Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پری چہرہ نسیم بانو

سعادت حسن منٹو

پری چہرہ نسیم بانو

سعادت حسن منٹو

MORE BYسعادت حسن منٹو

    میرا فلم دیکھنے کا شوق امرتسر ہی میں ختم ہو چکا تھا۔ اس قدر فلم دیکھے تھے کہ اب ان میں میرے لئے کوئی کشش ہی نہ رہی تھی۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ جب میں ہفتہ وار’’مصور‘‘ کو ایڈٹ کرنے کے سلسلے میں بمبئی پہنچا تو مہینوں کسی سینما کا رخ نہ کیا۔ پرچہ فلمی تھا، ہر فلم کا پاس مل سکتا تھا۔ مگر طبیعت ادھر راغب ہی نہ تھی۔

    بمبے ٹاکیز کا ایک فلم’’اچھوت کنیا‘‘ ان دنوں ایک سینما میں ہفتوں سے چل رہا تھا۔ جب اس کی نمائش کا بائیسواں ہفتہ شروع ہوا۔ تو میں نے سوچا اس فلم میں کیا ہے جو اتنی دیر سے چل رہا ہے۔ دیکھنا چاہیے۔

    بمبئی میں یہ میرا پہلا فلم تھا۔ میں نے اس میں پہلی مرتبہ اشوک کمار اور دیوکارانی کو دیکھا۔ اشوک کمار کا ایکٹنگ خام تھا مگر دیوکارانی کا کام بہت منجھا ہوا تھا۔ فلم مجموعی طور پر کامیاب تھا۔ ایک خاص بات جو میں نے نوٹ کی یہ تھی کہ اس میں سوقیانہ پن نہیں تھا۔ ایک سیدھی سادی کہانی تھی جو بڑے صاف ستھرے انداز میں پیش کی گئی تھی۔ میں نے اب گاہے گاہے فلم دیکھنے شروع کردیے۔

    ان دنوں ایکٹرسوں میں ایک ایکٹرس نسیم بانو خاصی مشہور تھی۔ اس کی خوبصورتی کا بہت چرچا تھا۔ اشتہاروں میں اسے پری چہرہ نسیم کہا جاتا تھا۔ میں نے اپنے ہی اخبار میں اس کے کئی فوٹو دیکھے تھے۔ خوش شکل تھی، جوان تھی، خاص طور پر آنکھیں بڑی پرکشش تھیں اور جب آنکھیں پرکشش ہوں تو سارا چہرہ پرکشش بن جاتا ہے۔

    نسیم کے غالباً دو فلم تیار ہو چکے تھے جو سہراب مودی نے بنائے تھے، اور عوام میں کافی مقبول ہوئے تھے۔ یہ فلم میں نہیں دیکھ سکا، معلوم نہیں کیوں؟ عرصہ گزر گیا۔ اب منروا مودی ٹون کی طرف سے اس کے شاندار تاریخی فلم ’’پکار‘‘ کا اشتہار بڑے زوروں پر ہورہا تھا۔ پری چہرہ نسیم اس میں نور جہاں کے روپ میں پیش کی جارہی تھی اورسہراب مودی خود اس میں ایک بڑا اہم کردار اداکررہے تھے۔

    فلم کی تیاری میں کافی وقت صرف ہوا۔ اس دوران میں اخباروں اور رسالوں میں جو’’اسٹل‘‘ شائع ہوئے بڑے شاندار تھے۔ نسیم، نور جہاں کے لباسِ فاخرہ میں بڑی پروقار دکھائی دیتی تھی۔ ’’پکار‘‘ کی نمائشِ عظمیٰ پر میں مدعو تھا۔ جہانگیر کے عدل و انصاف کا ایک من گھڑت قصہ تھا جو بڑے جذباتی اور تھیٹری انداز میں پیش کیا گیا تھا۔ فلم میں دو باتوں پر بہت زور تھا۔ مکالموں اور ملبوسات پر ۔مکالمے گوغیر فطری اور تھیٹری تھے لیکن بہت زور دار اور پرشکوہ تھےجو سننے والوں پر اثر انداز ہوتے تھے۔ چونکہ ایسا فلم اس سے پہلے نہیں بنا تھا، اس لئے سہراب مودی کا ’’پکار‘‘ سونے کی کان ثابت ہونے کے علاوہ ہندوستانی صنعت فلم سازی میں ایک انقلاب پیدا کرنے کا موجب ہوا۔

    نسیم کی اداکاری کمزور تھی لیکن اس کمزوری کو اس کے خداداد حسن اور نور جہاں کے لباس نے جو اس پر خوب سجتا تھا اپنے اندر چھپا لیا تھا۔ مجھے یاد نہیں رہا، خیال ہے کہ’’پکار‘‘ کے بعد نسیم غالباً دو تین فلموں میں پیش ہوئی مگر یہ فلم کامیابی کے لحاظ سے’’پکار‘‘ کا مقابلہ نہ کرسکے۔

    اس دوران میں نسیم کے متعلق طرح طرح کی افواہیں پھیل رہی تھیں۔ فلمی دنیا میں اسکینڈل عام ہوتے ہیں۔ کبھی یہ سننے میں آتا تھا کہ سہراب مودی، نسیم بانو سے شادی کرنے والا ہے۔ کبھی اخباروں میں یہ خبر شائع ہوتی تھی کہ نظام حیدر آباد کے صاحب زادے معظم جاہ صاحب نسیم بانو پر ڈورے ڈال رہے ہیں اور عنقریب اسے لے اڑیں گے۔ یہ خبر درست تھی۔ کیونکہ شہزادے کا قیام ان دنوں اکثر بمبئی میں ہوتا تھا اور وہ کئی بار نسیم کے مکان واقع میرین ڈرائیو پر دیکھے گیےتھے۔

    شہزادے نے لاکھوں روپے خرچ کیے۔ بعد میں جن کا حساب دینے کے سلسلے میں انہیں بڑی الجھنوں کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن یہ بعد کی بات تھی۔ آپ روپے کے زور سے نسیم کی والدہ شمشاد عرف چھمیاں کورضا مند کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ چنانچہ پری چہرہ نسیم کا التفات خرید کر آپ اسے اس کی والدہ سمیت حیدر آباد لے گیے۔تھوڑے ہی عرصے کے بعد جہاں دیدہ چھمیاں نے یہ محسوس کیا کہ حیدر آباد ایک قید خانہ ہے۔ جس میں اس کی بچی کا دم گھٹ رہا ہے۔ آرام و آسائش کے تمام سامان موجود تھےمگر فضا میں گھٹن سی تھی، پھر کیا پتہ تھا کہ شہزادے کی لاابالی طبیعت میں ایکاایکی انقلاب آجاتا اور نسیم بانو ادھر کی رہتی نہ ادھر کی۔ چنانچہ چھمیاں نے حکمتِ عملی سے کام لیا۔ حیدر آباد سے نکلنا بہت مشکل تھا مگروہ اپنی بچی نسیم کے ساتھ واپس بمبئی آنے میں کامیاب ہوگئی۔

    اس کی آمد پر کافی شور مچا۔ بڑی پوسٹر بازی ہوئی۔ دو پارٹیاں بن گئی تھیں۔ ایک شہزادہ معظم جاہ کے کاسہ لیسوں کی۔ دوسری نسیم بانو کے ہمدردوں کی، بہت دیر تک کیچڑ اچھالی گئی، اس کے بعد یہ معاملہ خاموش ہوگیا۔

    میں اب فلمی دنیا میں داخل ہو چکا تھا۔ کچھ دیر’’منشی‘‘ کی حیثیت سے امپریل فلم کمپنی میں کام کیا۔ یعنی ڈائرکٹروں کے حکم کے مطابق الٹی سیدھی زبان میں فلموں کے مکالمےلکھتا رہا، ساٹھ روپے ماہوار پر، ترقی کی تو ہندوستان سنے ٹون میں سیٹھ نانو بھائی ڈیسائی کے یہاں سوروپے ماہوار پر ملازم ہوگیا۔ یہاں میں نے اپنی پہلی فلمی کہانی’’مڈ‘‘ کے عنوان سے لکھی۔ اس کا عرف ’’اپنی نگریا‘‘ تھا۔ کہنا یہ ہے کہ فلمی حلقے اب میرے نام سے واقف ہو چکے تھے۔

    اس دوران میں ایک اعلان نظروں سے گزرا کہ کوئی صاحب احسان ہیں۔ انہوں نے ایک فلم کمپنی تاج محل پکچرز کے نام سے قائم کی ہے۔ پہلا فلم ’’اجالا‘‘ ہوگا جس کی ہیروئن پری چہرہ نسیم بانو ہے۔ اس فلم کے بنانے والوں میں دو مشہورہستیاں تھیں۔ ’’پکار‘‘ کا مصنف کمال امروہی اور پکار ہی کا پبلسٹی منیجر ایم اے مغنی۔ فلم کی تیاری کے دوران میں کئی جھگڑے کھڑے ہوئے۔ امیر حیدر کمال امروہی اور ایم اے مغنی کی کئی بار آپس میں چخ ہوئی۔ یہ دونوں حضرات غالباً عدالت تک بھی پہنچے۔ مگر ’’اجالا‘‘ انجام کار مکمل ہو ہی گیا۔

    کہانی معمولی تھی، موسیقی کمزور تھی، ڈائرکشن میں کوئی دم نہیں تھا۔ چنانچہ یہ فلم کامیاب نہ ہوا اور احسان صاحب کو کافی خسارہ اٹھانا پڑا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کو اپنا کاروبار بند کرنا پڑامگر اس کاروبار میں وہ اپنا دل نسیم بانو کو دے بیٹھے۔ احسان صاحب کے لیے نسیم اجنبی نہیں تھی۔ ان کے والد خان بہادرمحمد سلمان چیف انجینئر نسیم کی والدہ عرف چھمیاں کے پرستار تھے بلکہ یوں کہئے کہ ایک لحاظ سے وہ ان کی دوسری بیوی تھی۔ احسان صاحب کو یقیناً نسیم سے ملنے کا اتفاق ہوا ہوگا۔ فلم کی تیاری کے دوران میں تو خیروہ نسیم کے بالکل قریب رہے تھے لیکن لوگوں کا بیان ہے کہ احسان اپنی جھینپو اور شرمیلی طبیعت کے باعث نسیم سے پوری طرح کھل نہیں سکے تھے۔ سیٹ پر آتے تو خاموش ایک کونے میں بیٹھے رہتے۔ نسیم سے بہت کم بات کرتے۔ کچھ بھی ہو آپ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیے کیونکہ ایک دن ہم نے سنا کہ پری چہرہ نسیم نے مسٹر احسان سے دلی میں شادی کرلی ہے اور یہ ارادہ ظاہرکیا ہے کہ وہ اب فلموں میں کام نہیں کرے گی۔

    نسیم بانو کے پرستاروں کے لئے یہ خبر بڑی افسوس ناک تھی۔ اس کے حسن کا جلوہ کیونکہ صرف ایک آدمی کے لئے وقف ہوگیا تھا۔احسان اور نسیم کا عشق تمام مراحل طے کرکے شادی کی منزل تک کیسے پہنچا، مجھے اس کا علم نہیں لیکن اس سلسلے میں اشوک کمار کا بیان بہت دلچسپ ہے۔ اشوک ایک صاحب کیپٹن صدیقی کا دوست تھا۔ یہ مسٹر احسان کے قریبی عزیز تھے۔ ’’اجالا‘‘ میں انہوں نے کافی روپیہ لگایا تھا۔اشوک قریب قریب ہرروز کیپٹن صدیقی کے یہاں جایا کرتا تھا۔ کچھ دنوں سے وہ محسوس کررہا تھا کہ کیپٹن صاحب کے گھر کی فضا بدلی ہوئی ہے۔ شروع شروع میں تووہ کچھ سمجھ نہ سکا۔ لیکن ایک دن اس کی ناک نے محسوس کیا کہ ہوا میں بہت ہی عمدہ سینٹ کی خوشبو بسی ہوئی ہے۔ اشوک نے ازراہِ مذاق کیپٹن صدیقی سے اس خوشبو کے ماخذ کے بارے میں پوچھا لیکن وہ گول کر گئے۔

    ایک دن جب اشوک، صدیقی صاحب کے گھر گیا تو وہ موجود نہیں تھے۔ لیکن وہ خوشبو موجود تھی۔ بڑی لطیف لیکن بڑی شریر۔ اشوک نے سونگھ سونگھ کر ناک کے ذریعے سے معلوم کرلیا کہ یہ اوپر کی منزل سے آرہی ہے۔ سیڑھیاں طے کرکے وہ اوپر پہنچا۔ کمرے کے کواڑ تھوڑے سے کھلے تھے۔ اشوک نے جھانک کر دیکھا۔ نسیم بانو پلنگ پر لیٹی تھی اور اس کے پہلو میں ایک صاحب بیٹھے اس سے ہولے ہولے باتیں کررہے تھے۔ اشوک نے پہچان لیا۔ مسٹر احسان تھے جن سے اس کا تعارف ہو چکا تھا۔

    اشوک نے جب کیپٹن صدیقی سے اس معاملے کے متعلق بات کی تو وہ مسکرائے، ’’یہ سلسلہ کافی دیر سے جاری ہے۔‘‘ اشوک کے اس بیان سے نسیم اور احسان کے اس معاشقے پر جو روشنی پڑتی ہے، اس پر کسی تبصرے کی ضرورت نہیں۔ عشق و محبت میں جو کچھ ہوتا ہے ہوا ہوگا۔ مجھے اتنا علم ہے کہ احسان کی والدہ اور بہنیں سخت خلاف تھیں کہ وہ نسیم سے شادی کرے۔ چنانچہ اس سلسلے میں بہت جھگڑے ہوئے۔ مگر خان بہادر محمد سلمان صاحب کو کوئی اعتراض نہیں تھا، اس لئے یہ شادی عمل میں آگئی۔ اور نسیم فلمی دنیا سے دور دلی میں رہنے لگی، جہاں اس نے اپنے بچپن کے دن گزارے تھے۔شادی پر اور شادی کے بعد کچھ دیر اخباروں میں ہنگامہ رہا۔ مگر پھر نسیم فلمی حلقوں سے اوجھل ہوگئی۔

    اس دوران میں فلمی دنیا میں کئی انقلاب آئے۔ کئی فلم کمپنیاں بنیں،کئی ٹوٹیں، کئی ستارے ابھرے، کئی ڈوبے۔ ہمانسو رائے کی افسوس ناک موت کے بعد بمبئی ٹاکیز میں طوائف الملوکی پھیلی ہوئی تھی۔ دیوکارانی(مسز ہمانسو رائے) اور رائے بہادر چونی لال (جنرل منیجر) میں بات بات پر چلتی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ رائے بہادر اپنے گروپ کے ساتھ بمبئی ٹاکیز سے علیحدہ ہوگئے۔ اس گروپ میں پروڈیوسر ایس مکر جی افسانہ نگار اور ڈائرکٹر گیان مکر جی مشہور ہیرو اشوک کمار، کوی پردیپ، ساؤنڈ ریکارڈسٹ ایس واچا، کامیڈین وی ایچ ڈیسائی،مکالمہ نگار شاہد لطیف اور سنتوش شامل تھے۔

    بمبئی ٹاکیز سے نکلتے ہی اس گروپ نے ایک نئی فلم کمپنی’’ فلمستان‘‘ کے نام سے قائم کی۔ پروڈکشن کنٹرولر ایس مکر جی مقرر ہوئے جو سلور جوبلی فلم بنا کر بہت شہرت حاصل کر چکے تھے۔ کہانی وہانی لکھی گئی۔ اسٹوڈیو نیے سازو سامان سے آراستہ ہوگیا۔ سب ٹھیک ٹھاک تھا مگر پروڈیوسر ایس مکر جی سخت پریشان تھے۔ بمبے ٹاکیز سے علیحدہ ہو کر وہ دیوکارانی کو خار دینے کےلیے کوئی سنسنی پھیلانے والی بات پیدا کرنا چاہتے تھے اور یہ بات ہیروئن کے انتخاب کے متعلق تھی۔

    بیٹھے بیٹھے ایک دن ایس مکر جی کو یہ سوجھی کہ نسیم بانو کوواپس کھینچ کر لایا جائے ۔یہ وہ زمانہ تھا جب اسے اپنے اوپر پورا اعتما تھا۔ پے در پے کئی کامرانیوں کے بعد اس کو یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ وہ جس کام میں ہاتھ ڈالے گا پورا کرلے گا۔ چنانچہ فوراً ہی نسیم بانو تک پہنچنے کے راستے سوچ لیےگیے۔ اشوک کی وجہ سے ایس مکرجی کے بھی کیپٹن صدیقی سے بڑے اچھے تعلقات تھے۔ اس کے علاوہ رائے بہادر چونی لال کے احسان کے والد خان بہادرمحمد سلمان سے بہت بے تکلف مراسم تھے۔ چنانچہ دلی میں نسیم تک رسائی حاصل کرنے میں ایس مکر جی کو کسی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑا لیکن سب سے بڑا مرحلہ پہلے احسان کو اور پھر نسیم کو رضا مند کرنا تھا۔

    مکر جی کی خود اعتمادی کام آئی۔ احسان نے پہلے تو صاف جواب دے دیالیکن آخر کار رضا مند ہوگیا۔ فتح مند ہو کر جب وہ واپس بمبئی آیا تو اخباروں میں یہ خبر بڑے ٹھاٹ سے شائع کرائی کہ فلمستان کے پہلے فلم’’چل چل رے نوجوان‘‘ کی ہیروئن پری چہرہ نسیم بانو ہوگی۔ فلمی حلقوں میں سنسنی پھیل گئی کیونکہ نسیم فلمی دنیا سے ہمیشہ کے لئے علیحدگی اختیار کر چکی تھی۔یہ اس زمانے کی بات ہے جب میں ڈیڑھ برس آل انڈیا ریڈیو،دلی کے ساتھ منسلک رہ کر واپس بمبئی آیا تھا اور سید شوکت حسین رضوی کے لئے ایک کہانی لکھنے میں مصروف تھا۔یہ کہانی لکھی گئی۔ چند اور کہانیاں بھی لکھی گئیں۔ اس دوران میں گھر سے نکلنا بہت کم ہوتا تھا۔ میری بیوی میرے اس’’گھریلو پنے‘‘ سے تنگ آگئی تھی۔اس کا خیال تھا کہ میں یوں اپنی صحت خراب کررہا ہوں۔

    شاہد لطیف سے میرے مراسم علی گڑھ یونیورسٹی سے چلے آرہے تھے۔ فلمستان کے کاموں سے جب بھی فراغت ملتی، میرے یہاں ضرور آتا۔ ایک دن آیا تو میری بیوی نے اس سے کہا، ’’شاہد بھائی ان سے کہیے کہیں ملازمت کریں۔ گھربیٹھ کر ان کا کام کرنا مجھے اچھا نہیں لگتا۔ صحت خراب کررہے ہیں کہیں ملازمت کریں گے تو گھر سے باہر تو قدم رکھا کریں گے۔‘‘ چند روز کے بعد ’’ملاڈ‘‘ سے شاہد لطیف کا فون آیا کہ پروڈیوسر ایس مکر جی مجھ سے انٹرویو کرنا چاہتے ہیں کیونکہ سینریو ڈیپارٹمنٹ کے لیے انہیں ایک آدمی کی ضرورت ہے۔

    ملازمت کی مجھے کوئی خواہش نہیں تھی۔ صرف اسٹوڈیو دیکھنے کے لیےمیں فلمستان چلا گیا۔ فضا بڑی اچھی تھی جیسے کسی یونیورسٹی کی۔ اس نے مجھے بہت متاثر کیا۔ مکر جی سے ملاقات ہوئی تو وہ مجھے بے حد پسند آئے۔ چنانچہ وہیں کنٹریکٹ پر دستخط کردیے۔ تنخواہ بہت تھوڑی تھی۔ کل تین سو روپے ماہوار اور فاصلہ بھی کافی تھا۔ الیکٹرک ٹرین سے ایک گھنٹہ کے قریب لگتا تھا’’گورے گاؤں‘‘ پہنچنے میں۔ لیکن میں نے سوچا ٹھیک ہے۔ تنخواہ تھوڑی ہے لیکن میں ادھر ادھر سے کمالیا کروں گا۔شروع شروع میں تو فلمستان میں میری حالت اجنبی کی سی تھی۔ لیکن بہت جلد میں تمام اسٹاف کے ساتھ گھل مل گیا۔ ایس مکر جی سے تو میرے تعلقات دوستانہ حد تک پہنچ گیے تھے۔

    اس دوران میں نسیم بانو کی صرف چند جھلکیاں دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ چونکہ سینریو لکھا جارہا تھا اس لئے وہ چند لمحات کے لیے موٹر میں آتی اور واپس چلی جاتی تھی۔ ایس مکر جی بڑا مشکل پسند واقع ہوا ہے۔ مہینوں کہانی کی نوک پلک درست کرنے میں لگ گیے۔ خدا خدا کرکے فلم کی شوٹنگ شروع ہوئی۔ مگر یہ وہ سین تھے جن میں نسیم بانو نہیں تھی۔ بالآخر اس سے ایک روز ملاقات ہوئی۔ اسٹوڈیو کے باہر فولڈنگ کرسی پر بیٹھی تھی۔ ٹانگ پر ٹانگ رکھے تھرموس سے چائے پی رہی تھی۔ اشوک نے میرا اس سے تعارف کرایا۔ خندہ پیشانی سے پیش آئی اور بڑی باریک آواز میں کہا، ’’میں نے ان کے مضامین اور افسانے پڑھے ہیں۔‘‘

    تھوڑی دیر رسمی گفتگو ہوئی اور یہ پہلی ملاقات ختم ہوئی۔ چونکہ وہ میک اپ میں تھی اس لئے میں اس کے اصلی حسن کا اندازہ نہ کرسکا۔ ایک بات جو میں نے خاص طور پر نوٹ کی تھی، وہ یہ تھی کہ بولتے وقت اسے کوشش سی کرنی پڑتی تھی۔ یوں کہئے کہ جب وہ بولتی تھی تو مجھے یوں محسوس ہورہا تھا کہ وہ تھوڑی سی مشقت کررہی ہے۔

    ’’پکار‘‘ کی نسیم میں اور’’چل چل رے نوجوان‘‘ کی نسیم میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ ادھر وہ ملکہ نور جہاں کے لباس فاخرہ میں ملبوس اور ادھر بھارت سیوادل کی ایک رضا کار کی وردی میں۔ نسیم بانو کو تین چار مرتبہ میک اپ کے بغیر دیکھا تو میں نے سوچا،آرائشِ محفل کے لیے اس سے بہتر عورت اورکوئی نہیں ہو سکتی۔ وہ جگہ وہ کونہ جہاں وہ بیٹھتی یا کھڑی ہوتی ایک دم سج جاتا۔

    لباس کے انتخاب میں وہ بہت محتاط ہے اور رنگ چننے کے معاملے میں جو سلیقہ اور قرینہ میں نے اس کے یہاں دیکھا ہے اور کہیں نہیں دیکھا۔ زرد رنگ بڑا خطرناک ہے کیونکہ زرد رنگ کے کپڑے آدمی کو اکثر زرد مریض بنا دیتے ہیں مگر نسیم کچھ اس بے پروا تکلفی سے یہ رنگ استعمال کرتی تھی کہ مجھے حیرت ہوتی تھی۔نسیم کا محبوب لباس ساڑی ہے، غرارہ بھی پہنتی ہے مگر گاہے گاہے۔شلوار قمیص پہنتی ہے مگر صرف گھر، وہ کپڑے پہنتی ہے، استعمال نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے پاس برسوں کے پرانے کپڑے بڑی اچھی حالت میں موجود ہیں۔

    نسیم کو میں نے بہت محنتی پایا۔ بڑی نازک سی عورت ہے مگرسیٹ پر برابر ڈٹی رہتی تھی۔ مکر جی کو مطمئن کرنا آسان کام نہیں۔ کئی کئی ریہرسلیں کرنا پڑتی تھیں۔ گھنٹوں جھلسا دینے والی روشنی کے سامنے اٹھک بیٹھک کرنا پڑتی تھی لیکن میں نے دیکھا کہ نسیم اکتاتی نہیں تھی۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ اس کو اداکاری کا بہت شوق ہے۔ ہم شوٹنگ کے ساتھ ساتھ رشنر دیکھتے تھے۔ نسیم بانو کا کام بس گوارا تھا۔ اس میں چمک نہیں تھی، وہ سنجیدہ ادائیں مہیا کرسکتی ہے ،اپنے مغلئی خدوخال کی حسین جھلکیاں پیش کرسکتی ہیں لیکن ناقدانہ نگاہوں کے لیےاداکاری کا جوہر پیش نہیں کرسکتی لیکن پھر بھی ’’چل چل رے نوجوان‘‘ میں اس کی ایکٹنگ پہلے فلموں کے مقابلے میں کچھ بہتر ہی تھا۔

    مکرجی اس میں کرختگی اور درشتگی پیدا کرنا کرچاہتا تھا مگر یہ کیسے پیدا ہوتی۔ نسیم بے حد سرد مزاج ہے۔ چنانچہ نتیجہ یہ ہوا کہ ’’چل چل رے نوجوان‘‘ میں نسیم کا کیریکٹر گڈمڈ ہو کے رہ گیا۔فلم ریلیز ہوا۔ رات کو تاج میں ایک شاندار پارٹی دی گئی۔ فلم میں نسیم جیسی بھی تھی ٹھیک ہے۔ مگر تاج میں وہ سب سے الگ نظر آتی تھی۔ پروقار ،با عظمت مغلیہ شہزادیوں کی سی شان اور انفرادیت لیے۔

    ’’چل چل رے نوجوان‘‘ کی تیاری میں دو برس۔۔۔ دو اکتا دینے والے برس لگ گیے تھے۔ جب فلم توقعات کے مطابق کامیاب اور مقبول نہ ہواتو ہم سب پر افسردگی طاری ہوگئی۔ مکرجی تو بہت بے دل ہوا مگر کنٹریکٹ کے مطابق چونکہ اسے تاج محل پکچرز کے ایک فلم کی نگرانی کرنا تھی اس لئے کمر بستہ ہو کر کام شروع کرنا پڑا۔فلم’’چل چل رے نوجوان‘‘ کی تیاری کے دوران میں احسان سے مکرجی کے تعلقات بہت بڑھ گئے تھے۔ جب تاج محل پکچرز کے فلم کا سوال آیا تو احسان نے اس کی پروڈکشن کا سارا بوجھ مکرجی کے کندھوں پرڈال دیا۔ مکرجی نے مجھ سے مشورہ کیا۔ آخر یہ طے ہوا کہ’’بیگم‘‘ کے عنوان سے میں ایک ایسی کہانی لکھوں جس میں نسیم کی خوبصورتی کو زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جاسکے۔ میں نے ایک خاکہ تیار کیا۔ مکرجی نے اس میں کچھ تبدیلیاں کرائیں۔ جب فلم تیار ہوا تو میں نے بڑی حیرت سے یہ محسوس کیا کہ جو کہانی میں سوچی تھی، وہ تو ردی کاغذوں پر ہے اور جو پردے پرچل پھر رہی ہے وہ محض اس کا ہلکا سا سایہ ہے۔

    کہانی کا قصہ چھوڑیے،۔ مجھے کہنا یہ ہے کہ’’بیگم‘‘ لکھنے کے دوران میں مجھے نسیم بانو کو بہت قریب سے دیکھنے کے مواقع ملے۔ میں اورمکرجی دوپہر کا کھانا ان کے گھر پر کھاتے تھے اور ہر روز رات کو دیر تک کہانی میں ترمیم و تنسیخ کرنے میں مصروف رہتے تھے۔

    میرا خیال تھا نسیم بڑے عالی شان مکان میں رہتی ہے لیکن جب گھوڑ بندر روڈ پر اس کے بنگلے میں داخل ہوا تو میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ بنگلہ نہایت شکستہ حالت میں تھا۔ بڑا معمولی قسم کا فرنیچر، جو غالباً کرائے پر لایا گیا تھا گھسا ہوا قالین،دیواریں اور فرش سیل زدہ۔ اس پس منظر کے ساتھ میں نے پری چہرہ نسیم بانو کو دیکھا۔ بنگلے کے برآمدے میں وہ گوالے سے دودھ کے کونپوں کے متعلق بات چیت کررہی تھی۔ اس کی دبی دبی آواز، جو ایسا معلوم ہوتا تھا کوشش کے ساتھ حلق سے نکالی جارہی ہے گوالے سے قبولوا رہی تھی کہ اس نے آدھ سیر دودھ کا ہیر پھیر کیا ہے۔ آدھ سیر دودھ اور پری چہرہ نسیم بانو جس کے لیے کئی فرہاد دودھ کی نہریں نکالنے کے لیے تیار تھے۔۔۔ میں چکرا گیا۔

    آہستہ آہستہ مجھے معلوم ہوا کہ’’پکار‘‘ کی نور جہاں بڑی گھریلو قسم کی عورت ہے اور اس میں وہ تمام خصوصیات موجود ہیں جو ایک غایت درجہ گھریلو عورت میں ہوتی ہیں۔اس کی پکچر’’بیگم‘‘ کی پروڈکشن شروع ہوئی تو ملبوسات کا سارا کام اس نے سنبھال لیا۔ اندازہ تھا کہ دس بارہ ہزارروپے اس مد پر اٹھ جائیں گے مگر نسیم نے درزی گھر میں بٹھاکر اپنی پرانی ساڑیوں،قمیصوں اور غراروں سے تمام لباس تیار کروالیے۔

    نسیم کے پاس بے شمار کپڑے ہیں۔ میں اس سے قبل کہہ چکا ہوں کہ وہ لباس پہنتی ہے استعمال نہیں کرتی۔ اس پر ہرلباس سجتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ’’بیگم‘‘میں ایس مکر جی نے اس کو کشمیر کے دیہات کی ایک الھڑ لڑکی کے روپ میں پیش کیا۔ اس کو قلو پطرہ بنایا۔ ہیر کا لمبا کرتہ اور لاچا پہنایا۔ موڈرن لباس میں بھی پیش کیا۔یقین واثق تھا کہ صرف ملبوسات کے تنوع ہی کے باعث’’بیگم‘‘ بے حد مقبول ثابت ہوگی۔ مگر افسوس کہ نکمی ڈائرکشن اور کمزور میوزک کی وجہ سے اس نے درمیانے درجے کے فلموں کی بزنس کی۔

    ہم سب نے اس فلم کی تیاری پر بہت محنت کی تھی۔ خاص طور پرمکر جی نے۔ ہم سب دیر تک (بعض اوقات رات کے تین تین بجے تک) بیٹھے کام کرتے رہتے تھے اور مکر جی کہانی کی نوک پلک درست کرتے رہتے اور نسیم اور احسان جاگنے کی کوشش کرتے رہتے۔ جب تک احسان صاحب کی ٹانگ ہلتی رہتی وہ میری اور مکرجی کی باتیں سنتے رہتے۔ لیکن جونہی ان کی ٹانگ ہلنا بند ہو جاتی ہم سب سمجھ جاتے کہ وہ گہری نیند سو گیے ہیں۔

    نسیم کو اس سے بڑی جھنجھلاہٹ ہوتی تھی کہ اس کا شوہر نیند کا ایسا ماتا ہے کہ کہانی کے نہایت ہی دشوار گزار موڑ پر لمبی تان کر سو جاتا ہے۔ میں اور مکر جی احسان کو چھیڑتے تھے تو نسیم بہت جزبز ہوتی تھی۔ وہ ان کو اپنی طرف سے جھنجھوڑ کر جگاتی تھی مگر ایسا معلوم ہوتا کہ لوری دے کر انہیں اور گہری نیند سلا رہی ہے۔۔۔ جب نسیم کی آنکھیں بھی مندنے لگتیں تو مکرجی رخصت چاہتے اور چلے جاتے۔

    میرا گھر گھوڑ بندر سے بہت دور تھا۔ برقی ٹرین قریب قریب پون گھنٹے میں مجھے وہاں پہنچاتی تھی۔ ہر روز نصف شب کے بعد گھر پہنچتا۔ ایک اچھا خاصا عذاب تھا۔ میں نے جب اس کا ذکر مکر جی سے کیا تو یہ طے ہوا کہ میں کچھ عرصے کے لیے نسیم ہی کے یہاں اٹھ آؤں۔احسان بے حد جھینپو ہیں۔ کوئی بات کہنا ہو تو برسوں لگا دیتے ہیں۔ انہیں میری آسائش کا خیال تھا، وہ چاہتے تھے کہ جس چیز کی مجھے ضرورت ہو، میں ان سے بلاتکلف کہہ دیا کروں۔ مگر تکلف کی یہ حد تھی کہ وہ حرفِ مدعا زبان پر لاہی نہیں پاتے تھے۔ آخر ایک روز ان کے اصرار پر نسیم نے مجھ سے کہا، ’’تہانوں جس چیز دی ضرورت ہووے دس دیا کرو۔‘‘

    نسیم فسٹ کلاس پنجابی بولتی تھی۔’’ چل چل رے نوجوان‘‘ کے زمانے میں جب میں نے رفیق غزنوی سے جو اس پکچر میں ایک اہم رول ادا کررہا تھا ذکر کیا کہ نسیم پنجابی بولتی ہے تو اس نے اپنے مخصوص انداز میں مجھ سے کہا کہ تم بکتے ہو۔ میں نے اس کو یقین دلانے کی کوشش کی مگروہ نہ مانا۔ ایک روز شوٹنگ کے دوران میں جب نسیم اور رفیق دونوں موجود تھے اور اشوک انگریزی کے’’ زبان مروڑ‘‘ فقرے نسیم سے کہلوانے کی کوشش کررہا تھا تو میں نے رفیق سے پوچھا، ’’لالے! ادھر دنجا کسے کہتے ہیں؟‘‘

    رفیق نے جواب دیا، ’’یہ کس زبان کا لفظ ہے؟‘‘

    میں نے کہا، ’’پنجابی زبان کا۔۔۔؟بتاؤ اس کا کیا مطلب ہے؟‘‘

    رفیق نے اپنے مخصوص انداز میں کہا، ’’مینوں معلوم نئیں۔ او ادھڑ ونجے دے پتر۔‘‘

    نسیم نے گردن میں ہلکا سا خم دے کر رفیق کی طرف دیکھا اور مسکرا کر پنجابی میں اس سے پوچھا، ’’سچی۔ تہانوں ملوم نئیں۔‘‘

    رفیق نے جب نسیم کے منہ سے پنجابی سنی تو بقول شخصے وہ اپنی پشتو بھول گیا۔ لکنت بھرے لہجہ میں اس نے نسیم سے اردو میں کہا، ’’آپ پنجابی جانتی ہیں۔‘‘

    نسیم نے اسی طرح مسکرا کر کہا، ’’جی ہاں۔‘‘

    میں نسیم سے مخاطب ہوا، ’’تو آپ بتائیے ادھر ونجے کا مطلب کیا ہے؟‘‘

    نسیم نے کچھ دیر سوچا، ’’وہ۔۔۔ وہ لباس جو گھر میں استعمال کیا جاتا ہے۔‘‘

    رفیق غزنوی اپنی پشتو اور زیادہ بھول گیا۔

    نسیم کی نانی امرت سر کی کشمیرن تھی۔ پنجابی زبان اس نے غالباً اسی سے سیکھی تھی۔ اردو اس لئے بہت شستہ ورفتہ بولتی ہے کہ دلی میں اپنی ماں کے ساتھ رہی۔ انگریزی جانتی ہے اس لیے کہ کنونٹ میں پڑھتی تھی۔ موسیقی سے شغف رکھتی ہے،اس کی تعلیم ماں ہی سے پائی۔ مگر ماں جیسا سریلا گلا نہ پایا۔ فلموں میں اپنے گانے خود ہی گاتی ہے مگر ان میں رس نہیں ہوتا لیکن اب میں نے سنا ہے کہ اس نے خود گانا ترک کردیا ہے۔

    نسیم کے اردگرد جو ایک خیرہ کن ہالہ تھا، آہستہ آہستہ غائب ہوگیا۔ مجھے ان کے بنگلے کے غسل خانے میں پہلی بار نہانے کا اتفاق ہواتو مجھے بڑی ناامیدی ہوئی۔ میرا خیال تھا کہ وہ جدید سازو سامان سے آراستہ ہوگا،متعدد قسم کے نہانے والے نمک ہوں گے، نایاب صابن ہوگا، ٹب ہوگا، وہ تمام اوٹ پٹانگ چیزیں ہوں گی جو حسین عورتیں اور ایکٹرسیں اپنے حسن کی افزائش کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ مگروہاں صرف ایک جست کی بالٹی تھی۔ ایلومینیم کا ایک ڈونگا اور ملاڈ کے کنویں کا بھاری پانی کہ صابن گھستے رہو اور جھاگ پیدا نہ ہو۔لیکن نسیم کو جب بھی دیکھو تروتازہ اور نکھری نکھری نظر آتی تھی۔ میک اپ کرتی تھی مگر ہلکا۔۔۔ شوخ رنگوں سے اسے نفرت ہے۔ وہ صرف وہی رنگ استعمال کرتی ہے جو اس کے مزاج کے موافق ہوں یعنی معتدل۔

    عطریات سے اس کو عشق ہے۔ چنانچہ انواع و اقسام کی خوشبویات اس کے پاس موجود رہتی ہیں۔ بعض سینٹ توبہت ہی قیمتی اور نایاب ہیں۔ زیور ایک سے ایک اعلیٰ اور بیش قیمت ہے مگر ان میں لدی پھندی نہیں ہوتی۔ کبھی ہیرے کا ایک کنگن پہن لیا کبھی جڑاؤ چوڑیاں اور کبھی موتیوں کا ہار۔

    ان کا دستر خوان میں نے کبھی پرتکلف نہیں دیکھا۔ احسان کو دمے کی شکایت رہتی ہے اور نسیم کو زکام کی۔ دونوں پرہیز کی کوشش کیا کرتے تھے۔ نسیم میری ہری مرچیں لے اڑتی تھی اور احسان نسیم کی پلیٹ پر ہاتھ صاف کردیتے تھے ۔دونوں میں کھانے پر قریب قریب ہر روز ایک عجیب بچکانہ قسم کی چخ ہوتی تھی۔ دونوں کی نگاہیں جب اس دوران میں ایک دوسرے سے ٹکراتیں تو دیکھنے والوں کو صاف پتہ لگ جاتا کہ وہ محبت آشنا ہیں۔

    نسیم کو جب میری بیوی نے اپنے یہاں مدعو کیا تو اسے سالنوں میں استعمال کیا ہوا گھی بہت پسند آیا۔ کھانے کی میز ہی پر اس نے پوچھا، ’’یہ گھی آپ کہاں سے منگواتی ہیں؟‘‘

    میری بیوی نے جواب دیا، ’’بازار سے۔۔۔ پولسن کا گھی ہے۔۔۔ عام ملتا ہے۔‘‘

    نسیم نے کہا، ’’دو ڈبے مجھے منگوا دیجیے۔‘‘ میں نے نوکر سے کہا، وہ فوراً پاس والے اسٹور سے جس کے ساتھ میرا حساب چلتا تھا، دو ڈبے لے آیا۔

    اسی طرح وہ کل آٹھ ٹین لے گئی۔ ایک دن مجھ سے کہنے لگی، ’’آپ وہ گھی کا حساب تو کر لیجئے۔‘‘

    میں نے کہا، ’’اس کی کیا ضرورت ہے؟‘‘

    لیکن جب اس نے اصرار کیا تو میں نے کہا، ’’کل آٹھ ٹین ہوتے ہیں۔۔۔ آپ حساب کرلیجئے۔‘‘

    نسیم نے کچھ دیرسوچنے کے بعد کہا، ’’آٹھ؟ میرا خیال ہے سات ٹین آتے ہیں۔‘‘

    ’’سات ہی ہوں گے۔‘‘

    ’’ہوں گے کیا۔۔۔ آپ کہتے ہیں تو آٹھ ہی ہوں گے۔‘‘

    ’’آپ نے بھی ہوں گے ہی کہا۔‘‘

    کافی دیر تک سات اور آٹھ کا ہیر پھیر رہا۔ نسیم کے حساب کے مطابق ٹین سات تھے اور میرے اور اسٹور والے کے حساب کے مطابق آٹھ۔ فیصلہ یوں ہی ہوسکتا تھا کہ ہم میں سے ایک دوسرے کا حساب مان لے مگر جب بات حساب کی تھی تو کون مانتا۔ آخر نسیم نے اپنے ملازم سے کہا کہ خالی ٹین اکٹھے کرے۔ جب یہ اکٹھے کرکے نسیم کے روبرو پیش کئے تو ان کی تعداد سات تھی۔ نسیم نے فاتحانہ انداز میں میری طرف دیکھا اور کہا، ’’گن لیجئے۔ سات ہیں۔‘‘

    میں نے پھرکہا، ’’سات ہی ہوں گے۔۔۔ لیکن میرے حساب کے مطابق آٹھ ہوتے ہیں۔‘‘

    ملازم نسیم سے مخاطب ہوا، ’’جی ہاں! آٹھ ہی ہوتے ہیں۔ ایک بھنگن لے گئی تھی۔‘‘

    میں ان سے پانچ سو روپے ماہوار لیتا تھا، ہر مہینے اس کی پائی پائی کا حساب ہوتا تھا لیکن اس میں کبھی سات اور آٹھ کا ہیر پھیر نہ ہوا۔ میاں بیوی دونوں میرے کام سے مطمئن تھے۔ لیکن مسٹر احسان کسی حد تک میری تیز طبیعت سے نالاں تھے مگر اس کا اظہار وہ اپنی حد سے بڑھی پرتکلف طبیعت کے باعث مجھ پر کبھی نہ کرسکے۔

    بظاہر مسٹر احسان بہت دبیل قسم کے انسان ہیں مگر اپنی بیوی کے معاملے میں بہت سخت قسم گیر واقع ہوئے ہیں۔ نسیم کو صرف خاص خاص لوگوں سے ملنے کی اجازت ہے۔ عام ایکٹروں اور ایکٹرسوں سے نسیم کو بات چیت کی ممانعت ہے۔ ویسے نسیم بھی چھچھوروں سے نفرت کرتی ہے۔شوروغل برپا کرنے والی پارٹیوں سے وہ خود بھی دور رہتی ہے، لیکن ایک دفعہ اسے ایک بہت بڑے ہنگامے میں حصہ لینا پڑا۔یہ ہنگامہ ہولی کا ہنگامہ تھا۔ جس طرح علی گڑھ یونیورسٹی کی ایک’’ٹریڈیشن‘‘ برکھا کے آغاز پر’’مڈ پارٹی‘‘ ہے۔ اسی طرح بمبے ٹاکیز کی ایک ٹریڈیشن ہولی کی رنگ پارٹی تھی۔ چونکہ فلمستان کے قریب قریب تمام کارکن بمبے ٹاکیز کے مہاجر تھے،اس لئے یہ ٹریڈیشن یہاں بھی قائم رہی۔

    ایس مکر جی اس رنگ پارٹی کے رِنگ لیڈر تھے ۔ عورتوں کی کمان ان کی موٹی اور ہنس مکھ بیوی (اشوک کی بہن) کے سپرد تھی۔ میں شاہد لطیف کے ہاں بیٹھا تھا۔ شاہد کی بیوی عصمت(چغتائی) اور میری بیوی (صفیہ) دونوں خدا معلوم کیا باتیں کررہی تھیں۔ ایک دم شور برپا ہوا۔ عصمت چلائی، ’’لو صفیہ وہ آگئے۔۔۔ لیکن میں بھی۔۔۔‘‘

    عصمت اس بات پر اڑ گئی کہ وہ کسی کو اپنے اوپر رنگ پھینکنے نہیں دے گی۔ مجھے ڈر تھا کہ اس کی یہ ضد کہیں دوسرارنگ اختیار نہ کرلے۔ کیونکہ رنگ پارٹی والے سب’’ہولی ڈے موڈ‘‘ میں تھے۔ خدا کا شکر ہے کہ عصمت کا موڈ خودبخود بدل گیا اور وہ چند لمحات ہی میں رنگوں میں لت پت بھتنی بن کر دوسری بھتنیوں میں شامل ہوگئی۔ میرا اور شاہد لطیف کا حلیہ بھی وہی تھا جو ہولی کے دوسرے بھتنوں کا تھا۔پارٹی میں جب کچھ اور لوگ شامل ہوئے تو شاہد لطیف نے بآواز بلند کہا، ’’چلو پری چہرہ نسیم کے گھر کا رخ کرو۔‘‘

    رنگوں سے مسلح گروہ گھوڑ بندر روڈ کی اونچی نیچی تارکول لگی سطح پر بے ڈھنگے بیل بوٹے بناتا اور شور مچاتا نسیم کے بنگلے کی طرف روانہ ہوا۔ چند منٹوں ہی میں ہم سب وہاں تھے۔ شور سن کر نسیم اور احسان باہر نکلے۔ نسیم ہلکے رنگ کی جا رجٹ کی ساڑی میں ملبوس میک اپ کی نوک پلک نکالے جب ہجوم کے سامنے برآمدے میں نمودار ہوئی تو شاہد نے بزن کا حکم دیا،مگر میں نے اسے روکا، ’’ٹھہرو! پہلے ان سے کہو کپڑے بدل آئیں۔‘‘

    نسیم سے کپڑے تبدیل کرنے کے لیے کہا گیاتو وہ ایک ادا کے ساتھ مسکرائی، ’’یہی ٹھیک ہیں۔‘‘ ابھی یہ الفاظ ان کے منہ ہی میں تھے کہ ہولی کی پچکاریاں برس پڑیں۔ چند لمحات ہی میں پری چہرہ نسیم بانو ایک عجیب وغریب قسم کی خوفناک چڑیل میں تبدیل ہوگئی۔ نیلے پیلے رنگوں کی تہوں میں سے جب اس کے سفید اور چمکیلے دانت اور بڑی بڑی آنکھیں نظر آتیں تو ایسا معلوم ہوتا کہ بہزاد اور مانی کی مصوّری پر کسی بچے نے سیاہی انڈیل دی ہے۔

    رنگ بازی ختم ہونے پر کبڈی شروع ہوئی۔ پہلے مردوں کا میچ شروع ہوا پھر عورتوں کا۔ یہ بہت دلچسپ تھا۔ مسٹر مکرجی کی فربہ بیوی جب بھی گرتی، قہقہوں کا طوفان برپا ہو جاتا۔ میری بیوی عینک پوش تھی۔ شیشے رنگ آلود ہونے کے باعث اسے بہت کم نظر آتا تھا۔ چنانچہ وہ اکثر غلط سمت دوڑنے لگتی۔ نسیم سے بھاگا نہیں جاتا تھا یا وہ ظاہر کرنا چاہتی تھی کہ وہ اس مشقت کی عادی نہیں۔ بہر حال وہ برابر کھیل میں دلچسپی لیتی رہی۔

    نسیم اور اس کے میاں بڑے مذہبی قسم کے آدمی ہیں۔ میرا مطلب اس قسم کے مذہبی آدمیوں سے ہے جو اردو کے اخباروں کے پرزے زمین سے اٹھا کر چومتے ہیں اور سر آنکھوں پر لگاتے ہیں۔ شام کو ایک ستارہ دیکھتے ہیں تو اور دو دیکھنے کے لئے سارا آسمان کھنگالنا شروع کردیتے ہیں۔ دونوں توہم پرست ہیں۔ خاص طور پر میاں احسان۔ ریس کورس پر ان کی حالت دیکھنے والی ہوتی ہے۔ پاس بہت اچھی ٹپ ہے۔ قریب ہے کہ اس پر روپیہ لگادیں کہ ایک کانا آدمی پاس سے گزر گیا۔ بس وہیں رک جائیں گے۔ ٹپ کا گھوڑا ون آجائے گا تو نسیم سے الجھ پڑیں گے، ’’تم نے کیوں کہا تھا کہ اس گھوڑے پر نہ لگانا۔۔۔ نہیں آئے گا۔‘‘ ایسی ہلکی ہلکی چخ ان میں عام ہوتی رہتی تھی جو ان کی ازدواجی زندگی میں رنگ بھرتی رہتی ہے۔

    نسیم کے دو بچے ہیں جو اکثر نانی کے پاس رہتے ہیں۔ وہ ان کو اسٹوڈیو کی فضا سے دور رکھنا چاہتی ہے۔ اس کو اپنے مرحوم باپ سے بہت پیار ہے۔ ان کا فوٹو ہر وقت اس کے وینٹی بیگ میں موجود رہتا ہے۔ مجھے عورتوں کے بیگ چوری چوری دیکھنے کا بہت شوق ہے۔ ایک روز میں حسبِ عادت نسیم کا بیگ کھول کر یہ فوٹو دیکھ رہا تھا کہ وہ آگئی۔ میں نے اس سے کہا، ’’معاف کیجئے گا۔۔۔ یہ میری بہت بری عادت ہے۔۔۔بتائیے، یہ کس کا فوٹو ہے۔‘‘

    نسیم نے فوٹو ہاتھ میں لے کر اس کو پیار بھری نظروں سے دیکھا اور کہا، ’’میرے ابا جی کا۔‘‘

    مجھے ایسا محسوس ہوا کہ ایک چھوٹی سی بچی ہے۔ جو مجھ سے یوں کہہ رہی ہے، ’’میرے ابا جی کا اور کس کا؟‘‘

    میں نے اس سے یہ نہ پوچھا کہ وہ کون ہیں؟ کہاں ہیں۔۔۔؟کیا یہی کافی نہ تھا کہ وہ اس کے باپ ہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ اس کے ابا جی ہیں۔ذیل کا یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد میں یہ مضمون ختم کروں گا۔

    ’’بیگم‘‘لکھنے کے دوران میں مسٹر مکر جی کے ساتھ ایک منظر پربحث و تمحیص کرتے کرتے بہت دیر ہوگئی۔ رات کے دو بجے تھے۔ صبح کی پہلی گاڑی ساڑھے تین بجے ملتی تھی۔ میری بیوی ساتھ تھی۔ جب ہم نے رخصت چاہی تو نسیم نے کہا، ’’نہیں صفیہ۔۔۔ یہیں ٹھہر جاؤ۔ یہ بھی کوئی وقت ہے جانے کا۔‘‘

    ہم نے بہت کہا کہ کوئی بات نہیں، موسم اچھا ہے، کچھ دیر پلیٹ فارم پر ٹہلیں گے، اتنے میں گاڑی آجائے گی۔ مگر نسیم اور احسان نے بہت اصرار کیا کہ ہم ٹھہر جائیں۔ مکر جی چلے گئے۔ اس لئے کہ ان کے پاس موٹر تھی اور انہیں بہت دور نہیں جانا تھا۔ میں باہر برآمدے میں سو گیا۔ احسان وہیں کمرے میں صوفے پر لیٹ گیا۔صبح ناشتہ کرکے جب میں اور صفیہ گھر چلے تو راستے میں اس نے مجھے یہ بات سنائی جو دلچسپی سے خالی نہیں۔

    جب صفیہ اور نسیم سونے کے لئے کمرے میں داخل ہوئیں تو وہاں ایک پلنگ تھا۔ صفیہ نے ادھر ادھر دیکھا اور نسیم سے کہا، ’’آپ سو جائیے۔‘‘

    نسیم مسکرائی اور پلنگ پر نئی چادر بچھا کر کہنے لگی، ’’کپڑے تو بدل لیں۔‘‘ یہ کہہ اس نے ایک نیا سلیپنگ سوٹ نکالا، ’’یہ تم پہن لو۔۔۔ بالکل نیا ہے۔‘‘

    ’’بالکل نیا‘‘پر زور تھا، جس کا مطلب میری بیوی سمجھ گئی۔ اور لباس تبدیل کرکے بستر پر لیٹ گئی۔ نسیم نے اطمینان سے آہستہ آہستہ شب خوابی کا لباس پہنا ،چہرے کا میک اپ اتارا، تو صفیہ نے حیرت زدہ ہو کرکہا، ’’ہائے تم کتنی پیلی ہو نسیم۔‘‘ نسیم کے پھیکے ہونٹوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی، ’’یہ سب میک اپ کی کارستانی ہے۔‘‘ میک اَپ اتارنے کے بعد اس نے چہرے پر مختلف روغنیات ملے اور ہاتھ دھو کر قرآن اٹھایا اور تلاوت شروع کردی۔ میری بیوی بے حد متاثر ہوئی۔ بے اختیار اس کے منہ سے نکلا، ’’نسیم۔۔۔ خدا کی قسم، تم تو ہم لوگوں سے کہیں اچھی ہو۔۔۔‘‘

    اس احساس سے کہ یہ بات اس نے ڈھنگ سے نہیں کہی۔ صفیہ ایک دم خاموش ہوگئی۔ قرآن کی تلاوت کرنے کے بعد نسیم سو گئی۔

    پری چہرہ نسیم۔۔۔ پکار کی نور جہاں۔۔۔ ملکۂ حسن۔۔۔ احسان کی روشن۔۔۔ چھمیاں کی بیٹی اور دو بچوں کی ماں!

    مأخذ:

    گنجے فرشتے (Pg. 187)

    • مصنف: سعادت حسن منٹو
      • ناشر: ساقی بک ڈپو، دہلی
      • سن اشاعت: 1993

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے