Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کشت زعفران

سعادت حسن منٹو

کشت زعفران

سعادت حسن منٹو

MORE BYسعادت حسن منٹو

    ’’لائٹس اون۔۔۔ فین اوف۔۔۔ کیمرہ ریڈی۔۔۔ شارٹ مسٹر جگتاپ!‘‘

    ’’سٹارٹڈ‘‘

    ’’سین تھر ٹی فور۔۔۔ ٹیک ٹن۔‘‘

    ’’نیلا دیوی آپ کچھ فکر نہ کیجئے۔ میں نے بھی پشاور کا پیشاب پیاہے۔‘‘

    ’’کٹ کٹ‘‘

    لائٹس اون ہوئیں۔ وی ایچ ڈیسائی نے رائفل ایک طرف رکھتے ہوئے بڑے اطمینان سے اشوک سے پوچھا، ’’اوکے مسٹر گنگولی؟‘‘

    اشوک نے جو جل بھن کر راکھ ہونے کے قریب تھا، قہر آلود نگاہوں سے خلا میں دیکھا اور زہر کے چند بڑے بڑے گھونٹ جلدی جلدی پی کر چہرے پر مصنوعی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ڈیسائی سے کہا، ’’ونڈر فُل۔۔۔‘‘ پھر اس نے معنی خیز نظروں سے میری طرف دیکھا، ’’کیوں منٹو؟‘‘

    میں نے ڈیسائی کو گلے لگالیا، ’’ونڈرفل‘‘

    ہمارے چاروں طرف لوگ اپنی ہنسی کا بہت بری طرح گلا گھونٹ رہے تھے۔ ڈیسائی بہت خوش تھا۔ چوں کہ اس نے بہت دیر کے بعد میرے منہ سے اپنی اس قدر پرجوش تعریف سنی تھی۔ در اصل اشوک نے کچھ عرصہ پہلے مجھے منع کردیا تھا کہ میں اپنی جھنجھلاہٹ کا اظہار ہرگز ہرگز نہ کروں۔ کیوں کہ اسے اندیشہ تھا کہ ڈیسائی بوکھلا جائے گا اور سارا دن غارت کردے گا۔جب چند لمحات گزر گیےتو ڈیسائی نے مکالمہ آموز ڈکشٹ سے کہا، ’’ڈکشٹ صاحب نکسٹ ڈائلاگ؟‘‘

    یہ سن کر اشوک جو کہ ’’آٹھ دن‘‘ نامی فلم ڈائرکٹ کررہا تھا، مجھ سے مخاطب ہوا، ’’منٹو،میرا خیال ہے پہلا ڈائیلاگ ایک دفعہ اور لے لیں۔‘‘ میں نے ڈیسائی کی طرف دیکھا، ’’کیوں ڈیسائی صاحب۔۔۔؟ میرا خیال ہے اس دفعہ اور بھی ونڈر فل ہو جائے گا۔‘‘ ڈیسائی نے گجراتی انداز میں اپنا سر ہلایا، ’’ ہو۔۔۔ تولے لو ابھی۔ گرما گرم معاملہ ہے۔‘‘

    دتا رام چلایا، ’’لائٹس اون۔‘‘ لائٹس روشن ہوئیں۔ ڈیسائی نے رائفل سنبھالی۔ڈکشٹ جھٹ سے ڈیسائی کی طرف لپکا اور مکالموں کی کتاب کھول کر کہنے لگا، ’’مسٹرڈیسائی۔ ذرا وہ ڈائیلاگ یاد کرلیجئے۔‘‘ ڈیسائی نے پوچھا، ’’کون سا ڈائلاگ؟‘‘ ڈکشٹ نے کہا، ’’وہی جو آپ نے اتنا ونڈر فل بولا تھا۔ ذرا اسے دہرا دیجئے۔‘‘ ڈیسائی نے رائفل کندھے پر جماتے ہوئے بڑے سنگین اعتماد سے کہا، ’’مجھے یاد ہے۔‘‘

    ڈکشٹ نے مجھے اشارہ کیا، ’’منٹو صاحب ذرا آپ سن لیجئے۔‘‘ میں نے ڈیسائی کے کاندھے پرہاتھ رکھا اور بڑے غیر سنجیدہ لہجے میں کہا، ’’ہاں، تو وہ کیا ہے ڈیسائی صاحب۔۔۔ نیلا دیوی، آپ کوئی فکر نہ کیجئے۔ میں نے بھی پشاور کا پانی پیا ہے۔‘‘ ‘ڈیسائی نے اپنے سر پر پشاوری لنگی کا زاویہ درست کیا، اور ویرا (فلم میں نیلا دیوی) سے مخاطب ہوکر کہا، ’’نیلا دیوی، آپ کوئی پشاور نہ کیجئے میں نے بھی آپ کا پانی پیا ہے۔‘‘ ویرا اس قدر بے تحاشا ہنسی کہ ڈیسائی ڈر گیا، ’’کیا ہوا مس ویرا؟‘‘

    ویرا ساڑی کے آنچل میں ہنسی دباتی سیٹ سے باہر چلی گئی۔ ڈیسائی نے تشویش ظاہر کرتے ہوئے ڈکشٹ سے پوچھا، ’’کیا بات تھی؟‘‘ ڈکشٹ نے اپنا ہنسی سے ابلتا ہوا منہ دوسری طرف کرلیا۔ میں نے ڈیسائی کی پریشانی دورکرنے کے لئے کہا، ’’نتھنگ سیریس۔۔۔ کھانسی آگئی۔‘‘ ڈیسائی ہنسا، ’’اوہ‘‘ پھر وہ مستعد ہو کر اپنے مکالمے کی طرف متوجہ ہوا، ’’نیلا دیوی آپ کوئی کھانسی نہ کیجئے۔میں نے بھی دیوی کا۔۔۔‘‘

    اشوک اپنے سر کو مکے مارنے لگا۔ ڈیسائی نے دیکھا تو متفکر ہو کر اس سے پوچھا، ’’کیا بات ہے مسٹر گنگولی۔‘‘ گنگولی نے ایک زور کا مکا اپنے سر پر مارا۔’’کچھ نہیں۔ سر میں درد تھا۔۔۔ تو ہو جائے ٹیک۔‘‘ ڈیسائی نے اپنا کدو سا سر ہلایا، ’’ہو!‘‘

    گنگولی نے مردہ آواز میں کہا، ’’کیمرہ ریڈی۔۔۔ ریڈی مسٹر جگتاپ؟‘‘

    بھونپوسے جگتاپ کی منمناہٹ سنائی دی، ’’ریڈی!‘‘

    گنگولی نے اور زیادہ مردہ آواز میں کہا، ’’اسٹارٹ۔‘‘

    کیمرہ اسٹارٹ ہوا۔ کلیپ اسٹک ہوئی۔

    ’’سین تھرٹی فور۔۔۔ ٹیک الیون!‘‘

    ڈیسائی نے رائفل لہرائی اور ویرا سے کہنا شروع کیا، ’’نیلا پانی۔ آپ کوئی دیوی نہ کیجئے میں نے بھی پشاور کا۔۔۔‘‘

    اشوک دیوانہ وار چلایا، ’’کٹ کٹ۔‘‘ ڈیسائی نے رائفل فرش پررکھی اور گھبرا کر اشوک سے پوچھا، ’’اینی مسٹیک مسٹر گنگولی؟‘‘ اشوک نے ڈیسائی کی طرف قاتلانہ نگاہوں سے دیکھا۔ مگر فوراً ان میں بھیڑوں کی سی نرمی اور معصومیت پیدا کرتے ہوئے کہا، ’’کوئی نہیں۔۔۔ بہت اچھا تھا۔۔۔ بہت ہی اچھا۔‘‘ پھروہ مجھ سے مخاطب ہوا، ’’آؤ منٹو، ذرا باہر چلیں!‘‘ سیٹ سے باہر نکل کر اشوک قریب قریب رو دیا، ’’منٹو، بتاؤ، اب کیا کیا جائے، صبح سے یہ وقت ہو گیا ہے۔ پشاور کا پانی اس کے منہ پر چڑھتا ہی نہیں۔۔۔ میرا خیال سے لنچ کے لئے بریک کردیں۔‘‘

    بڑا معقول خیال تھا کیوں کہ ڈیسائی سے یہ فوری توقع بالکل فضول تھی کہ وہ صحیح مکالمہ بول سکے گا۔ ایک دفعہ اگر اس کی زبان پر کوئی چیز جم جائے تو بڑی مشکل سے ہٹتی تھی۔ اصل میں اس کا حافظہ بالکل صفر تھا۔اسے چھوٹے سے چھوٹا مکالمہ بھی یاد نہیں رہتا تھا۔ اگر سیٹ پر وہ پہلی بار کوئی مکالمہ صحت کے ساتھ ادا کرجاتا تو اسے محض اتفاق سمجھا جاتا تھا۔ مگر لطف یہ ہے کہ غلط ادائیگی کے باوجود ڈیسائی کو قطعاً اس بات کا احساس نہیں ہوتا تھا کہ اس نے مکالمے کو کس حد تک۔۔۔ کس رلا دینے والی حد تک مسخ کیا ہے۔مکالمے کی ٹانگ توڑ کر اس کومکمل طور پر اپاہج کرکے وہ عام طور پر حاضرین کی طرف داد طلب نگاہوں سے دیکھا کرتا تھا۔ اس کی ایک دو لڑکھڑاہٹیں یقیناً تفریح کا موجب ہوتی تھیں مگر جب وہ حد سے تجاوز کرجاتا تو سب کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی کہ اس کے سر کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے جائیں۔

    میں فلمستان میں تین برس رہا۔ اس دوران میں ڈیسائی نے چار فلموں میں حصہ لیا، مجھے یاد نہیں کہ اس نے ایک مرتبہ بھی پہلے ہی مرحلے میں اپنا مکالمہ صحت سے ادا کیا ہو، اگر حساب لگایا جائے تو آنجہانی نے اپنی فلمی زندگی میں لاکھوں فٹ فلم ضائع کیا ہوگا۔اشوک نے مجھے بتایا کہ ڈیسائی کی’ری ٹیکس‘ کا ریکارڈ پچھتر ہے۔ یعنی بمبے ٹاکیز میں اس نے ایک بار ایک مکالمےکو چوہتر مرتبہ غلط ادا کیا۔ یہ صرف جرمن ڈائرکٹر فرانزاوسٹن ہی کا حوصلہ تھا کہ وہ بہت دیر تک ضبط کیے رہا۔ آخر اس کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ سرپیٹ کر اس نے ڈیسائی سے کہا، ’’مسٹر ڈیسائی مصیبت یہ ہے کہ لوگ تمہیں پسند کرتے ہیں۔ تمہیں پردے پر دیکھتے ہی ہنسنا شروع کردیتے ہیں۔ ورنہ آج میں نے تمہیں ضرور اٹھا کر باہر پھینک دیا ہوتا۔‘‘

    اور فرانزاوسٹن کی اس صاف گوئی کا نتیجہ یہ ہوا کہ چوہتر ری ٹیک ہوئے اور اسٹوڈیو کے ہر کارکن کو باری باری ڈیسائی کو دم دلاسا دینے کا فرض ادا کرنا پڑا، لیکن کوئی حیلہ کارگر نہیں ہوتا تھا۔ وہ ایک بار اکھڑ جائے تو کوئی دوا یا دعا بااثر ثابت نہیں ہوتی۔ ایسے وقتوں میں چنانچہ یہی مناسب خیال کیا جاتا تھا کہ نتیجہ خدا کے ہاتھ سونپ کر دھڑا دھڑ فلم ضائع کیا جائے۔ جب اس کی اور ڈیسائی کی مرضی بیک وقت شامل ہو جائے تو سجدہ شکرانہ ادا کرے۔

    اشوک نے لنچ کے لئے بریک کردیا۔جیسا کہ عام دستور تھا، کسی نے ڈیسائی سے مکالمے کے بارے میں گفتگو نہ کی۔ تاکہ جوکچھ ہو چکا ہے، اس کی یاد تازہ نہ ہو۔ اشوک ادھر ادھر کی گپیں سناتا رہا۔ ڈیسائی نے حسبِ معمول اپنی طرف سے مزاح انگیز باتیں کیں۔ جن میں ذرہ برابر مزاح نہیں تھا، لیکن سب ہنستے رہے۔ لنچ ختم ہوا، شوٹنگ پھر شروع ہوئی۔ اشوک نے اس سے پوچھا، ’’کیوں ڈیسائی صاحب،آپ کو ڈ ائیلاگ یاد ہے؟‘‘

    ڈیسائی نے بڑے وثوق کے ساتھ کہا، ’’جی ہو!‘‘

    لائٹس اون ہوئیں۔ سین تھرٹی فور، ٹیک ٹولو شروع ہوا۔ ڈیسائی نے رائفل لہرا کر ویرا سے کہا، ’’نیلا دیوی۔۔۔ آپ۔۔۔ آپ۔‘‘ اور ایک دم رک گیا، ’’آئی ایم سوری۔‘‘

    اشوک کا دل بیٹھ گیالیکن اس نے ڈیسائی کا دل رکھنے کے لئے کہا، ’’کوئی بات نہیں۔۔۔ جلدی کیجئے۔‘‘

    ’’سین تھرٹی فور، ٹیک تھرٹین‘‘ شروع ہوا مگر ڈیسائی نے پشاور سے پیشاب کو الگ نہ کیا۔ جب چند اور کوششیں بھی بار آور نہ ہوئیں، تو میں نے الگ لے جا کراشوک کو مشورہ دیا، ’’دادا منی،دیکھو یوں کرو۔۔۔ جب ڈیسائی یہ مکالمہ ادا کرتا ہے تووہ کیمرے کی طرف پیٹھ کرتے ہوئے اس کا بقایا حصہ ادا کرے۔ یعنی پشاور کا پیشاب پیا ہے، کیمرے کے سامنے منہ کرکے نہ بولے۔‘‘

    اشوک سمجھ گیا کیوں کہ اس مشکل سے نکلنے کی ایک صرف یہی ترکیب تھی۔ کیوں کہ ہم بڑی آسانی سے یہ مکالمہ بعد میں’’ڈب‘‘ کرسکتے تھے۔ اگر وہ سارا مکالمہ کیمرے کے سامنے منہ کرکے ادا کرتا تو اس کے ہونٹوں کی جنبش صحیح مکالمے کے ساتھ چسپاں نہ ہوسکتی۔ جب ڈیسائی کو یہ ترکیب سمجھائی گئی تو اسے بہت ٹھیس پہنچی۔ اس نے ہم سب کو یقین دلانے کی ہر ممکن کوشش کی، وہ اب غلطی نہیں کرے گا۔ مگرپانی سر سے گزر چکا تھا۔۔۔ اور وہ بھی پشاور کا، اس لئے اس کی منت سماجت بالکل نہ سنی گئی، بلکہ اس سے کہہ دیا گیا کہ وہ جو اس کے دل میں آئے بول دے۔

    ڈیسائی بہت بددل ہوا، لیکن اس نے مجھ سے کہا، ’’کوئی بات نہیں منٹو۔ میں منہ دوسری طرف موڑلوں گا۔ لیکن آپ دیکھیےگا کہ میں ڈائیلاگ بالکل کورکٹ بولوں گا۔‘‘

    ’’سین تھرٹی فور۔۔۔ ٹیک فورٹین‘‘ کی آواز آئی۔ ڈیسائی نے بڑے عزم کے ساتھ رائفل ہوا میں لہرائی اورویرا سے مخاطب ہو کر کہا، ’’نیلا دیوی آپ کوئی فکر نہ کیجئے۔‘‘ یہ کہہ وہ مڑا، ’’میں نے بھی پشاور کا پیشاب پیا ہے۔‘‘

    سین کٹ ہوا۔ ڈیسائی نے فتح مندانہ انداز میں رائفل کندھے پر رکھی اور اشوک سے پوچھا، ’’کیوں مسٹر گنگولی؟‘‘ اشوک اب بالکل سنگ دل بن چکا تھا۔ اس نے بڑے روکھے انداز میں کہا، ’’ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔۔۔‘‘ پھر وہ کیمرہ مین ہردیپ سے مخاطب ہوا، ’’چلو نیکسٹ شوٹ!‘‘

    شوٹنگ ختم ہوئی۔ مجھے اپنے ایک دوست کے ساتھ چرچ گیٹ جانا تھا اس لئے ہم جلدی جلدی اسٹیشن پہنچے۔ گاڑی کھڑی تھی۔ ہم ایک ڈبے میں بیٹھ گیے، کیا دیکھتے ہیں کہ ڈیسائی صاحب بھی براجمان ہیں اورمسافروں کو اپنے کارنامے سنا رہے ہیں۔۔۔ ۔ میرا دوست جو اس دن کی شوٹنگ دیکھ چکا تھا، ڈیسائی کے پاس بیٹھ گیا۔دورانِ گفتگو میں اس نے ایک بڑا بے ڈھب سا سوال کیا۔

    ’’سیٹ پر جو لوگ ڈائیلاگ بھول جاتے ہیں، اس کا کیا علاج کیا جاتا ہے۔‘‘

    ڈیسائی نے جواب دیا، ’’معلوم نہیں۔ میں تو ایک دفعہ بھی نہیں بھولا۔‘‘

    اس کا یہ جواب بے حد معصوم تھا، جیسے وہ ڈائیلاگ بھول جانے کے مرض سے قطعاً ناآشنا ہے۔۔۔ میرا خیال ہے کہ خود اس کو اس کا کامل یقین تھا کہ اس سے کوئی غلطی سرزد نہیں ہوتی۔ اور یہ درست تھا، اس لیے کہ غلطی کا احساس تو صرف اسی صورت پیدا ہو سکتا ہے، اگر صحت کے متعلق ہلکا سا تصور انسان کے دماغ میں موجود ہو۔ڈیسائی مرحوم کے دماغ میں کوئی ایسا خانہ ہی نہیں تھا جوغلط اور صحیح میں تمیز کرسکے، وہ اس سے بالکل بے نیاز تھا، معصومیت کی حد تک۔

    وہ لوگ جویہ سمجھتے ہیں کہ وہ بہت بڑا مزاح کار تھا یکسر غلط ہے۔ وہ جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بہت بڑا کردار کار تھا، قطعاً نادرست ہے۔ ایسا گناہ آنجہانی سے کبھی سرزد نہیں ہوا، لوگ اگر اس کی حرکات پر ہنس ہنس کے دوہرے ہوتے تھےتو اس کا باعث قدرت کی چھیڑ خانی تھی۔خداوند تعالیٰ نے اس کی تخلیق ہی ایسے آب و گل سے کی تھی، جس میں زعفران گندھی ہو۔

    ایک دفعہ ریس کورس پر میں نے دور سے اس کی طرف اشارہ کیا اور اپنی بیوی سے کہا، ’’وہ ڈیسائی ہے۔۔۔ ۔ وہ!‘‘

    میری بیوی نے اس جانب دیکھا اور بے اختیار ہنسنا شروع کردیا۔ میں نے اس سے پوچھا، ’’اتنی دور سے دیکھنے پر اس قدر بے تحاشا ہنسنے کی وجہ کیا ہے؟‘‘ وہ میرے سوال کا اطمینان بخش جواب نہ دے سکی۔ صرف یہ کہہ کروہ اور زیادہ ہنسنے لگی، ’’معلوم نہیں!‘‘

    آنجہانی کو ریس کا بہت شوق تھا، اپنی بیوی اور لڑکی کو ساتھ لاتا تھا۔ مگر دس روپے سے زیادہ کبھی نہیں کھیلتا تھا۔ اس کے بیان کے مطابق کئی جو کی اس کے بہت ہی قریبی تھے جو اس کو سولہ آنے کھری ٹپ دیتے تھے۔ یہ ٹپ وہ اکثر دوسروں کو دیتا تھا۔ اس درخواست کے ساتھ کہ وہ اسے اپنے تک رکھیں اور کسی اور کو نہ بتائیں۔ خود وہ کسی اور کی دی ہوئی ٹپ پر کھیلتا تھا۔ ریس کورس پر جب میں نے اس کو اپنی بیوی سے متعارف کرایا تو اس نے ایک ’’شیور‘‘ یعنی یقینی ٹپ دی۔ جب وہ نہ آئی تو اس نے میری بیوی سے پر تعجب لہجے میں کہا، ’’حد ہوگئی ہے۔۔۔ یہ ٹپ تو آنا ہی مانگتی تھی۔‘‘ اس نے خود ایک دوسرے نمبر کا گھوڑا کھیلا تھا جو پلیس آگیا تھا۔ اس پر اس نے کسی قسم کے تعجب کا اظہار نہیں کیا تھا۔

    ڈیسائی آنجہانی کی اوائلی زندگی کے متعلق لوگوں کی معلومات بہت محدود ہیں۔ خود میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ وہ گجرات کے ایک متوسط گھرانے کا فرد تھا۔ بی ۔ اے کرنے کے بعد اس نے ایل، ایل، بی کیا۔ چھ سات برس تک بمبے کی چھوٹی عدالتوں کی خاک چھانتا رہا۔ اس کی پریکٹس معمولی تھی لیکن اس کا گھر بار چلانے کے لئے کافی تھی۔ لیکن جب وہ دماغی عارضے میں مبتلا ہوا تو اس کی مالی حالت بہت پتلی ہوگئی۔ ایک عرصے تک نیم پاگل رہا۔ علاج معالجے سے یہ عارضہ دور تو ہوگیامگر ڈاکٹروں نے دماغی کام کرنے سے منع کردیا۔ کیونکہ خطرہ تھا کہ مرض پھر عود کر نہ آئے۔۔۔ اب ڈیسائی غریب کے لئے بڑی مشکل تھی کہ وہ کرے تو کیا کرے۔ وکالت ظاہر ہے کہ یکسر دماغی کام تھا۔ اس لئے ادھر رجوع کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ کچھ عرصے تک وہ ادھر ادھر ہاتھ پاؤں مارتا رہا۔ تجارت سے اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ حالانکہ اس کی رگوں میں ٹھیٹھ گجراتی خون تھا۔

    جب حالات بہت نازک ہوگئے تو وہ ساگر مودی ٹون کے چمن لال ڈیسائی سے ملا اور خواہش ظاہر کہ اسے اسٹوڈیو میں کام مل جائے۔ اصل میں اس کا مقصد یہ تھا کہ اسے ایکٹنگ کا موقع دیا جائے۔ چمن لال گجراتی اور ڈیسائی تھا۔ اس نے وی،ایچ کوملازم رکھ لیا۔ اس کے کہنے پر چند ڈائرکٹروں نے آزمائش کے طور پرمختلف فلموں میں تھوڑا تھوڑا کام دیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ اس کو پھر آزمانا بہت بڑی خطا ہے۔ چنانچہ وہ کچھ عرصے کے لئے بیکار ساگر مودی ٹون میں پڑا روٹیاں توڑتا رہا۔

    اس دوران میں مسٹر ہمانسورائے بمبے ٹاکیز قائم کرچکے تھے۔ جس کے متعدد فلم کامیاب بھی ہو چکے تھے۔ اس ادارے کے متعلق مشہور تھا کہ تعلیم یافتہ لوگوں کی قدر کرتا ہے۔ یہ درست بھی تھا۔چنانچہ ڈیسائی قسمت آزمائی کے لئے وہاں پہنچا۔ دو تین چکر لگانے اور مختلف سفارشی خطوط حاصل کرنے کے بعد مسٹر ہمانسورائے سے ملا۔۔۔ ہمانسورائے نے اس کی شکل و صورت اور اس کی تمام کمزوریوں کو پیش نظررکھتے ہوئے ایک خاص کردار وضع کیا اور ہندوستانی اسکرین کو ایک ایسا ایکٹر بخشا جو ایکٹنگ سے بالکل نا آشنا تھا۔

    پہلے ہی فلم میں وی،ایچ ڈیسائی فلم بینوں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ بمبے ٹاکیز کے عملے کو شوٹنگ کے دوران میں جو مشکلات پیش آئیں،وہ بیان سے باہر ہیں۔ سب کی قوتِ برداشت جواب دے دے جاتی تھی مگر وہ اپنے تجربے میں ڈٹے رہے آخر کامیاب رہے۔ اس فلم کے بعد ڈیسائی بمبے ٹاکیز کے فلموں کا جزولانیفک بن گیا، اس کے بغیر بمبے ٹاکیز کا فلم غیر مکمل اور روکھا پھیکا سمجھا جاتا تھا۔

    ڈیسائی اپنی کامیابی پر خوش تھا مگر اس کو حیرت ہرگز نہیں تھی۔ وہ سمجھتا تھا کہ اس کی کامیابی اس کی ذہانت و ذکاوت اور انتھک کوششوں کا نتیجہ ہے۔ مگر خدا بہتر جانتا ہے کہ ان تمام چیزوں کا اس کی شہرت اور کامیابی میں ذراہ برابر دخل نہیں تھا۔ یہ صرف قدرت کی ستم ظریفی تھی کہ وہ فلموں کا سب سے بڑا ظریف بن گیا تھا۔

    میری موجودگی میں اس نے فلمستان کے تین فلموں میں حصہ لیا۔ ان تین فلموں کا نام علی الترتیب یہ ہے۔چل چل رے نوجوان، شکاری اورآٹھ دن۔ ہر فلم کی تیاری کے دوران میں ہم اس کی طرف سے متعدد بار مایوس ہوگیے۔ مگر اشوک اور مکرجی چونکہ مجھے بتا چکے تھے کہ اس سے کام لینے کے لئے پِتا قطعی طور پر مار دینا پڑتا ہے۔ اس لئے مجھے اپنی جلد گھبرا جانے والی طبیعت کو قابو میں رکھنا پڑا۔ ورنہ بہت ممکن تھا کہ میں’چل چل رے نوجوان‘ کی شوٹنگ ہی کے دوران میں دوسرے جہان کو چل پڑتا۔ ویسے کبھی کبھی غصے کے عالم میں یہ خواہش بڑی شدت سے پیدا ہوتی تھی کہ کیمرہ اٹھا کر اس کے سر پر دے مارا جائے۔ مائکرو فون کا پورا بوم اس کے حلق میں کھونس دیا جائے، اورسارے بلب اتار کر اس کی لاش پر ڈھیر کردیےجائیں مگر جب اس قصد سے اس کی طرف دیکھتے تو یہ سفاکانہ عزم ہنسی میں تبدیل ہو جاتا۔

    مجھے معلوم نہیں عزرائل علیہ السلام نے اس کی جان کیونکر لی ہوگی۔ کیونکہ اس کو دیکھتے ہی ہنسی کے مارے ان کے پیٹ میں بل پڑ گئے ہوں گے۔ مگر سنا ہے کہ فرشتوں کے پیٹ نہیں ہوتا۔ کچھ بھی ہو ڈیسائی کی جان لیتے ہوئے وہ یقیناًایک بہت ہی دلچسپ تجربے سے دوچار ہوئے ہوں گے۔

    جان لینے کا ذکر آیا تومجھے’’شکاری‘‘ کا آخری سین یاد آگیا۔ اس میں ہمیں ڈیسائی کی جان لینا تھی۔۔۔ انہیں بے رحم جاپانیوں کے ہاتھوں زخمی ہو کر مرنا تھا۔ اور مرتے وقت اپنے ہونہار اور بہادر شاگرد بادل (اشوک) اور اس کی محبوبہ ویرا سے مخاطب ہوکر یہ کہنا تھا کہ وہ اس موت پر مغموم نہ ہوں اور اپنا نیک کام کیے جائیں۔ مکالموں کی صحتِ ادائیگی کا سوال حسب معمول مشکل تھا، مگر اب یہ مصیبت درپیش تھی کہ ڈیسائی کو کس انداز سے مارا جائے کہ لوگ نہ ہنسیں۔ میں نے تو اپنا فیصلہ دے دیا تھا کہ اس کواگر سچ مچ بھی مار دیا جائے تو لوگ ہنسیں گے، وہ کبھی یقین ہی نہیں کریں گے کہ ڈیسائی مررہا ہے یا مر چکا ہے۔ ان کے ذہن میں ڈیسائی کی موت کا تصور آہی نہیں سکتا۔

    میرے اختیار میں ہوتا تو میں نے یقیناً یہ آخر کا سین حذف کردیا ہوتا۔ مگر مشکل یہ تھی کہ کہانی کابہاؤہی کچھ ایسا تھا کہ انجام میں اس کیریکٹر کی موت ضروری تھی جوکہ اسے سونپا گیا تھا۔ کئی دن ہم سوچتے رہے کہ اس مشکل کا کوئی حل مل جائے مگر ناکام رہے۔ اب اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ اسے مرتا دکھایا جائے۔

    مکالموں کی صحت اب ثانوی اہمیت رکھتی تھی۔ جب ریہرسلیں کی گئیں تو ہم سب نے نوٹ کیا کہ وہ نہایت ہی مضحکہ خیز طریقے پر مرتا ہے۔ اشوک اور ویرا سے مخاطب ہوتے ہوئے وہ کچھ اس انداز سے اپنے دونوں ہاتھ ہلاتا ہے، جیسے کوک بھرا کھلونا، اس کی یہ حرکت بہت ہی خندہ خیزتھی ۔ ہم نے بہت کوشش کی کہ وہ ساکت پڑا رہے اور اپنے بازوؤں کو جنبش نہ دے۔ مگر دماغ کی طرح اس کا جسم بھی اس کے اختیار سے باہر تھا۔

    بڑی دیر کے بعد آخر اشوک کو ایک ترکیب سوجھی، اور وہ یہ تھی کہ جب سین شروع ہو، توویرا اور وہ دونوں اس کے ہاتھ پکڑ لیں۔ یہ ترکیب کارگر ثابت ہوئی۔ سب نے اطمینان کا سانس لیا۔ لیکن جب پردے پر یہ فلم پیش ہوا اور ڈیسائی کی موت کا یہ منظر آیا تو سارا ہال قہقہوں سے گونج اٹھا۔۔۔ ہم نے فوراً دوسرے شو کے لئے اس کو قینچی سے مختصر کردیا۔ مگر تماشائیوں کے رد عمل میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہوئی۔ آخر تھک ہار کر اس کو ویسے کا ویسا رہنے دیا۔

    ڈیسائی آنجہانی بے حد کنجوس تھا۔کسی دوست پر ایک دمڑی بھی خرچ نہیں کرتا تھا۔ بڑے عرصے کے بعد اس نے قسطوں پر اشوک سے اس کی پرانی موٹر خریدی۔ وہ خود چونکہ ڈرائیو کرنا نہیں جانتا تھا، اس لئے ایک ملازم رکھنا پڑا، مگر یہ ملازم ہر دسویں پندرھویں روز بدل جاتا تھا، میں نے ایک روز اس کی وجہ دریافت کی تو ڈیسائی گول کرگیا۔ لیکن مجھے ساؤنڈ ریکارڈسٹ جگتاپ نے بتایا کہ ڈیسائی صاحب ایک ڈرائیور رکھتے ہیں۔ نمونے کے طور پر اس کا کام دس بارہ روز دیکھتے ہیں اور پھر اسے’’کنڈم‘‘ کرکے دوسرا رکھ لیتے ہیں۔ یہ سلسلہ کافی دیر تک جاری رہا، مگر اسی دوران میں اس نے خود موٹر چلانا سیکھ لیا۔

    آنجہانی کو دمے کی شکایت بہت عرصے سے تھی۔ یہ مرض لاعلاج قرار دے دیا گیا تھا۔ کسی کے کہنے پر اس نے ہر روز دوا کے طور پر تھوڑی سی خشک بھنگ کھانا شروع کی تھی۔ اب وہ اس کا عادی بن گیا تھا۔ شام کو سردیوں کے موسم میں برانڈی کا آدھا پیگ بھی پیتا تھا اور خوب چہکا کرتا تھا۔

    ’’آٹھ دن‘‘ میں ایک سین ایسا تھا کہ اسے پانی کے ٹب میں بیٹھنا تھا۔ موسم خوشگوار تھامگر اس کی حد سے نازک طبیعت کے لئے ناقابل برداشت حد تک سرد تھا۔ ہم نے اس کے پیش نظر پانی گرم کرادیا اور ساتھ ہی پروڈکشن منیجر سے کہہ دیا کہ برانڈی تیار رکھے، جن اصحاب نے یہ فلم دیکھا ہے، ان کو یہ منظر ضرور یاد ہوگا۔ جس میں ٹیکم لالہ (ڈیسائی) سر نریندر کے فلیٹ کے غسل خانے میں ٹب میں بیٹھتا ہے۔ سر پر برف کی تھیلی ہے۔ ایک چھوٹا پنکھا چل رہا ہے اور وہ شراب کے نشے میں دھت یہ کہہ رہا ہے،چاروں طرف سمندر ہی سمندر ہے۔ اوپر برف کا پہاڑ ہے۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔

    شوٹنگ ختم ہوئی تو جلدی جلدی ڈیسائی کے کپڑے تبدیل کرائے گیے، اس کے بدن کو اچھی طرح خشک کیا گیا۔ پھر اس کو ایک پیگ برانڈی کا دیا گیا۔یہ اس کے حلق سے نیچے اتری تو اس نے بہکنا شروع کردیا۔ اتنی قلیل مقدار ہی نے اسے پورا شرابی بنا دیا، کمرے میں صرف میں موجود تھا، چنانچہ وہ مجھے لکنت بھرے لہجے میں اپنے تمام کارناموں کی داستان سنانے لگا۔ کچہریوں میں وہ کیسے مقدمہ لڑتا تھا اور کس شاندار اور زوردار طریقے پر اپنے موکلوں کی وکالت کرتا تھا۔

    ڈیسائی قائداعظم محمد علی جناح مرحوم اور شری بھولا بھائی ڈیسائی کی قانون دانی اور ان کے زورِ وکالت کا بہت معترف تھا۔ قائد اعظم مرحوم سے وہ کئی بار شرفِ ملاقات حاصل کر چکا تھا اور متعدد مرتبہ عدالتِ عالیہ میں ان کی متانوی موشگافیاں سن چکا تھا۔

    غالباً ’’آٹھ دن‘‘ فلمانے ہی کا زمانہ تھا کہ حکومتِ پنجاب نے زیر دفعہ292 میرے وارنٹ جاری کیے۔ میرے افسانے’’بُو‘‘ پر فحاشی کا الزام تھا۔ اس کا ذکر ڈیسائی سے ہوا تو اس نے اپنی قانونی واقفیت بگھارنا شروع کردی۔ دفعتاً مجھے ایک دلچسپ شرارت سوجھی، وہ یہ کہ اپنے مقدمے کی پیروی کے لئے اس کومنتخب کروں۔ عدالت میں یقیناً ایک ہنگامہ برپا ہو جاتا۔ جب وہ میری طرف سے پیش ہوتا۔ میں نے اس کا ذکر مکرجی سے کیا وہ فوراً مان گئے۔ بات واقعی مزے کی تھی۔

    گواہوں کی فہرست بنائی تو میں نے انڈین چارلی نور محمد کو بھی اس میں شامل کیا۔چارلی اور ڈیسائی سارے لاہور کو عدالت کے کمرے میں کھینچنے کے لئے کافی تھے، اس کا تصور کرتا تو میرے سارے وجود میں ہنسی کا چشمہ پھوٹنے لگتا۔ مگر افسوس کہ شوٹنگ کی مشکلات کے باعث میرایہ دلچسپ خواب پورا نہ ہوا۔

    ڈیسائی نے متعلقہ دفعہ کے متعلق تمام معلومات حاصل کرلی تھیں جو میرے نزدیک قطعی ضروری نہیں تھیں، اس لئے کہ میں تو صرف تفریح چاہتا تھا۔ نور محمد چارلی نے بھی اپنی گواہی کا خاکہ تیار کرلیا تھا۔ مگروہ ادھررنجیت میں کچھ اس طرح اپنے فلموں کی شوٹنگ میں مصروف تھا کہ ایک دن کے لئے بھی بمبے چھوڑنہیں سکتا تھا۔

    ڈیسائی کو افسوس تھا کہ اسے اپنی قانونی قابلیت دکھانے کا موقعہ نہ ملا، کم بخت کی نگاہوں سے یہ بالکل اوجھل تھا کہ مجھے اس کی اس قابلیت سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ میں تو یہ چاہتا تھا کہ جب وہ عدالت میں پیش ہو تو بار بار بوکھلائے اور جوکچھ کہنا چاہتا ہے بار بار بھولے۔ پشاور کے پانی کو پیشاب بنائے۔ اور اتنے ری ٹیک کرائے کہ سب کی طبیعت صاف ہو جائے۔

    ڈیسائی مر چکا ہے۔ زندگی میں صرف ایک بار اس نے ری ٹیک ہونے نہیں دیا۔ ریہرسل کیےبغیر اس نے عزرائیل علیہ السلام کے حکم کی تعمیل کی۔ اور لوگوں کو مزید ہنسائے بغیر موت کی گود میں چلا گیا۔

    مأخذ:

    گنجے فرشتے (Pg. 165)

    • مصنف: سعادت حسن منٹو
      • ناشر: ساقی بک ڈپو، دہلی
      • سن اشاعت: 1993

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے