ڈبلیو زیڈ احمد بیٹھا راما کی محبوب شراب رم پی رہا تھا۔اس سے علیک سلیک ہوئی، بڑی رسمی قسم کی۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ کسی سے کھل کر بات کرنے کا عادی نہیں۔وہ ایک کچھوا ہے جو اپنی گردن جب چاہے اپنے سخت خول کے اندر چھپا لیتا ہے، آپ ڈھونڈتے رہیں مگر نہ ملے۔

    میں نے اس سے کہا، ’’احمد صاحب! آپ کچھ بات تو کیجئے۔‘‘ وہ اپنے مخصوص انداز میں ہنسا، ’’آپ راما شکل سے باتیں کررہے ہیں۔ کیا یہی آپ کے لئے کافی نہیں ہے۔‘‘ یہ جواب سن کر مجھے بڑی کوفت ہوئی۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں کسی سیاست دان سے ہم کلام ہوں۔ سیاست سے مجھے سخت نفرت ہے۔احمد سے راماشکل کے فلیٹ پر متعدد مرتبہ ملاقات ہوئی لیکن وہ کھل کر پھر بھی نہ بولا۔۔۔ وہ کونے میں کرسی پربیٹھا رم پیتا رہتا تھا، میں اور راماشکل بکواس میں مشغول رہتے۔

    قریب قریب دو سال گزر گئے۔ مجھے کسی نے بتایا کہ ڈبلیو زیڈ احمد کوئی فلم کمپنی قائم کررہے ہیں۔۔۔ مجھے حیرت ہوئی کہ بنگالی کے مکالمے ترجمے کرنے والا یہ شخص کیسے فلم کمپنی بنائے گا!مگر اس نے بنا لی۔۔۔ پونہ میں اس کا نام شالیمار اسٹوڈیو رکھا گیا۔ اشتہار بازی فوراً شروع ہوگئی۔ میں نے یہ اشتہار دیکھے۔ ان میں خاص زور ایکٹریس ’’نینا‘‘ پر دیا جاتا تھا، جس کو بار بار پراسرار کہا جاتا تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کسی ایکٹریس میں اسرار کیا ہوسکتا ہے؟ جب کہ اسے اسکرین پر آنا ہے، اس تو سارے بھید وہیں کھل جائیں گے۔

    مگر دو برس تک برابر یہی پبلسٹی ہوتی رہی۔ میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ پر اسرار نینا کون ہے؟ مگر کسی کو اس نئے چہرے کے متعلق علم نہیں تھا۔

    بابو راؤ پٹیل ایڈیٹر فلم انڈیا کے ساتھ مجھے اتفاقاً کام کرنے کا موقع مل گیا۔ میں نے اس سے پوچھا تو اس نے مجھے بتایا، ’’سالا تم جانتا نہیں۔۔۔ کیسا ایڈیٹر بنا پھرتا ہے۔۔۔ وہ۔۔۔ تم محسن عبداللہ کو جانتا ہے۔‘‘

    میں نے کہا، ’’ہاں! نام سنا ہے۔۔۔ کچھ کچھ ان کے متعلق جانتا ہوں۔‘‘

    ’’نینا، اس کی بیوی ہے، اب سمجھا؟‘‘

    ’’میں نہیں سمجھا۔‘‘

    ’’اس کا نام شاہدہ ہے۔‘‘

    میں نے جب بابو راؤ سے مزید استفسار کیا تو اس نے مجھے بتایا کہ شاہدہ رینوکا دیوی کی بھاوج ہے۔ میں نے اسے بمبئی ٹاکیز کی فلم ’’بھابی‘‘ میں ہیروئن کے رول میں دیکھا تھا اور اس کی کردار نگاری سے بہت متاثر ہوا تھا۔ اب میرے دماغ میں دو بھابیاں تھیں۔ ایک بمبئے ٹاکیز کی ’’بھابی‘‘دوسری شاہدہ عرف نینا۔۔۔ رینوکادیوی کی بھابھی۔

    مجھے ڈبلیوزیڈ احمد سے مزید ملنے کا اتفاق ہوا اور میں نے سوچا کہ وہ بڑا اندازہ گیر ہے۔ وہ مہمیں سر کرنے والا انسان ہے۔ سوویت روس کے آمروں کی طرح کئی کئی برسوں کی اسکیمیں بناتا ہے اور بڑے اطمینان سے ان کے نتائج کا انتظار کرتا ہے۔ میں بڑا جلد باز ہوں، اس لیے فطری طور پر مجھے اس سے کوئی لگاؤ نہیں ہوسکتا تھا۔ میں بڑبولا تھا، وہ نہایت کم گو۔ اس میں تصنع ہی تصنع تھا اور میں اس بناوٹ کا سخت مخالف۔ وہ باتیں کرتا تھا تو مجھے ایسا محسوس ہوتا تھاکوئی مشین بول رہی ہے۔

    لیکن مجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ وہ جب بھی بولتا، بڑی نپی تلی بات کہتا، چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو۔ وہ کئی زبانیں بولتا تھا، مرہٹی، گجراتی، انگریزی اور پنجابی۔ اصل میں وہ پنجابی ہے۔ اس کے خاندان کے متعلق مجھے کچھ علم نہیں مگر میں اتنا جانتا ہوں کہ مولانا صلاح الدین احمد ( ایڈیٹر ادبی دنیا) اس کے بھائی ہیں۔ اس کے ایک بھائی ریاض احمد بھی ہیں جو کسی اچھے سرکاری عہدے پر فائز ہیں۔یہ مضمون پڑھنے والے مشکل سے یقین کریں گے کہ مولانا صلاح الدین احمد، ڈبلیو زیڈ احمد (وحید) کے بھائی ہیں لیکن یہ حقیقت ہے، مجھے معلوم نہیں۔ یہ دو بھائی ایک دوسرے سے ملتے ہیں یا کہ نہیں لیکن ان دونوں میں ایک مماثلت ضرور ہے کہ خوشامد پسند ہیں۔

    بات شالیمار اسٹوڈیو کے قیام کی ہورہی تھی لیکن میں یہاں آپ سے ایک اور بات عرض کرنا چاہتا ہوں جو بہت ضروری ہے کہ ڈبلیو زیڈ احمد سندھ کے مشہور وزیراعظم غلام حسین ہدایت اللہ کی لڑکی سے بیاہے ہوئے تھے۔ معلوم نہیں ان کا رشتہ وہاں کیسے ہوا۔ ان کی تفصیلات کے متعلق مجھے کچھ معلوم نہیں۔

    آج سے ایک ماہ پہلے احمد صاحب جب ہال روڈ پر اپنے بال کٹوانے آیا تو میری اس سے ملاقات ہوئی۔ میں اس حجام کے قریب ہی رہتا ہوں، میں اس کو زبردستی اپنے مکان میں لے آیا اور اس سے کہا، ’’میں نینا کے متعلق کچھ لکھنا چاہتا ہوں، کیا تم مجھے اس کی اجازت دیتے ہو؟‘‘ اس نے اپنے مخصوص انداز میں کہا، ’’میں آپ کو ایک دو روز میں بتادوں گا۔‘‘

    کئی روز گزر گیے۔ اس کے بعد احمد سے میری ملاقات ڈائریکٹر کے دفتر میں ہوئی۔ میں نے پھر اس سے پوچھا کہ اب اجازت دینے میں کتنے روز چاہئیں۔ اس کے پائپ لگے ہونٹوں پر اس کی مخصوص مسکراہٹ پیدا ہوئی۔ نیم گنجاسر ذرا چمکنے لگا اور اس نے کہا، ’’میں آج کل بہت مصروف ہوں۔۔۔ بس ایک ہفتے کی مہلت چاہتا ہوں۔‘‘

    چوہدری فضل حق صاحب (ڈائریکٹر کے مالک) اور شباب صاحب (ڈائریکٹر کے مدیر) بیٹھے تھے۔ میں نے کہا، ’’بہت بہتر ہے۔ ایک ہفتہ گزرنے میں کیا دیر لگتی ہے؟‘‘ دو ہفتے گزر چکے مگر مجھے احمد سے اجازت نہیں ملی۔ میں نے سوچا کہ ایسے تکلف کی ضرورت ہی کیا ہے۔ ہر ایکٹر اور ایکٹریس لکھنے والا اور لکھنے والی عوام کی ملکیت ہوتی ہے، اگر تم ان کے متعلق لکھنا چاہو تو بغیر اجازت لکھ سکتے ہو۔

    یہی وجہ ہے میں نے یہ مضمون لکھنا شروع کردیا۔

    شالیمار اسٹوڈیو قائم ہوگیا۔ نینا یعنی شاہدہ کا خاوند وہاں کی لیبارٹری کا انچارج بنا دیا گیا۔ اب جو کچھ میرے علم ہے، آپ سے بیان کرتا ہوں۔

    شاہدہ کو ایکٹریس بننے کی کوئی خواہش نہیں تھی۔ وہ بڑی گھریلو قسم کی عورت تھی۔ اس کو کسی قسم کا ہنگامہ پسند نہیں تھا۔ اچھا اب آپ یہ بھی سن لیجئے،احمد جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں، بڑا اندازہ گیر تھا۔ اس نے روسیوں کی طرح ایک پنج سالہ ا سکیم بنائی اور اس کے ماتحت کام کرنا شروع کردیا۔ اس دوران میں اس نے مخصوص کچھوے پن سے کام لیا۔ یہ بڑی لمبی داستان ہے،میں اسے بیان نہیں کرنا چاہتا اس لیے کہ اس مضمون میں اس سے کوئی زیادہ اثر پیدا نہیں ہوسکے گا۔

    محسن سنہہ پربھا پردھان کے عشق میں مصروف تھا، جب مالی مشکلات پیدا ہوئی تو اس نے اپنی بیوی شاہدہ سے کہا، ’’تم بڑی بیک ورڈ ہو، میری بہنوں کی طرف دیکھو، کتنی روشن خیال ہیں۔‘‘

    شاہدہ نے غالباً اس سے کہا، ’’مجھے معاف کیجئے۔ میں اتنی روشن خیال نہیں ہوسکتی۔‘‘

    ان کے درمیان کئی چخیں ہوئیں۔ محسن چاہتا تھا کہ وہ فلم لائن میں داخل ہو جائے مگر اس کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔

    عصمت چغتائی نے( اب عصمت شاہد لطیف جو ضدی، آرزو اور بزدل جیسے کامیاب فلموں کی کہانی لکھ چکی ہے) میری بیوی سے کہا کہ، ’’شاہدہ علی گڑھ میں اس کی ہم جماعت رہ چکی ہے۔ بڑی ادت ہے، بہت سادہ لوح۔‘‘

    میری بیوی بڑی حیران ہوئی۔ اس نے عصمت سے پوچھا، ’’یہ رائے تم نے کیسے قائم کی؟‘‘

    ’’میری سہیلی ہے۔ میں اس کو اچھی طرح جانتی ہوں۔‘‘

    ’’تمہاری میرے متعلق کیا رائے ہے؟‘‘

    عصمت نے جواب دیا، ’’تم تو نری کھری عورت ہو۔‘‘

    ’’اس میں کیا عیب ہے۔‘‘

    ’’کچھ بھی نہیں۔۔۔ لیکن تم شاہدہ سے بہت زیادہ مختلف ہو۔۔۔ ‘‘

    ’’کس لحاظ سے؟‘‘

    ’’وہ بیوقوف ہے، تم بیوقوف نہیں ہو۔ تم اپنے خاوند کو سنبھالنا جانتی ہو، اس کو اپنے خاوند کو سنبھالنا نہیں آتا۔‘‘

    ’’یہ تم کیسے کہتی ہو؟‘‘

    ’’میں تم سے کہہ چکی ہوں کہ میں اسے اچھی طرح جانتی ہوں۔ اس کے سارے گھرانے سے واقف ہوں۔ بہت سیدھی سادی سی لڑکی تھی۔ ہم کالج میں اس کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ وہ جھینپ جھینپ جایا کرتی تھی۔‘‘

    عصمت نے میری بیوی کو بتایا کہ اسے عشق و محبت کے متعلق کچھ معلوم نہیں تھا۔ اس کو حیرت تھی کہ وہ کیسے محسن کی محبت میں گرفتار ہوگئی۔ اس کا خیال تھا کہ محسن کچھ زیادہ ہی اس کے پیچھے پڑ گیا ہو گا کہ وہ رضا مند ہوگئی اس لیے کہ وہ طبیعت کے لحاظ سے بہت نرم ہے، اسے اس بات کا کوئی خیال نہیں ہوتا کہ آگے چل کر کیا ہوگا۔

    محسن نے جیسا کہ مجھے بعد میں معلوم ہوا، شاہدہ کو مجبور کیا کہ وہ فلم ایکٹریس بن جائے۔ وہ بادل ناخواستہ رضا مند ہوگئی۔ چنانچہ اس کے ناتواں کندھوں پر شالیمار اسٹوڈیو تعمیر کردیا گیا۔۔۔ اور احمد ( ڈبلیو زیڈ) ایک پروڈیوسر بن گیا اور اس نے شاہدہ کو پراسرار نینا بنا دیا۔ معلوم نہیں یہ نام احمد نے اس کے لئے تجویز کیا تھا یا اس کے شوہر محسن نے۔

    احمد نے فلم بنانے سے پہلے اس پر اسرار نینا کی بڑی تشہیر کی۔ ہر پرچے میں یہ نام دیکھنے میں آتا۔ لوگوں کے دلوں میں بڑا اشتیاق پیدا ہوگیا کہ یہ کون سی آفت جان ہے۔ چنانچہ اس فلم کا بڑی بے چینی سے انتظار کیا جانے لگا۔ اس کا نام’’ ایک رات‘‘ تھا۔ معلوم نہیں اس کی تکمیل میں کتنی راتیں اس نے کاٹی ہوں گی بہر حال وہ بن گئی۔

    اس فلم کی کہانی مشہور ناول’’ٹیس‘‘ کا چربہ تھا اس میں شاہدہ (پراسرار نینا) کو گوالن کا رول دیا گیا تھا۔ ایک شخص اس کی عصمت لوٹ لیتا ہے۔ اس کے بعد اس کی باقاعدہ شادی ہو جاتی ہے۔ وہ بڑی بھولی بھالی ہے۔ اپنے خاوند سے اپنی گزشتہ زندگی کے اس حادثے کو بیان کردیتی ہے۔ وہ اس کو دھتکار دیتاہے۔

    احمد (ڈبلیو۔ زیڈ) اپنی پنج سالہ ا سکیم کے ماتحت شاہدہ سے کچھ اس طرح مل رہا تھا جس طرح مالوٹوف کسی دوسرے سفیرسے مل رہا ہے۔

    شاہدہ کا خاوند محسن اپنی سرگرمیوں میں مشغول تھا۔ اس کے ناکام عشق کا سلسلہ سنہہ پربھا پردھان سے بدستور تھا۔ شاہدہ سے اس کو کوئی لگاؤ نہیں تھا۔ یہ میں اس زمانے کی بات کررہا ہوں، جب شالیمار اسٹوڈیو قائم نہیں ہوا تھا۔

    اس زمانے میں (مجھے) افسوس ہے کہ میں یہ مضمون غیر مسلسل لکھ رہا ہوں لیکن اس کے سوا اور کوئی چارہ بھی نہیں۔ اس لیے کہ خیالات جیسے دماغ میں آتے ہیں،میں قلم بند کیے جاتا ہوں۔ احمد جو محسن کا دوست بن گیا، شاہدہ کو بیگم کہتا۔ اس کی ضرورت سے زیادہ تعظیم کرتا، جب وہ آتی تو اٹھ کھڑا ہوتا اور اسے تسلیمات عرض کرتا۔ احمد نے یہ رویہ سوچ سمجھ کر اختیار کیا تھا اس لیے کہ وہ محسن کی بے پروائی کا تقابل بننا چاہتا تھا لیکن اسے معلوم تھا۔۔۔ وہ بڑا دقیقہ شناس تھا کہ وہ شاہدہ کو ایک دو برس میں نہیں تو کم از کم پانچ برسوں میں ضرور حاصل کرلے گا۔

    اب میں آپ سے عرض کروں کہ فلمی دنیا میں اکثر و بیشتر حضرات عورتوں کے ذریعے سے کامیاب ہوئے ہیں۔ اس کے پیش نظر بھی غالباً یہی نسخہ تھا۔ احمد نے اس پر چھا جانے کے لیےکافی وقت صرف کیا۔ اس کے خاوند محسن عبداللہ کو ہر سمت سے خوش کرنے کی کوشش کی مگر وہ طبعاً اوباش تھا۔

    شالیمار اسٹوڈیوز میں جب محسن کو لیبارٹری انچارج بنا دیا گیا اور اس کی معقول تنخواہ مقرر کردی گئی تو اس نے اپنے شغل اور زیادہ زور و شور سے جاری رکھے۔ شاہدہ یہ سب کچھ ایک گھریلو عورت کے مانند دیکھتی رہی۔ کبھی کبھی گلہ شکوہ کرتی مگر اس کے خاوند پر جوتن آسان تھا، کوئی اثر نہ ہوتا۔ اس کو بمبئے ٹاکیز کی گھٹی گھٹی فضا سے باہر نکل کر شالیمار اسٹوڈیو میں ایک بہت بڑا میدان مل گیا تھا۔ جس میں وہ اپنے اشغال میں بڑی بے تکلفی سے مصروف رہ سکتا تھا۔

    شاہدہ گو ایکٹریس بن گئی تھی۔ اسے اس گوالن کا رول ادا کرنا تھا جس کی عصمت لوٹ لی گئی تھی لیکن اسے اپنے شوہر سے پیار تھا۔ وہ چاہتی تھی کہ فلمی دنیا سے نکل کر گھریلو دنیا میں چلی جائے۔ اسے پر اسرار کہلانا پسند نہیں تھا۔ لیکن جب اس کے متعلق اشتہار بازی ہوتے دو برس ہوگیےتو اس کے ننھے سے گھروندے میں جس کو دل کہتے ہیں، عجیب عجیب سی دھڑکنیں پیدا ہونے لگیں جن سے وہ پہلے نا آشنا تھی۔اس کے سامنے جو تقابل احمد نے پیش کیا، وہ اس کے متعلق اب سوچنے لگی۔ وہ آداب کا مجسمہ تھا۔ اس کے خلاف محسن بہت تکلیف دہ قسم کا بے ادب جو اس سے بہت برا سلوک کرتا۔ اس کے علاوہ شاہدہ کو سب سے بڑی شکایت یہ تھی کہ وہ اسٹوڈیو میں دوسری عورتوں سے عشق لڑاتا پھرتا تھا۔

    احمد نے محسن کو جس عہدے پر مقرر کیا تھا، وہ اسے اس کی اسکیم کے مطابق سنبھال نہ سکا۔ اس نے محسن کو کبھی ٹوکا نہیں تھا کہ وہ جوا کیوں کھیلتا ہے، ریس میں روپیہ کیوں ہارتا ہے، اسٹوڈیو کی لڑکیوں سے کیوں دلچسپی لیتا ہے۔ وہ چاہتا تھا کہ بری طرح وہ ان خرابیوں میں گرفتار ہو جائے، اس لیے وہ خود ایک بہت بڑی خرابی کے در پے تھا۔

    احمد کی اسکیم میں جو کچھ تھا، وہ تو ظاہر ہے بھولی بھالی شاہدہ اسے نہ سمجھ سکی۔ وہ اپنے دل کی عجیب و غریب دھڑکنوں کو بھی نہیں سمجھی۔ میک اپ کرتی، آئینے میں اپنی شکل دیکھتی اور شرما جاتی۔ اسے یوں محسوس ہوتا کہ وہ گالز وردی کے ناول’’ٹیس‘‘ کی گوالن ہے جس کی عصمت لوٹی جانے والی ہے۔

    اس نے جب فلم میں اپنا رول ادا کرنا شروع کردیا تو اس کا حجاب کسی قدر دور ہوگیا۔۔۔ محسن اسی قدر اس سے دور ہوتا گیا۔ وہ یوں محسوس کرنے لگی کہ اس کے کچے مٹکے تڑخ رہے ہیں۔۔۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ یہ قیمتی مٹکے ٹوٹ جائیں لیکن احمد نے ان کی تریڑوں کو یقین دلایا کہ وہ خود بخود ٹھیک ہو جائیں گی۔تریڑیں آہستہ آہستہ ٹھیک ہونے لگیں اس لیے کہ احمد ایسے معاملوں میں بڑا ماہر کاریگر ہے۔ اس نے ان میں اپنی سیاست کا سیمنٹ بھرنا شروع کردیا۔۔۔ اس کے ساتھ وہ محسن کے بھی چونا لگا رہا تھا۔

    احمد بڑا اچھا معمار ہے۔ اس نے اپنا کام بہت آہستہ مگر بڑی صفائی سے کیا۔ آخر وہ محسن کی اینٹ کو اپنی عمارت سے نکالنے میں کامیاب ہوگیا۔

    اس نے اس دوران شاہدہ کو یقین دلایا تھا کہ اس کا شوہر ایک اوباش اور ناکارہ آدمی ہے۔ اس نے اس کو محض اس لیے اپنے کاروبار میں شریک کیا تھا کہ اس کی عادات سدھر جائیں گی مگر وہ اس قابل ثابت نہیں ہوا۔

    شاہدہ یہ سب باتیں سنتی رہی اور اس کو یقین سا آنے لگا کہ شاید یہ درست ہیں۔ لیبارٹری کا کام بہت سست رفتار تھا، خود احمد بھی چیونٹی کی چال چلنے کا عادی ہے لیکن ایک دن اس نے محسن سے بڑی نرمی سے کہا، ’’ دیکھئے، آپ سے کام نہیں ہوتا، شاید اس لیے کہ آپ اسے اپنے رتبے کے مطابق نہیں سمجھتے۔ میں لیبارٹری کسی اور کے حوالے کردیتا ہوں، جو تنخواہ آپ کی مقرر کی گئی ہے، برابر آپ کو ملتی رہے گی۔‘‘

    محسن پہلے تو سخت طیش میں آگیا لیکن اس کی یہ آگ فوراً احمد نے بجھا دی اس لیے کہ وہ بڑا اچھا فائر بریگیڈ ہے۔ چنانچہ شاہدہ کا خاوند ملازمت سے علیحدہ ہوگیا اور اسے پنشن ملنے لگی۔میں محسن کو اچھی طرح جانتا ہوں کہ وہ بیک وقت ذکی الحس اور بے حس ہے، اس وقت شاید اس پر بے حسی طاری تھی کہ اس نے احمد کا یہ فیصلہ قبول کرلیا۔

    اس کو اس بات کا قطعی علم نہیں تھا کہ اس کی بیوی جس سے وہ غفلت برت رہا ہے اور جس کو اس نے مجبور کیا ہے کہ وہ اس کی بہنوں کی طرح آزاد ہو، اس کی مانگ میں کوئی اور ہولے ہولے نیا سیندور ڈال رہا ہے۔ وہ قطعاً غافل تھا۔۔۔ اس کو دراصل اپنی بیوی سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ اس کو بمبئی اور پونہ کے گھوڑوں، تاش کے پتوں اور پونے کے کاشٹوں سے شغف تھا۔

    فلم بن رہا تھا۔ شاہدہ گوالن بنی پر اسرار نینا کے نام سے اس میں کام کرنے میں دن رات مصروف تھی اور احمد ڈائریکٹر کی حیثیت سے اس کو ایسی ڈائریکشن دے رہا تھا جو اس کے مقصد کو پورا کرسکے۔محسن عبداللہ کافی وجیہہ مرد ہے۔ لم تڑنگ، مضبوط جسم، تعلیم یافتہ مگر ضرورت سے زیادہ روشن خیال۔ اس نے شالیمار اسٹوڈیو سے علیحدگی اختیار کرلی اور اپنی بیوی کی مفارقت کے متعلق جس سے اس نے عشق کے ماتحت شادی کی تھی، کچھ زیادہ خیال نہ کیا۔ اسے شاہدہ پر کامل اعتبارتھا لیکن اس کے باوجود اسے اس کی کوئی پروا بھی نہیں تھی۔ وہ اب آزاد تھااور اس آزادی سے فائدہ اٹھانا چاہتا تھا۔

    ڈبلیوزیڈ احمد بڑا وضع دار آدمی ہے۔ وہ اپنے عملے کے دوسرے آدمیوں کو اگر وقت پر تنخواہ نہ دے سکتا تھا تو محسن کو اس کی پنشن مقررہ وقت پر ضرور ادا کردیتا۔ یہ اس کے کریکٹر کا ایک خاص پہلو ہے۔ وہ چھچھورا یا کمینہ نہیں۔ اس میں ایک اعلیٰ خاندان کے فرد کی تمام خصوصیات موجود ہیں لیکن سوئے اتفاق سے وہ چونکہ فلمی دنیا میں داخل ہوگیا تھا اور اس کی طبیعت سراسر سیاسی تھی، اس لیے اسے اس ماحول کے مطابق خود کو ڈھالنا پڑا۔ اس کے پاس کوئی سرمایہ نہیں تھا لیکن اس نے لاکھوں روپے سمیٹے۔ ان کو اس نے کسی عیاشی میں تباہ نہیں کیا۔ دراصل وہ بڑا سہل نگار اور سست رفتار تھا۔ اس کے علاوہ خوشامد پسند بھی۔ وہ بڑے چھوٹے پیمانے پر ایک مغل بادشاہ ہے جو اپنے اردگرد شاعروں، بھانڈوں اور اسی قسم کے دوسرے لوگوں کاجھمگٹا لگائے رکھتے ہیں۔

    جیسا کہ شاید اس سے پیشتر عرض کر چکا ہوں، اس کے ہاں ساغر نظامی، جوش ملیح آبادی، جاں نثار اختر، کرشن چندر ایم، اے اوربھرت ویاس ملازم تھے۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر عبداللہ چغتائی اور میرا بھانجھا مسعود پرویز بھی تھے۔ یہ سب احمد کے مکان کے ایک کمرے میں بیٹھتے، کہانی کے مکالموں پر بڑی گرما گرم بحثیں ہوتیں۔ سارت رات گزر جاتی اور کوئی فیصلہ نہ ہوتا اس لیے کہ درباری ماحول ہوتا تھا۔کوئی بات شروع ہوئی تو جوش ملیح آبادی نے موقع محل کے مطابق اشعار سنانے شروع کردیے۔ واہ واہ ہورہی ہے۔ مسعود پرویز جس کا دماغ اس زمانے میں حاضر تھا، فوراً اسی زمین میں چند شعر کھود ڈالے، ساغر نظامی کو تاؤ آیا تو اس نے ایک لمبی نظم ترنم میں پڑھ دی۔ کرشن چندر الو بنا بیٹھا رہتا، افسانہ نگار تھا،اس کو شعروں سے بھلا کیا واسطہ؟ان نشستوں میں کام بہت کم ہوتا۔ باتیں بہت زیادہ ہوتیں۔ بھرت ویاس کو یہ احساس کمتری تھا کہ وہ اردو زبان نہیں جانتا اس لیے وہ اپنی سنسکرت آمیز ہندی بگھارنا شروع کردیتا۔

    کبھی کبھی احمد جب کوئی موزوں فقرہ بولتے تو جوش ملیح آبادی عش عش کرتے اور کہتے، ’’احمد صاحب! آپ تو شاعر ہیں۔‘‘ بس احمد صاحب اس وقت اپنا کام بھول جاتے اور شعرفکر کرنے لگتے۔ محفل برخاست کردی جاتی اور وہ ساری رات غزل کی تکمیل میں ہی مصروف ہوتے اور جو میرا خیال ہے آج تک ایک بھی مکمل نہیں ہوئی۔

    یہ لوگ احمد کے خوشامدی تھے، جوش ملیح آبادی کو ہر سال رم کا آدھا مل جاتا تھا۔ شروع شروع میں شالیمار اسٹوڈیو میں چند مہینوں تک باقاعدہ تنخواہیں ملتی رہیں۔ اس کے بعد بے قاعدگی شروع ہوگئی۔ عملے کے آدمی صرف ایڈوانس لیتے تھے۔وہاں کی فضاعجیب و غریب تھی۔ ڈائریکٹر ایک تھا مگر اس کے اسسٹنٹ دس بارہ کے قریب تھے۔ اسسٹنٹ کے اسسٹنٹ اور در اسسٹنٹ۔ معلوم نہیں یہ لوگ گزارہ کیسے کرتے تھے، اس لیے کہ تنخواہ تو وقت پر ملتی ہی نہیں تھی۔

    بہر حال یہ احمد کا معجزہ تھا کہ اس نے شالیمار اسٹوڈیو کا بھرم کسی نہ کسی طرح قائم رکھا ہوا تھا۔ وہ بڑا کائیاں انسان تھا۔ اس کو مشکل سے مشکل وقت بھی پریشان نہیں کرسکتا۔ بڑے اطمینان سے چاندی کی ڈبیا میں سے پان نکالے گا، بٹوے میں سے چھا لیا اور تمباکو کو نکال کر کلے میں دبائے گا اور مسکرانا شروع کردے گا۔

    اس میں وہ تمام خصوصیات موجود ہیں جو کسی پر کار سیاست دان میں ہوسکتی ہیں۔ اس نے اسی سیاست کی بدولت شالیمار اسٹوڈیوبنایا اور آہستہ آہستہ اپنا رستہ ماپ کر شاہدہ پر قبضہ کرلیا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کو شاہدہ میں ایسی کیا کشش دکھائی دی کہ اس نے اس کے سپاٹ جسم پر ایک نگار خانہ تعمیرکردیا۔ وہ ایسی عورت ہی نہیں تھی جو ایکٹریس بننے کے قابل ہو مگر شاید احمد کو اس وقت کوئی اور لڑکی میسر نہیں تھی یا آسانی سے ہاتھ نہیں لگ سکتی تھی کہ اس نے اپنے دوست محسن کی بیوی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور بعد میں وہ اس کے گھریلو پن سے اتنا متاثر ہوا کہ اس کی محبت میں گرفتار ہوگیا۔

    لیکن یہ امر بھی مشتبہ ہے، ہوسکتا ہے کہ احمد کو شاہدہ سے بھی محبت نہ ہوئی ہو، محض اپنے مفاد کی خاطر جب وہ اس پر لگا تار اپنی شرافت کا بوجھ ڈالتا رہا تو وہ اپنے خاوند محسن عبداللہ کو بھولتی گئی، مگر یہ نظریہ بھی درست نہیں کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ طلاق ہونے تک وہ اپنے شوہر سے جدا ہونا پسند نہیں کرتی تھیں۔ میں اس کے متعلق آگے چل کر کچھ عرض کروں لیکن میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ شاہدہ، احمد کے ساتھ کیوں رہتی تھی، ٹھہریے۔۔۔ میں بھول گیا۔ شروع میں وہ دونوں الگ الگ رہتے تھے لیکن بعد میں ایک ہی کوٹھی میں رہنے لگے۔

    جانے کون سا سَن تھا۔ میں فلمستان میں ملازم تھا۔ ایس مکر جی وہاں کے پروڈکشن کنٹرولر تھے۔ انہوں نے ایک روز مجھ سے کہا کہ تم کہانی کیوں نہیں لکھتے ہو۔ میں نے چنانچہ پانچ دن میں چار کہانیاں لکھیں۔ مکر جی صاحب نے مجھ سے کہا کہ مجھے سناؤ، میں نے صاف انکار کردیا اور چاروں کہانیاں اپنے بھانجے مسعود پرویز کو بھیج دیں جو شالیمار اسٹوڈیو میں ملازم تھا۔

    پہلی کہانی’’کنٹرولستان‘‘تھی۔ مجھے چوتھے روز مسعود کا تار ملا کہ تمہاری یہ کہانی بہت پسند کی گئی ہے۔ بہتر ہے کہ تم پونہ چلے آؤ تاکہ احمد صاحب سے جملہ معاملات طے ہو جائیں۔میں پونہ گیا۔ اب یہ ایک لمبی حکایت ہے کہ میں وہاں کس طرح پہنچا۔ میں نے شالیمار اسٹوڈیو میں کیا کچھ دیکھا۔ صرف ایک دلچسپ بات بتائے دیتا ہوں کہ سب سے پہلے میں اس اسٹوڈیو کی موتری(پیشاب خانے) میں گیا کیونکہ یہ ایسی جگہ ہے جہاں سے متعلقہ فضاکے اکثر و بیشتر حالات معلوم ہو جایا کرتے ہیں۔

    میں جب اندر داخل ہوا تو سامنے دیوار پر اردو زبان میں جملہ لکھا تھا، ’’اور تو سب ٹھیک ہے پر یہاں پگار(تنخواہ) نہیں ملتی۔‘‘ میں بڑا بددل ہوا۔ میں نے سوچا کہ واپس چلا جاؤں لیکن مسعود نے مجبور کیا کہ احمد سے مل لوں۔ شام کو اس سے ملاقات ہوئی۔ وہ دفتر میں۔۔۔ یہ بڑا سگار سلگائے اپنی کرسی پر بیٹھا تھا۔ ایک طرف شاہدہ تھی، دوسری طرف جوش ملیح آبادی۔

    جوش سے علیک سلیک ہوئی۔ ان کے پاس ان کھلا رم کا ادھا تھا جو غالباً احمد نے احتراماً منگوا کر دیا تھا۔ احمد سے میں نے پنجابی میں گفتگو شروع کی لیکن فوراً مجھے احساس ہوا کہ پاس جوش اور شاہدہ بیٹھے ہیں، جو یہ زبان نہیں سمجھتے۔ اس لیے میں نے اردو میں بات چیت شروع کردی۔میں نے جب اسے پربھات فلم کمپنی میں دیکھا تھا تو وہ تروتازہ نوجوان تھا۔ پر اب اس میں بڑی تبدیلیاں پیدا ہوگئی تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ لو چلنے کے باعث جھلس سا گیا تھا۔

    اس نے اپنے مخصوص رسمی انداز میں مجھ سے مصافحہ کیا تھا اور شاہدہ عرف پر اسرار نینا سے بھی متعارف کروایا تھا۔ وہ اس وقت وہیں دفتر میں موجود تھی۔اس کی شکل و صورت میں کوئی ایسی بات نہیں تھی جس میں کوئی اسرار پوشیدہ ہو۔ معمولی خدوخال کی عورت تھی۔ میں نے جب اسے پہلی مرتبہ احمد کے دفتر میں دیکھا تو مجھے احساس ہوا کہ وہ آبی رنگوں کی ایسی تصویر ہے جو بارش میں چھت ٹپکنے کے باعث اپنے رنگ کھو چکی ہے۔

    اس میں ایکٹرسوں کی ایکٹرسیت نہیں تھی۔ خاموش ایک کرسی پر بیٹھی تھی۔ اس کو معلوم ہوگیا تھا کہ میں کون ہوں، وہ یہ بھی جان گئی تھی کہ میں اس کے شوہر محسن عبداللہ کو اچھی طرح جانتا ہوں۔

    تھوڑی دیر جوش ملیح آبادی سے گفتگو ہوتی رہی۔ وہ اپنا شام کا کوٹا یعنی رم کا آدھا ہاتھ میں تھامے بیٹھے تھے اور احمد مشہور جرمن فلم ڈائریکٹر کی نقل اتار رہا تھا۔ میرا مطلب ہے کہ ایک لمبا سگار ہونٹوں میں دبائے بیٹھا تھا۔

    میں وہاں اپنی ایک کہانی بیچنے کے سلسلے میں گیا تھا۔ اس کے متعلق اس دن کوئی بات نہ ہوسکی، اس لیے کہ میں نے پر اسرار نینا کو دیکھ لیا تھا۔

    فلمستان میں، میں نے محسن عبداللہ کو بھی ملازم رکھوایا تھا۔ اس کی حالت بہت پتلی تھی۔ ایک دن میں نے پروڈکشن کنٹرولر مسٹر مکر جی سے کہا کہ وہ بمبئی ٹاکیز کے زمانے میں اس کا دوست رہ چکا ہے۔ اس کو شرم آنی چاہیے کہ وہ غریب کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کررہا ہے۔مکر جی نے دوسرے روز ہی اسے بلایا۔ آپس میں دوستانہ گفتگو ہوئی۔ اس کے بعد مکرجی نے دوستانہ طور پر اس سے کہا کہ وہ فلمستان میں کیوں نہیں آجاتا۔ وہ راضی ہوگیا۔ اس کی تنخواہ چار سو روپے ماہوار مقرر ہوگئی۔

    محسن عبداللہ بڑا کام چور ہے، اس کو کام کرنے کی عادت ہی نہیں ہے۔ میرا خیال ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ دوسرا اس کے لئے کمائے اور وہ کھائے۔

    ان دنوں’’ آٹھ دن‘‘ بن رہا تھا جس کی کہانی میری لکھی ہوئی تھی۔ اس کا منظر نامہ میں جب لکھنے لگا تو محسن نے مجھ پر بڑے احسان کیے۔ مجھے کئی مشورے دیے جو فلمی نقطہ نظر سے بالکل غلط تھے۔ میں نے ان کو نظر انداز کردیا۔ اس دوران میں وہ مجھے بتا چکا تھا کہ اس کو شاہدہ کی محبت اب بھی ستاتی ہے۔ حالانکہ میں جانتا تھا کہ وہ ایک لڑکی سے جو عورت بن چکی تھی، جس کا نام ویرا تھا اور جسے ہم نے’’ آٹھ دن‘‘ کی ہیروئن منتخب کیا تھا، اپنا ٹانکا ملا رہا ہے۔

    شروع شروع میں وہ سیکنڈ کلاس میں سفر کیا کرتا تھا۔ برقی ٹرین میں تین درجے ہوتے ہیں، تھرڈ، سیکنڈ کلاس اور فرسٹ۔ فلمستان شہر سے کافی دور تھا، غالباً انیس میل۔ یہ مسافت طے کرنے میں کم از کم پون گھنٹہ لگتا تھا لیکن جب رائے بہادر چونی لال نے فلم ’’آٹھ دن‘‘ کے لئے ویرا کے ساتھ کنٹریکٹ کیا تو اس نے فرسٹ کلاس میں آنا جانا شروع کردیا۔ میرا خیال ہے کہ اب سلسلہ خیال کو یہیں بند کردینا چاہیے اور اصل موضوع کی طرف آنا چاہیے۔

    میں احمد کے دفتر میں بیٹھا ایک ابو الہول کو دیکھ رہا تھا۔ اس کے ساتھ پر اسرار نینا بیٹھی تھی لیکن میرے نزدیک ان دونوں میں کوئی پرانی ’’مصریت‘‘ نہیں تھی۔یوں تو پر اسرار نینا میرے لیے بالکل اجنبی اور نئی تھی لیکن اس کے باوجود میں یہ سمجھتا تھا کہ میں اس کو اس کی پیدائش سے جانتا ہوں۔ جیسا کہ میں اس سے پیشتر عرض کر چکا ہوں، وہ بڑی گھریلو قسم کی عورت ہے یا دکھائی دیتی ہے۔

    میرے دل و دماغ میں بے شمار خیالات تھے، اس لیے کہ میں محسن عبداللہ کا دوست بن گیا تھا۔ اس نے مجھے اپنی زندگی کے واقعات کچھ اس انداز سے بتائے تھے کہ میں ایک سادہ لوح ہونے کی وجہ سے متاثر ہوا تھا۔ اس نے مجھ سے کہا تھا کہ اس کی بیوی شاہدہ کو اس سے بتدریج چھینا گیا ہے لیکن مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ایک خاوند سے اس کی موجودگی میں بتدریج یا نابتدریج کیسے چھینا جا سکتا ہے۔

    اصل میں وہ اس سے غافل تھا اور سنہہ پربھا پردھان کے عشق میں مبتلا تھا۔ اس کے علاوہ اس کو جوئے بازی کا بھی شوق تھا۔ فلش کھیلتا اور اکثر ہارتا۔ اس کو اپنی بیوی سے ہمیشہ یہ گلہ رہتا کہ وہ اس کی بہنوں کی طرح آزاد نہیں ہے۔ وہ غریب فلمی ماحول سے قطعاًآشنا ہونا نہیں چاہتی تھی۔ دل ہی دل میں کڑھتی تھی کہ اس کا خاوند جو فلم لیبارٹری میں کام کرتا ہے کیوں اسے مجبور کررہا ہے کہ وہ فلم ایکٹریس بن جائے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ شاہدہ ایک اونچے، روشن خیال اور بے باک خاندان کی فرد تھی لیکن اس کے باوجود اس میں حجاب بدرجہ اتم موجود تھا۔ اس نے شروع شروع میں اپنے خاوند محسن عبداللہ سے یہ شکایت کہ وہ کیوں ایک ایکٹریس سے عشق لڑا رہا ہے، کیوں جوا کھیلتا ہے اور بے کار روپیہ ضائع کرتا ہے مگر محسن عبداللہ نے اپنی بیوی کی کوئی بات نہ سنی۔

    ڈبلیوزیڈ، احمد ان کے گھر بدستور آتا رہا۔ وہ اس کا اتنا احترام کرتا تھا کہ وہ سمجھتی تھی کہ وہ اس احترام کے قابل نہیں۔ اس کو آہستہ آہستہ یہ محسوس ہونے لگا کہ احمد جس کے ساتھ ڈبلیو زیڈ چپکا ہوا ہے، کوئی ایسا مرد ہے جو محسن کے مقابلے میں اس پر زیادہ جنسی احسان کرسکتا ہے۔

    محسن مس پردھان کے چکر میں پڑا تھا۔ میں آپ کو یہاں بتادوں کہ مس پردھان بڑی قبضہ گیر قسم کی عورت ہے اور محسن جو اپنی بیوی کو قریب قریب چھوڑ چکا تھا، اس کے پیش نظر وہ اس کے بارے میں کیا رائے قائم کرسکتی تھی؟ ظاہر ہے کہ ان کے رومان کا انجام ناکام رہا۔

    معاف کیجئے گا کہ میں بہک گیا۔ اور باتوں ہی باتوں میں خدا معلوم کہاں پہنچ گیا۔ ویسے آپ سے عرض یہی کرنا تھا کہ احمد کے دفتر میں جب نینا سے میری ملاقات ہوئی تو میں حسب معمول پئے تھا اور جب میں پئے ہوتا ہوں تو مجھے تکلف برتنا نہیں آتا۔ چنانچہ میں نے پر اسرار نینا سے کہا کہ، ’’آپ کا اسرار تو میں نہیں جانتا اس لیے کہ وہ ڈبلیوزیڈ احمد کے پاس محفوظ ہے لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ آپ نے اپنے شوہر کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔‘‘

    یہ سن کر ڈبلیو زیڈ احمد نے میری طرف دیکھا اور یہ معذرت کرکے اسے کسی سے باہر ملنا ہے، چلا گیا اور ساتھ جوش ملیح آبادی کو بھی لے گیا۔ ایسے معاملوں میں ڈبلیو زیڈ احمد کا کوئی جواب نہیں۔ وہ ہر رمز اور ہر کنایہ پہچانتا ہے۔ یہی وجہ وہ اپنی پنج سالہ ا سکیم کے ماتحت نینا کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا جس کو اس نے پر اسرار بنا دیا۔ اصل میں اسرار سارا احمد کا ہے جس نے اسے ایک لوٹن کبوتری بنا کر رکھ دیا ہے جو صرف اسی کے گھر میں انڈے دیتی ہے۔

    ایک انڈہ اس نے محسن کے گھر میں بھی دیا تھا جس کا چوزہ صحت مند نہیں تھا۔ ڈبلیو زیڈ احمد کی کاری گری ہے یا آپ اسے کوئی اور نام دے دیجئے کہ وہ اب تک اسے پالتا پوستا ہے۔

    میں نے احمد کے چلے جانے کے بعد نینا سے سلسلہ گفتگو کا آغاز کیا۔ میں نے اسے کہا کہ وہ تمہاری یاد میں اکثر آنسو بہاتا ہے۔ یہ سن کر اس کے مرجھائے ہوئے ہونٹوں پر ایک عجیب سی طنزیہ مسکراہٹ نمودار ہوئی، ’’منٹو صاحب! آپ اس شخص کو نہیں جانتے۔ اس کا ہر آنسو انگریزی کے محاورے کے مطابق مگر مچھ کا آنسو ہوتا ہے، وہ آنسو نہیں بلکہ آنسو اس کو بہاتے ہیں۔‘‘ یہ جملہ میری سمجھ میں نہ آیا۔ بہر حال شاہدہ عرف پراسرار نینا کی بے اسرار سنجیدگی یہ ظاہر کیے دیتی تھی کہ جو کچھ اس نے کہا ہے اس میں دروغ کی گنجائش نہیں ہوسکتی۔ ان دنوں ’’مِیرا بائی‘‘ کی تیاریاں ہورہی تھیں، اس کے علاوہ ’’کرشن بھگوان‘‘ کے لیے احمد نے حسب دستور اپنی پنج سالہ اسکیم کے ماتحت بھارت بھوشن کو کرشن بھگوان کا پارٹ ادا کرنے کے لیے زیر معاہدہ کر رکھا تھا۔

    بھارت بھوشن کو ہر روز باقاعدگی کے ساتھ مکھن اور دوسری طاقتور غذائیں کھلائی جاتی تھیں کہ وہ بہت دبلا تھا اور اس قابل نہیں تھا کہ مکھن چور بن سکے۔ بھارت بھوشن کو مکھن کھلانے کے ساتھ ساتھ احمد، شاہدہ کے اسرار میں اضافہ کرتا گیا جو اس کے پروگرام کے عین مطابق تھا۔

    اب میں احمد کی سہرے جلوے کی بیاہی بیوی کی طرف آتا ہوں جس کا نام صفیہ ہے۔ غلام حسین ہدایت اللہ (مرحوم) وزیراعظم سندھ کی دختر نیک اختر۔ظاہر ہے کہ جب خاوند کسی دوسری عورت کے ساتھ مصروف ہوگا تو اس کی اپنی عورت جو روشن خیال اور آزاد ہو، یقیناً کسی نہ کسی سے رابطہ پیدا کرلے گی۔ چنانچہ یہی ہوا۔ مشہور کمیونسٹ لیڈر سبط حسن سے اس کا معاشقہ ہوگیا۔

    مجھے اس رومان کے متعلق پوری معلومات حاصل نہیں تھیں اس لیے میں نے سبط حسن سے یہاں لاہور میں کئی ملاقاتیں کیں لیکن اس سے کھل کر بات نہ کرسکا۔ ہر روز یہی سوچتا کہ دوسرے روز جب وہ آئے گا یا جب میں اس سے ملوں گا تو احمد کی بیوی کے بارے میں دریافت کروں گا۔ یہ سلسلہ کیسے ہوا کیونکہ میں نے سنا تھا کہ صفیہ جو کافی پڑھی لکھی عورت ہے، امریکہ کسی عالمی کانفرنس میں شرکت کی غرض سے گئی اور سبط حسن بھی اس کے پیچھے گیا اور ان دونوں کی شادی ہوگئی۔

    میں یہ مضمون ضرور مکمل کرتا جو کسی لحاظ سے بھی تشنہ نہ رہتا لیکن اچانک حکومت کی مشینری حرکت میں آئی اور سبط حسن گرفتار کرلیے گیے، اس لیے کہ وہ کمیونسٹ ہیں۔گرفتاری سے پہلے ایک شام جب ان سے ملاقات ہوئی تووہ اپنے پائپ میں جہاں کا گرد بھرا تمباکو پی رہے تھے۔ میری خواہش تھی کہ ان سے کرید کرید کر احمد کی سابقہ بیوی صفیہ کے متعلق پوچھوں کہ اس سے ان کا معاشقہ کیسے ہوا، اب وہ کہاں ہے۔ احمد اور سبط حسن میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ احمد سیاسی آدمی ہے، سبط حسن اس کے برعکس جذباتی۔ اس کو پنج سالہ سکیمیں پسند نہیں، وہ چاہتا ہے کہ جو کام ہو ’’فٹافٹ‘‘ ہو۔

    یوں دیکھنے میں بڑے تیکھے ہیں وہ لیکن اندرونی طور پر بہت ملائم۔ گرفتاری سے چند روز پہلے، وہ میرے یہاں تشریف لائے۔ مصیبت یہ تھی کہ میرے اور کئی ملاقاتی موجود تھے۔ ان کی موجودگی میں سبط حسن سے کھل کرباتیں نہیں کرسکتا تھا۔ باتوں باتوں میں ان سے میں نے پوچھا، ’’کہئے آپ اب کب جیل جائیں گے؟‘‘

    سبط حسن نے ایک پائپ کا کش لگایا اور مسکرا کر کہا:

    ’’چند دنوں میں۔‘‘

    اور واقعی وہ پندرہ بیس روز کے بعد جیل میں داخل کردیے گیے اور میرا یہ مضمون نامکمل رہ گیا۔

    میں کہاں سے کہاں پہنچ گیا لیکن کیا کروں، یہ موضوع ہی ایسا ہے جو ہزار پہلو ہے۔ شاہدہ (نینا) کے شوہر محسن عبداللہ ایک بڑی خطرناک لڑکی سنہہ پربھاپردھان سے عشق فرما رہے تھے۔ ان کی بیوی پر احمد صاحب بڑے سلیقے سے اپنی ا سکیم کے ماتحت آہستہ آہستہ ڈورے ڈال رہے تھے۔

    ادھر ادھر اور بہت کچھ ہورہا تھا۔ کوئی مسز نورانی تھیں، ان کے ساتھ ایک پنجابی لونڈا عشق لڑا رہا تھا۔ یہ مسز نورانی، احمد کی رشتہ دار تھیں یا مسٹر نورانی کی۔۔۔ بہر حال یہ کہنا ہے کہ میں نے کئی مرتبہ اس کو ان کے گھر میں جو فورجٹ اسٹریٹ پر تھا، دیکھا۔

    وہ پنجابی لونڈا بھی عجیب و غریب تھا۔ معلوم نہیں اسے کوئی عارضہ تھا لیکن ظاہر وہ یہی کرتا کہ اس کو دل کے دورے پڑتے ہیں۔مسٹر نورانی خاموش کرسی پر سگار سلگائے بیٹھے رہتے اور ان کی بیگم پنجابی نوجوان کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتی رہتی۔ کبھی کبھی بوس و کنار بھی ہوجاتا مگر مسٹر نورانی کے سگار کی راکھ ویسی کی ویسی اس پر ثابت و سالم رہتی۔ عجیب سلسلہ تھا کہ محسن عبداللہ، سنہہ پربھا پردھان کے عشق کے چکرمیں تھے، ان کی بیوی پر احمد اپنا سکہ جما رہے تھے۔ ادھر احمد کی بیوی صفیہ، سبط حسن سے رومان لڑا رہی تھی اور ان کے جاننے پہچاننے والوں میں اسی قسم کا سلسلہ جاری تھا۔میں نے جب یہ سلسلہ دیکھا تو بخدا چکرا گیا کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ میاں بیٹھے ہیں اور ان کی بیوی کسی غیر مرد سے چوما چاٹی کررہی ہے۔ ایک شوہر اپنی سہرے جلوے کی بیاہی بیوی کو چھوڑ کر کسی ایکٹریس کے پیچھے مارا مارا پھر رہا ہے۔ میرا خیال ہے دنیا میں ایسے واقعات کی کمی نہیں۔ عورتیں اور مرد ہمیشہ ایسے ہی سلسلے کرتے آئے ہیں۔

    ایک بات یہ بھی ہے کہ اگر کوئی مرد اپنی بیوی سے بے اعتنائی برتے اور کسی اور عورت کے عشق میں گرفتار ہو جائے تو اس کا نتیجہ ظاہر ہے، ہزاروں میں صرف چند عورتیں ایسی نکلیں گی جو کسی اور مرد سے ناتا نہ جوڑیں۔ پونا میں احمد اور نینا (شاہدہ) اکٹھے رہتے تھے۔ ایک بنگلہ تھا بہت اچھا لیکن احمد اس میں کبھی کبھار آتا۔ بیگم صاحبہ کی مزاج پرسی کرتا اور چلا جاتا۔ آہستہ آہستہ اس نے وہاں مستقل طور پرقیام کرلیا۔ اب وہ دونوں ایک ساتھ صبح کو ناشتہ کرتے، دوپہر کو لنچ کھاتے اور رات کو ڈنر پر بھی ایک ساتھ ہوتے۔اسٹوڈیو میں تو خیر ان کا ایک ایک لمحہ ایک دوسرے کے ساتھ گزرتا۔ عجیب بات ہے کہ اس دوران میں احمد نے کوئی ایسی حرکت نہ کی جس سے یہ ظاہر ہوکہ وہ شاہدہ کو اپنے قبضے میں لانا چاہتا ہے۔

    شاہدہ کے خاوند محسن عبداللہ کو تو احمد اپنی حکمت عملی کے ذریعے سے اپنے اسٹوڈیو سے یوں نکال چکا تھا جیسے مکھن سے بال۔ وہ بمبئی میں سڑکوں پر پیدل چلتا تھا۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ وہ اپنی بیوی کی وجہ سے پونہ سے بمبئی کار میں آیا تھا۔ پراب اسے لفٹ دینے والا کوئی نہیں تھا۔ میں ایک روز ٹیکسی پر لیمنگٹن روڈ سے گزر رہا تھا کہ محسن مجھے نظر آیا۔ میں نے ٹیکسی رکوائی اور اس کی خیرخیریت پوچھی۔

    ’’سنائیے محسن صاحب! آپ کہاں ہوتے ہیں آج کل؟‘‘

    اس کے چوڑے چکلے چہرے پر مسکراہٹ۔۔۔ عجیب قسم کی مسکراہٹ پیدا ہو ئی، ’’آج کل میرا کام سڑکیں ناپنا ہے۔‘‘

    میں نے از راہ مذاق اس سے پوچھا، ’’لیمنگٹن روڈ کی لمبائی اور چوڑائی کتنی ہے۔‘‘

    اس نے بھی میرے ہی انداز میں جواب دیا، ’’آپ جتنی لمبی۔۔۔ مجھ جیسی چوڑی۔‘‘

    میں نے اس سے کہا کہ، ’’ آؤ، ٹیکسی میں بیٹھ جاؤ جہاں تمہیں جانا ہے وہیں چھوڑ دوں گا۔‘‘ مگر اس نے میری دعوت قبول نہ کی۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ وہ بہت مضطرب تھا اور اس اضطراب کی وجوہ کئی تھیں۔ ایک تو یہ کہ وہ اپنی بیوی کو قریب قریب کھو چکا تھا، سنہہ پربھا پردھان اس سے سخت بے اعتنائی برت رہی تھی، اس کے علاوہ وہ جوئے میں اپنی ساری جمع پونجی ہار چکا تھا اور کوئی ملازمت بھی نہیں تھی جس کا آسرا ہو۔

    میں نے اس سے پوچھا، ’’سناؤ یار، مس پردھان کا کیا حال ہے؟‘‘

    اس نے زہر خند کے ساتھ جواب دیا، ’’ٹھیک ٹھاک ہے، اب اس سے خواجہ احمد عباس عشق لڑا رہا ہے۔‘‘

    محسن نے مسکرا کر کہا، ’’دو تین مہینوں کے اندر اندر گنجا ہو جائے گا۔‘‘

    میں نے پوچھا، ’’کیوں؟‘‘

    اس نے جواب دیا، ’’اس عورت کو آپ نہیں جانتے، وہ عورت نہیں سیفٹی ریزر ہے اوروہ بھی ایسا کہ اس کے مونڈے ہوئے بال پھر کبھی نہیں اگتے۔‘‘ میرے جسم پر بے شمار بال ہیں۔ میں نے سوچا کہ اگر یہ سیفٹی ریزر میرے ہاتھ آجائے تو میں کتنی جلدی اس لعنت سے نجات پاجاؤں گا مگر خدا کا شکر ہے کہ میں نے کوشش نہ کی۔ ورنہ میرا حشر وہی ہوتا جو محسن عبداللہ اور خواجہ احمد عباس کا ہوا۔ خواجہ گنجا ہوگیا اور محسن کے بال بھی جھڑنے لگے۔

    مدت کے بعد جب میں فلمستان میں بحیثیت افسانہ نگار اور منظر نویس ملازم ہوا تو محسن عبداللہ سے میری ملاقات ہوئی۔ اس کی حالت بہت دردناک تھی۔ مجھے معلوم تھا کہ مسٹر ایس مکر جی کا دوست ہے اس لیے کہ وہ دنوں بمبے ٹاکیز میں ایک ساتھ کام کرچکے تھے اور وہاں کا ماحول بہت دوستانہ تھا۔

    احمد بمبے ٹاکیز سے کبھی وابستہ نہیں رہا۔ وہ صرف سادھنابوس کے ساتھ ایک دو برس رہا۔ معلوم نہیں، اس کے ساتھ اس کے کیا تعلقات تھے۔ بہر حال وہاں سے نکل کر اس نے اپنی ذاتی فلم کمپنی قائم کی اور اس کا کرتا دھرتا بن گیا۔ میں اس سے پیشتر اس مضمون کی پہلی قسط میں کہہ چکا ہوں کہ احمد بہت سیانا اور ذہین آدمی ہے۔ اس نے بڑے بڑے مارواڑیوں کو غچہ دیا، کچھ ایسے طور پر کہ ان کو خبر تک نہ ہوئی۔

    مأخذ:

    لاؤڈ اسپیکر (Pg. 110)

    • مصنف: سعادت حسن منٹو
      • ناشر: ساقی بک ڈپو، دہلی
      • سن اشاعت: 1987

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے