Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ستارہ

MORE BYسعادت حسن منٹو

    لکھنے کے معاملے میں، میں نے بڑے بڑے کڑے مراحل طے کیے ہیں لیکن مشہور رقاصہ اور ایکٹرس ستارہ کے بارے میں اپنے تاثرات قلم بند کرنے میں مجھے بڑی ہچکچاہٹ کا سامنا کرنا پڑا ہے، آپ تو اسے ایک ایکٹریس کی حیثیت سے جانتے ہیں جو ناچتی بھی ہے اور خوب ناچتی ہے لیکن مجھے اس کے کردار کا مطالعہ کرنے کا بھی موقع ملا ہے جو عجیب و غریب ہے۔

    میں نے اپنی زندگی میں کئی عورتوں کے کردار و اطوار کا مطالعہ کیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب ستارہ کے حالات زندگی مجھے آہستہ آہستہ معلوم ہوئے تو میں چکرا گیا، وہ عورت نہیں ایک طوفان ہے اور وہ بھی ایسا طوفان جو صرف ایک مرتبہ آکے نہیں ٹلتا، بار بار آتا ہے۔ ستارہ یوں تو میانہ قد کی عورت ہے مگر بلا کی مضبوط ہے۔ اس نے جتنی بیماریاں سہی ہیں، میرا خیال ہے کہ اگر کسی اور عورت پر نازل ہوتیں تو وہ کبھی جانبر نہ ہوسکتی۔ وہ طبعاً بہت حوصلہ مند ہے شاید اس لیے کہ وہ کسرت کی عادی ہے۔

    میں نے دیکھا ہے کہ صبح سویرے اٹھ کر وہ کم از کم ایک گھنٹے تک ریاضت کرتی تھی اور یہ ریاضت کوئی معمولی ریاضت نہیں ہوتی تھی، ایک گھنٹہ بھرپور ناچنا ہڈیوں تک کو تھکا دیتا ہے مگر ستارہ مجھے کبھی تھکی تھکی دکھائی نہیں دی۔ اصل میں اس میں وہ چیز جسے انگریزی میں STAMINA کہتے ہیں، بدرجہ اتم موجود ہے وہ تھکنے والی جنس نہیں، دوسرے تھک ہار جائیں گے مگروہ ویسی کی ویسی رہے گی جیسے اس نے کوئی مشقت نہیں کی، اس کو اپنے فن سے پیار ہے اسی والہانہ قسم کا جو وہ مختلف مردوں سے کرتی رہی ہے۔

    معمولی ڈانس کے لیے وہ اتنی محنت کرے گی جتنی کوئی رقاصہ عمر بھر نہیں کرسکتی، اس کی طبیعت میں اپج ہے، وہ ہمیشہ کوئی خاص بات کرنا چاہے گی۔ چلت پھرت جو ایک نٹنی میں ہوسکتی ہے اس میں ضرورت سے زیادہ موجود ہے۔ وہ ایک سیکنڈ کے لئے بھی نچلی نہیں بیٹھ سکتی، اس کی بوٹی بوٹی تھرکتی رہتی ہے۔

    کہا جاتا ہے کہ وہ نیپال کی رہنے والی ہے، مجھے اس کے متعلق حتمی طورپر کچھ معلوم نہیں لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ ستارہ کے علاوہ اس کی دو بہنیں اور تھیں۔ یہ ترشول یوں مکمل ہوتا ہے۔ تارہ، ستارہ اور الکنندہ، تارہ اور الکنندہ تو اب قریب قریب معدوم ہو چکی ہیں۔ میرا خیال ہے ان کا نام بھی کسی کو یاد نہیں ہوگا۔

    ان تین بہنوں کی زندگی ویسے بہت دلچسپ ہے۔ تارہ کی کئی مردوں سے وابستگی رہی۔ اس ہجوم میں ایک شوکت ہاشمی بھی ہیں جو اب تک کئی پاپڑ بیل چکے ہیں۔ حال ہی میں ان کی بیوی پورنیما نے ان سے طلاق لی ہے اور وہ اس سلسلے میں بڑے دردناک بیان دے چکے ہیں۔ الکنندہ کئی ہاتھوں سے گزری اور آخر میں پربھات کے شہرت یافتہ ایکٹر بلونت سنگھ کے پاس پہنچی، اس کے پاس وہ ابھی تک ہے یا نہیں اس کا مجھے علم نہیں۔

    ان تین بہنوں کی زندگی کی روئیداد اگر لکھی جائے تو ہزاروں صفحے کالے کیے جاسکتے ہیں۔ لوگ مجھے کوستے ہیں کہ میں فحش نگارہوں، گندہ ذہن ہوں لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ اس دنیا میں کیسی کیسی ہستیاں موجود ہیں، میں انہیں فحش نہیں کہتا۔ میں تو صرف اتنا جانتا ہوں کہ یا تو کوئی آدمی ماحول کے باعث مذمومی حرکات کا مرتکب ہوتا ہے یا اپنی جبلت کے باعث۔

    جو چیز آپ کو فطرت نے عطا کی ہے اس کی اصلاح نفسانی علاج سے کسی حد تک ممکن ہے لیکن اگر آپ اس سے غافل رہے ہیں تو اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔ یہ ذرا سوچنے کی بات ہے۔ تارہ، ستارہ اور الکنندہ تین بہنیں کسی کے ہاں پیدا ہوئیں، غالباً نیپال کے کسی گاؤں میں، وہاں سے وہ ایک ایک کرکے بمبئی میں آئیں کہ فلمی دنیا میں قسمت آزمائی کریں لیکن یہ مقدر کی بات ہے کہ صرف ستارہ کا ستارہ چمکا، جو باقی دو تھیں وہ ٹمٹاتی رہ گئیں۔

    ستارہ کے متعلق جیسا کہ میں اس مضمون کے آغاز میں کہہ چکا ہوں، پوری تفصیل سے لکھتے ہوئے جھجکتا ہوں، وہ عورت نہیں کئی عورتیں ہے۔ اس نے اتنے جنسی سلسلے کیےہیں کہ میں اس مختصر مضمون میں ان کا احاطہ نہیں کرسکتا۔انگریزی زبان میں ایسی عورت کو NAFOMANIC کہا جاتا ہے۔ یہ عورت کی ایک خاص قسم ہے جو ایک مرد کے علاوہ اور سیکڑوں سے تعلق قائم کرتی ہے۔

    ستارہ کا میں جب بھی تصور کرتا ہوں تو وہ مجھے بمبئی کی پانچ منزلہ بلڈنگ معلوم ہوتی ہے جس میں کئی فلیٹ اور کئی کمرے ہوں اور یہ واقع ہے کہ وہ بیک وقت کئی مرد اپنے دل میں بسائے رکھتی تھی۔ مجھے اتنا معلوم ہے کہ جب وہ بمبئی میں آئی تو اس کا تعلق ایک گجراتی فلم ڈائریکٹر سے قائم ہوا جس کا پورا نام مجھے یاد نہیں رہا لیکن وہ ڈیسائی تھا۔ دبلا پتلا مریل قسم کا انسان لیکن تھا بہت خوبیوں کا مالک، اپنے کام میں کافی ہوشیار تھا مگر قسمت نے اس کی یاوری نہ کی۔ چونکہ ضدی تھا اس لیے جگہ جگہ ٹھکرایا گیا۔ اس سے میری ملاقات اس زمانے میں ہوئی جب سروج فلم کمپنی زندہ تھی لیکن اصل میں زندہ درگور تھی۔میری اس کی فوراً دوستی ہوگئی، اس لیے کہ وہ فن شناس تھا اور ادبی ذوق بھی رکھتا تھا۔ اسی دوران میں مجھے معلوم ہوا کہ ستارہ اس کی بیوی ہے لیکن اس سے جدا ہوگئی ہے۔ ڈیسائی کو مگر اس جدائی کا اتنا رنج نہیں تھا۔ اس کی باتوں سے مجھے صرف اتنا معلوم ہے کہ وہ اس عورت سے پورا نبٹ نہیں سکتا تھا۔

    ستارہ اس زمانے میں کسی اور کے پاس تھی لیکن کبھی کبھی اپنے شوہرڈیسائی کے پاس بھی آجاتی تھی۔ وہ خود دار انسان تھا اس لیے وہ اس سے عموماً بے اعتنائی برتتا تھا اور اسے مختصر ملاقات کے بعد رخصت کردیا کرتا تھا۔

    ہندوؤں کے مذہب کے مطابق کوئی عورت طلاق نہیں لے سکتی۔ ڈیسائی سے ستارہ کی شادی ہندو قانون کے تحت ہوئی تھی اس لیے اب بھی وہ مسز ڈیسائی ہے حالانکہ وہ کئی مردوں سے منسلک ہو کر ان سے علیحدگی اختیار کرچکی ہے۔ میں یہ اس زمانے کی بات کررہا ہوں جب ڈاکٹر محبوب کا ستارہ مائل بہ عروج تھا۔ محبوب نے اسے اپنی کسی فلم میں لیا تو اس کے ساتھ ستارہ کے جنسی تعلقات فوراً قائم ہوگئے۔ اس کی روداد میرا قلم بیان نہیں کرسکتا۔ صرف ببو (عشرت جہاں) کی زبان ہی بیان کرسکتی ہے۔

    آؤٹ ڈور شوٹنگ کے سلسلے میں محبوب کو حیدر آباد جانا پڑا تھا۔ وہاں محبوب صاحب حسبِ دستور باقاعدہ نماز پڑھتے تھے اور باقاعدہ ستارہ سے عشق فرماتے تھے۔ میں یہ سب کچھ لکھنے میں ہچکچا رہا ہوں۔ اصل میں ستارہ ایک ’’کیس ہسٹری‘‘ ہے، اس پر نفسیات کے کسی ماہر ہی کو لکھنا چاہیے تھا۔ بمبئی میں ایک اسٹوڈیو فلم سٹی تھا۔ محبوب نے غالباً اسی میں اپنی کوئی پکچر بنانا شروع کی تھی۔ ان دنوں وہاں ساؤنڈ ریکارڈ کرنے والے مسٹر پی۔ این اروڑہ تھے ( جواب مشہور پروڈیوسر ہیں) بڑے محنتی قسم کے نوجوان۔ فضل بھائی نے جو فلم سٹی کے کرتا دھرتا تھے، ان کوولایت بھیجا تھا کہ وہ صدا بندی کا کام سیکھ کے آئیں۔ اسی زمانے میں سیٹھ شیراز علی حکیم بھی وہیں تھے اور لیبارٹری کے انچارج تھے۔ ڈائریکٹر محبوب سے تو ستارہ کا سلسلہ چل رہا تھا لیکن بقول دیوان سنگھ مفتون ایڈیٹر ریاست دہلی اس کا ٹانکا پی این اروڑہ سے بھی مل گیا۔

    ڈائریکٹر محبوب نے فلم ختم کیا تو ستارہ پی این اروڑہ کے ہاں بطوربیوی یاداشتہ کے رہنے لگی۔ لیکن اس دوران میں ایک اور حادثہ پیش آیا۔ سٹی ہی میں یا (کسی اور اسٹوڈیو میں جہاں ستارہ کا کام کررہی تھی) ایک نو واردالناصر تشریف لائے۔ یہ بڑے خوبصورت جوان تھے۔ کم عمر، تازہ تازہ ڈیرہ دون سے تعلیم حاصل کرکے آئے تھے۔ گال سرخ و سپید تھے ۔ان کو شوق تھا کہ فلمی دنیا میں داخل ہوں۔

    جب آئے تو فوراً انہیں ایک فلم میں رول مل گیا۔ اتفاق سے اس کی کاسٹ میں ستارہ بھی شامل تھی جو بیک وقت پی این اروڑہ، ڈائریکٹر محبوب اور اپنے اصلی خاوند مسٹر ڈیسائی کے پاس آیا جایا کرتی تھی۔معلوم نہیں یہ پہلے کی بات ہے یا بعد کی مگر ستارہ کی دوستی نذیر سے بھی ہوگئی جس کی پہلی داشتہ جو کہ ایک یہودن ایکٹرس یاسمین تھی، اسے داغ مفارقت دے گئی تھی۔ مجھے معلوم نہیں، کن حالات میں ان دونوں کی ملاقات ہوئی لیکن میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ ان دونوں میں گاڑھی چھننے لگی۔ نذیر ستارہ کا فریفتہ تھا اور ستارہ نذیرپر اپنی جان چھڑکتی تھی۔

    میں نذیر کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ وہ بہت سخت مزاج کا آدمی ہے۔ وہ عورت کو تابع رکھنے کا قائل ہے، عورت کا ذکرہی کیا، مرد بھی جو اس کی ملازمت میں ہوں، انہیں اس کی گالیاں اور گھڑکیاں سہنا پڑتی ہیں۔وہ آدمی نہیں دیوہے لیکن بڑا مخلص دیو، وہ میرا دوست ہے۔ جب کبھی مجھ سے ملتا ہے سلام دعا کے بجائے گالیاں دیتا ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ وہ بے ریا ہے، اس کا دل خلوص سے معمور ہے۔

    اس بے ریا اور مخلص آدمی نے ستارہ کو کئی برس برداشت کیا۔ اس کی سخت گیر طبیعت کے باعث ستارہ کو اتنی جرأت نہ ہوئی کہ وہ اپنے پرانے آشناؤں سے راہ و ربط قائم رکھے لیکن وہ عورت جو صرف ایک مرد کی رفاقت پرقانع نہ رہتی ہو اس کا کیا علاج ہے۔ ستارہ نے کچھ دیر کے بعد وہی سلسلہ شروع کر دیا جس کی وہ عادی تھی۔ اروڑہ، الناصر، محبوب اور اس کا خاوند ڈیسائی سب ہی اس کے التفات سے مستفید ہوتے رہے۔ یہ چیز نذیر کی خوددار طبیعت پر بہت گراں گزرتی تھی۔ وہ ایسا آدمی ہے کہ ایک مرتبہ کسی عورت سے تعلق قائم کرلے تو اسے نبھانا چاہتا ہے مگر ستارہ کسی اور ہی آب و گل کی بنی تھی۔ وہ نذیر جیسے آدمی سے بھی مطمئن نہیں تھی۔ میں اس میں ستارہ کا کوئی قصور نہیں دیکھتا۔ جو کچھ بھی اس سے سرزد ہوا، سراسر اس کی جبلت کے باعث ہوا۔ قدرت نے اس کو اس طور سے بنایا ہے کہ وہ جادۂ ہر جام ہی بنی رہے گی۔ کوشش کے باوجود وہ اپنی اس فطرت کے خلاف نہیں جاسکتی۔

    یاسمین معتدل عورت تھی، خوبصورت، نسوانیت کا بڑا اچھا نمونہ، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس نے جب نذیر سے مستقل گھریلو زندگی بسر کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو نذیر نے جسے ہزاروں اشخاص بہت سخت گیر سمجھتے تھے، یاسمین کو اجازت دے دی کہ وہ جس کسی کے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہے، کرسکتی ہے۔

    میری سمجھ میں نہیں آتا کہ نذیر اور ستارہ کا جسمانی تعلق اتنی دیر کیسے قائم رہا۔ نذیر سے میری ملاقات ہندوستان سینے ٹون میں ہوئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب فلم انڈسٹری نہایت نازک حالت میں تھی۔ وہ اس وجہ سے کہ فائی نینسر سٹے باز تھا، آج لاکھوں کے مالک ہیں دوسرے دن دیوالہ پٹ رہاہے۔

    ہندوستان سنے ٹون پہلے سروج فلم کمپنی تھی۔ اس سے پہلے خدا معلوم اس کا کیا نام تھا۔ میں نے ایک کہانی ’’کیچڑ‘‘ کے عنوان سے لکھی۔ جب میں نے سیٹھ نانو بھائی ڈیسائی کو سنائی تو اس نے بے حد پسند کی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس زمانے میں جب کہ حکومت کی طرف سے سخت قسم کا احتساب عاید تھا، کوئی پروڈیوسر اس کہانی کو فلمانے کی جرأت نہ کرتا مگر نانو بھائی دلیر آدمی تھا، اس نے کہانی لے لی مگر بعد میں مالی مشکلات درپیش آئیں تو وہ مجبور ہوگیا۔

    نذیر کے لیے میں نے مزدور کا ایک اہم رول لکھا تھا جو اس کو بہت پسند تھا۔ جب اس کو معلوم ہوا کہ مالی مشکلات کے باعث یہ ’’باغی فلم‘‘ نہیں بنے گا تو اس نے سیٹھ نانو بھائی ڈیسائی سے کہا کہ آپ یہ کہانی مجھے دے دیجئے، میں اپنا سب کچھ بیچ کر اس کے فلمانے پر لگا دوں گا مگر ایسی نوبت نہیں آئی۔ نانو بھائی کو کہانی پسند تھی چنانچہ کسی نہ کسی طرح سرمائے کا بندوبست ہوگیا۔ فلم کے ڈائریکٹر دادا گنجال تھے۔۔۔ گجراتی۔ فلم مکمل ہو کر ریلیز ہوگیا۔ لوگوں نے اس کی تعریف کی، پسند کیا مگر میں مطمئن نہیں تھا لیکن اس کا میرے موضوع سے کوئی اتنا زیادہ تعلق نہیں۔ مجھے صرف یہ کہنا تھا کہ اس دوران میں نذیر کو اپنی ذاتی فلم کمپنی قائم کرنے کی خواہش پیدا ہوگئی۔ اسی زمانے میں یاسمین اس سے رخصت ہونے کی تیاریاں کررہی تھی۔

    نذیر عزم کا مالک ہے۔ اس نے بہت جلد اپنا ذاتی فرم بنانے کا ارادہ کرلیا چنانچہ جہاں تک میرا حافظہ کام دیتا ہے اس کا پہلا فلم’’سندیسہ‘‘ تھا۔

    اس کے بعد اس نے اپنا دوسرا فلم بنایا جس کا نام غالباً ’’سوسائٹی‘‘ تھا، اس میں اس نے ستارہ کو بھی کاسٹ میں شامل کیا اور جو نتیجہ ہوا، وہ ظاہر ہے کہ وہ دونوں ایک دوسرے میں مدغم ہوگئے اور بہت دیر تک رہے لیکن اس دوران میں جہاں تک میں جانتا ہوں، ستارہ اپنے پرانے دوستوں کے ہاں بھی آتی جاتی رہی۔ پی این اروڑہ کے پاس وہ اکثر جاتی تھی۔

    میں آپ کو ایک دلچسپ لطیفہ سناؤں، مجھے بمبئی چھوڑ کر دہلی جانا پڑا۔ وہاں میں نے آل انڈیا ریڈیو کی ملازمت اختیار کی۔ قریب قریب ایک سال تک میں بمبئی کی فلمی دنیا کے حالات و کوائف سے غافل رہا۔ ایک دن اچانک میں نے نئی دلی میں اروڑہ کو دیکھا۔ ہاتھ میں موٹی چھڑی، کمر دوہری ہورہی تھی، یوں بھی بے چارہ منحنی قسم کا انسان ہے مگر اس وقت بہت خستہ حالت میں تھا۔ بڑی مشکل سے قدم اٹھا رہا تھا جیسے اس میں جان ہی نہیں۔ میں ٹانگے میں تھا اور وہ پیدل غالباً چہل قدمی کے لئے نکلا تھا۔ میں نے ٹانگہ روکا اور اس سے پوچھا کہ یہ قصہ کیا ہے ،اس کا حلیہ کیوں اتنا بگڑا ہوا ہے۔ اس نے ہانپتے ہوئے مگر ذرا پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا، ’’ستارہ۔۔۔ منٹو ستارہ‘‘ میں سب سمجھ گیا۔ میرا خیال ہے کہ آپ کو بھی سمجھ جانا چاہیے۔

    اب ایک اور لطیفہ سنئے، الناصر جو اب تک بہت موٹا اور بھدا ہوگیا ہے۔ جب وہ شروع شروع میں فلم سٹی آیا تھا تو بہت خوبصورت تھا، بڑا نرم و نازک، سرخ و سپید۔ ڈیرہ دون کی پہاڑی فضانے اس کو نکھار دیا تھا، میں تو یوں کہوں گا کہ وہ نسائیت کی حد تک خوبصورت تھا، اس میں وہ تمام ادائیں تھیں جو ایک خوبصورت لڑکی میں ہوسکتی ہیں۔ میں جب دہلی میں ڈیڑھ برس گزارنے کے بعد سید شوکت حسین رضوی کے بلانے پر بمبئی پہنچا تو اس سے میری ملاقات منروامودی ٹون میں ہوئی۔ وہ گیٹ کے باہر کھڑا تھا۔ میں حیرت زدہ تھا۔ گالوں کا گلابی رنگ ندارد جسم پر پتلون ڈھیلی ڈھالی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ سکڑ گیا ہے، نچڑ گیا ہے۔ میں نے اس سے بڑے تشویش بھرے لہجے میں پوچھا، ’’میری جان! یہ تم نے اپنی کیا حالت بنا لی ہے۔‘‘ اس نے اپنا منہ میرے کان کے پاس لاکر سرگوشی میں کہا، ’’ستارہ۔۔۔میری جان۔۔۔ ستارہ۔‘‘

    جہاں دیکھو ستارہ۔۔۔ میں نے سوچا کہ یہ ستارہ صرف زردیاں پیدا کرنے کے لیے پیدا ہوئی ہے۔ ادھر پی این اروڑہ انگلینڈ کا تعلیم یافتہ صدا بند، ادھر ڈیرہ دون اسکول کا پڑھا ہوا نوخیز لڑکا۔

    الگ لے جا کر جب میں نے اس سے پوری تفصیل پوچھی تو اس نے مجھے بتایا کہ وہ ستارہ کے چکر میں پڑ گیا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بیمار ہوگیا ہے۔ جب اس کو اس بات کا احساس ہوا کہ اگر وہ زیادہ دیر تک اس چکر میں رہا تو وہ ختم ہو جائے گا تو وہ ایک روز ٹکٹ کٹا کر ڈیرہ دون چلا گیا، جہاں اس نے تین مہینے ایک سینے ٹوریم میں گزارے اور اپنی کھوئی ہوئی صحت کسی حد تک حاصل کی، اس نے مجھ سے یہ بھی کہا کہ وہ اس دوران میں مجھے ہندی زبان میں بڑے لمبے لمبے خط لکھتی رہی لیکن میں یہ خط پڑھ نہیں سکتا تھا البتہ ان کی آمد سے کانپ کانپ ضرور جاتا تھا، اس نے پھر میری کان میں کہا، ’’منٹو صاحب! بڑی عجیب و غریب عورت ہے۔‘‘

    ستارہ اصل میں ہے ہی عجیب و غریب عورت، ایسی عورتیں لاکھ میں دو تین ہوتی ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ وہ کئی مرتبہ خطرناک طور پر بیمار ہوئی، اس کو ایسے ایسے عارضے لاحق ہوئے کہ عام عورت کبھی جانبر نہ ہوسکتی مگر وہ ایسی سخت جان ہے کہ ہر بار موت کو غچہ دیتی رہی۔ اتنی بیماریوں کے بعد خیال تھا کہ اس کے ناچنے کی قوتیں سلب ہوجائیں گی مگر وہ اب بھی اپنے عہد جوانی کی طرح ناچتی ہے۔ ہر روز گھنٹوں ریاض کرتی ہے۔ مالشئے سے تیل کی مالش کراتی ہے اور وہ سب کچھ کرتی ہے جو پہلے کرتی آئی ہے۔ اس کے گھر میں دو نوکر ہوتے ہیں، ایک مرد، ایک عورت، مرد عام طور پر اس کا مالشیا ہوتا ہے، جو عورت ہے اس کے متعلق میں صرف اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ وہ پرانی کہانیوں کی کٹنی معلوم ہوتی ہےجو آسمان میں تھگلی لگایا کرتی تھیں۔

    وہ ململ کی باریک ساڑی پہنتی ہے۔ اتنی باریک کہ اس کا سارا ڈھیلا ڈھالا جسم اس میں سے چھن چھن کر باہر آتارہتا ہے اور دیکھنے والوں کے لیے کراہیت کا موجب ہوتا ہے۔ یہ عورت میں نے جب بھی دیکھی بہت کم گو، مگر بڑی تیز نظر دیکھی۔ اس کی عمر کم از کم پچپن برس کے قریب ہوگی مگر وہ جوانوں کی مانند چاق و چوبند تھی۔ اس کی آنکھیں عقاب کی طرح دیکھتی تھیں۔

    جب ستارہ اکیلی تھی یعنی وہ کسی ایک کی ہو کے نہیں رہتی تھی تو اس کا مکان دادر کے ’’خداداد سرکل‘‘ میں تھا اور جو صفتیں یا قباحتیں ستارہ میں ہیں، وہ بھی خداداد ہیں۔ نذیر جو اب سورن لتا سے منسلک ہے، بڑی خوبیوں کا مالک ہے۔ اس نے بہت دیر تک ستارہ کو برداشت کیا مگر جیسا کہ میں اس سے پیشتر عرض کرچکا ہوں وہ ایک مرد کی عورت نہیں ہے۔ چنانچہ جب نذیر تنگ آگیا اور اس کو حتمی طور پر معلوم ہوگیا کہ وہ اس سے نباہ نہیں کرسکتا تو اس نے ایک روز اس سے ہاتھ جوڑ کر کہا،’’ستارہ مجھے بخش دو۔ مجھ سے جو غلطی ہوگئی میں اس کے لیے پشیمان ہوں اور تم سے معافی کا خواستگار۔‘‘

    نذیر ستارہ کو مارا پیٹا کرتا تھا۔ وہ اس سے ناخوش نہیں تھی۔ ایسی عورتیں زدوکوب سے ایک خاص قسم کی جنسی لذت محسوس کرتی ہیں مگر ان سے منسلکہ مرد کب تک ہاتھا پائی کرتا رہے۔ وہ غریب بھی ایک عرصے کے بعد عاجز آجاتا ہے۔ اب اسی سلسلے کی ایک اور کڑی کے متعلق بھی سنئے۔

    جس زمانے میں ستارہ نذیر کے یہاں تھی اسی زمانے میں نذیر کا بھانجا کےآصف بھی وہیں تھا۔ کے آصف بڑا تنومند تھا۔ بڑا ہٹا کٹا، جوانی سے بھرپور جس کو عورت ذات سے شاید کبھی سابقہ ہی نہیں پڑا تھا، اپنے ماموں کے ہاں رہتا تھا اور اس سے فلمی صنعت کے متعلق واقفیت حاصل کررہا تھا۔ دل میں سیکڑوں ولولے تھے، بڑے ارمان تھے، پھر فلمی دنیا میں آکر اس نے عورتوں (اور وہ بھی ایکٹرسوں) کو قریب سے دیکھا تھا۔ اس کے علاوہ اس نے اپنے ماموں نذیر اورستارہ کے باہمی تعلقات بھی اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کےآصف کی جوانی پھوٹی پڑتی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب مرد اپنی جوانی کے جوش میں پتھروں کی دیوار سے بھی بھڑ جانا چاہتا ہے اور ستارہ یقیناً ایک پتھریلی دیوار تھی جو کسی سے ٹکرانا چاہتی تھی۔

    نذیر اس زمانے میں رنجیت فلم اسٹوڈیوکے عین سامنے ایک احاطے کے اندررہتا تھا۔ بڑی غلیظ سی جگہ تھی۔ نذیر نے ایک پورا فلیٹ لے رکھا تھا۔ اسی میں اس کی قائم کی ہوئی’’ہندپکچرز‘‘ کا دفتر بھی تھا۔ دو تین کمرے تھے، ان میں تخلیہ کیا ہوسکتا ہے ۔چنانچہ پر جوش نوجوان آصف کو ہر وہ پہلو دیکھنے کا موقع ملا جو مرد و زن کے باہمی تعلقات سے وابستہ ہوتا ہے۔

    نوجوان آصف کے لیے یہ ایک نیا تجربہ تھا۔ بڑا حیرت انگیز، اس نے اپنے شادی شدہ دوستوں سے ازدواجی زندگی کے اسرار کئی بار سنے تھے مگر اسے کبھی تعجب نہیں ہوا تھا۔ اس کو معلوم تھا کہ ایک بستر ہوتا ہے جس پر انسانی فطرت اپنی ازلی و ابدی کھیل کھیلتی ہے مگر آصف کی آنکھوں نے جو کچھ ایک بار محض اتفاق سے دیکھا وہ بالکل مختلف تھا۔ بڑا خوفناک جس نے اس کی ہڈی ہڈی جھنجھوڑ دی۔ اس نے کئی بار کتوں کی لڑائی دیکھی تھی جو ایک دوسرے سے بڑے وحشت ناک طریقے پر گتھ جاتے تھے۔ ایک دوسرے کو جھنجھوڑتے، بھنبھوڑتے، کاٹتے اور نوچتے تھے۔۔۔ اس کا تن بدن لرز گیا۔ اس نے سوچا یہ محبت و حبت سب بکواس ہے۔ اصل میں انسان درندہ ہے اور اس کی محبت ایک بڑی خوف ناک قسم کی کشتی، مگر اس اکھاڑے میں اترنے اور ایسی کشتی لڑنے کا شوق ضرور تھا، اس کے بازوؤں میں قوت تھی، اس کے بدن میں حرارت تھی، اس کے تمام پٹھے فولادی تھے۔ اس کی خواہش تھی کہ صرف ایک بار اسے موقع دیا جائے تو وہ حریف کو چاروں شانے چت گرادے۔

    اس زمانے میں ڈائریکٹر نیر (پاکستان کا ذہین مگر بدقسمت ڈائریکٹر) بھی نذیر کے ساتھ تھا۔آصف اور وہ دونوں ہم عمر تھے۔ دونوں کنوارے اور خوابوں کی دنیا میں بسنے والے، آپس میں ملتے تو عورتوں کی باتیں کرتے، ان عورتوں کی جو مستقل میں ان کی ہونے والی تھیں، پر جب ستارہ کا ذکر آتا تو وہ دونوں کانپ اٹھتے اور ایک ایسی دنیا میں چلے جاتے جہاں جن، دیو اور چڑیلیں رہتی ہیں۔

    ان کو کیا معلوم کہ ’’نیفومینک‘‘ عورت کیا ہوتی ہے۔ ان کو کیا معلوم کہ ستارہ کے مقابلے میں ایسی عورتیں بھی ہیں جنہیں اگر برف کی سہل کہا جائے تو بجا ہے۔لیکن ان کو اتنا معلوم تھا کہ ستارہ نذیر کے ساتھ وفادار نہیں وہ ہرجائی ہے۔ یوں تو نذیر کی ’’ہول ٹائم‘‘ داشتہ کے طور پر رہتی ہے مگر پی این اروڑہ کے پاس بھی جاتی ہے اور کبھی کبھی اپنے پتی ڈیسائی کے پاس بھی جو بے چارہ بڑے حسرت کے دن گزار رہا تھا۔۔۔ اور پھر اور بھی تھے جن میں الناصر بھی شامل تھا۔

    دونوں چکرائے چکرائے رہتے تھے، ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ نذیر کے بستر کی ہر شکن کا پس منظر ان کو معلوم تھا۔ نذیر کے کھردرے اور گہرے سانولے رنگ کے چہرے کی گینڈے ایسی سخت کھال پر جو آئے دن داغ دھبے پڑتے تھے، اس کا جواز بھی ان کو معلوم تھا لیکن اس قدر دونوں کو یقین تھا کہ یہ سلسلہ زیادہ دیر تک نہیں چلے گا ،مگر وہ چلتا رہا اپنے معمول کے مطابق۔

    صبح سویرے ستارہ اٹھتی اور دوسرے کمرے میں ریاض شروع کردیتی۔ یہ بھی حیرت ناک چیز تھی کہ صبح اٹھتے ہی دو گھنٹے لگاتار وہ وحشیوں کی مانند ناچتی رہے۔ ایسے ایسے توڑے لے کہ زمین گھوم جائے۔ طبلچی کے ہاتھ شل ہو جائیں مگر اسے کچھ نہ ہو۔ ریاضت کے بعد وہ اپنے مخصوص مالشئے سے مالش کراتی تھی۔ اس کے بعد نہا دھو کر وہ نذیر کے کمرے میں جاتی جو کہ سورہا ہوتا۔ اس کو جگاتی اور اپنے ہاتھ سے دودھ یا خدا معلوم کس چیز کا ایک پیالہ اسے زبردستی پلاتی اور دوسرا ناچ شروع ہوجاتا۔ یہ سب کچھ آصف اور نیرکی آنکھوں کے سامنے ہورہا تھا۔ ان کی عمر تجسس کی عمر تھی جب آدمی خالی کمروں میں بھی خواہ مخواہ کھڑکی، درزوں سے جھانک کر دیکھتا ہے۔ روشن دانوں سے بھرے کمروں کا جائزہ لیتا ہے۔ ذرا سی آواز آنے پر اس کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہ ان میں معانی بھرنے کی کوشش کرتا ہے۔

    نیر، آصف کے مقابلے میں جسمانی لحاظ سے بہت کمزور تھا۔ اس کی جنسی خواہشیں بھی اسی لحاظ سے معتدل تھیں مگر آصف کے مضبوط اور تنومند جسم کی رگ رگ میں بجلی بھری ہوئی تھی جو کسی پر گرنا چاہتی تھی، اسی لیے آصف چاہتا تھا کہ اندھیری رات ہو، آسمان پر کالے بادلوں کا ہجوم ہو، کان بہرے کردینے والی بجلی کی کڑک اور طوفان بادوباراں میں وہ کسی کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لے اور اسے کھینچتا کہیں دور لے جائے جہاں پتھروں کا بستر ہو۔

    نذیر کا عزیز ہونے کے باعث ستارہ گھنٹوں آصف کے پاس بیٹھی رہتی اور ادھر ادھر کی باتیں کرتی رہتی تھی۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا آصف کا حجاب کم ہوتا گیا جو وہ لاہور سے اپنے ساتھ لایا تھا، مگر اس کو اتنی جرأت نہیں تھی کہ وہ ستارہ کو ہاتھ لگاتا کیوں کہ وہ اپنے ماموں کی سخت گیر طبیعت سے واقف تھا اور اس سے ڈرتا تھا۔ لیکن اس دوران میں اتنا جان گیا تھا کہ ستارہ اس کی طرف مائل ہے۔ وہ جب بھی چاہے اس کی کلائی اپنے مضبوط ہاتھ میں پکڑ کر اسے جہاں چاہے لے جاسکتا ہے۔۔۔ مگر وہ گھپ اندھیری رات، وہ طوفانِ بادو باراں اور وہ پتھروں کا بستر!

    آصف جھنجلا رہا تھا کہ قدرت اتنی تعویق کیوں کررہی ہے، جو ہونا ہے آج ہی کیوں نہیں ہو جاتا۔ گاڑیاں جنہیں کل ایک دوسرے سے ٹکرانا ہے، آج ہی کیوں نہیں ٹکرا جاتیں، مگر یہ کیسے ہوتا جب کانٹا بدلنے والا کانٹا نہ بدلتا۔

    وہ دو گاڑیوں کی طرح ایک پلیٹ فارم پررکتے تھے مگر ان میں فاصلہ ہوتا تھا۔ بہت معمولی سا فاصلہ مگر جس طرح ایک گاڑی دوسری گاڑی سے ہمکنار نہیں ہوسکتی، اس لیے کہ وہ اپنی اپنی پٹریوں کے ساتھ جکڑی ہوتی ہیں۔ اسی طرح وہ بھی ایک دوسرے سے ہمکنار نہیں ہوسکتے تھے۔

    جس طرح ادھر کے مسافر ادھر کے مسافروں سے کھڑکیوں میں سے سر باہر نکال نکال کر باتیں کرتے ہیں اسی طرح وہ بھی کرتے تھے مگر فوراً ایک گاڑی ادھر روانہ ہوجاتی اور دوسری ادھر، آصف کو بڑی جھنجلاہٹ ہوتی تھی مگر وہ گپ اندھیری رات اور طوفان بادو باراں کا منتظر تھا۔

    آخروہ گھپ اندھیری رات، طوفانِ بادو براں، رعد و برق کی جملہ ہولناکیوں کے ساتھ آہی گئی۔

    بالآخر ستارہ کے کرتوت دیکھ کر نذیر بھونچکا رہ گیا۔

    نذیر کے سر سے اب پانی گزر چکا تھا۔ کافی لعن طعن کے بعد اس نے ستارہ سے کہا اب تم یہاں نہیں رہ سکتیں۔ اپنا بستر فوراً گول کرو۔ستارہ، کچھ بھی ہو، آخر عورت ذات ہے۔ نذیر کی سرزنش کے بعد اس میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ اکیلی اپنا بستر گول کرسکتی۔ نذیرسے وہ کیسے مدد مانگتی۔ وہ غصے میں بپھرا، منہ میں جھاگ نکالتا باہر نکل کر اپنے دفتر میں جا بیٹھا۔ آصف نے اس کے یہ تیور دیکھے تو اس کو یقین ہوگیا کہ وہ اندھیری رات آگئی۔

    تھوڑی دیر وہ خاموش بیٹھا رہا، اس کے بعد اٹھا اور آہستہ آہستہ دوسرے کمرے میں پہنچ گیاجہاں ستارہ پلنگ پر بیٹھی اپنی چوٹیں سہلا رہی تھی۔

    چند باتوں ہی سے اس کو معلوم ہوگیا کہ معاملہ ختم ہے۔ دل ہی دل میں وہ بہت خوش ہوا۔ چنانچہ اس نے ستارہ کو ڈھارس دی، کچھ اس طور پر کہ ایک نیا معاملہ شروع ہوگیا۔ آصف نے اس کا بستر بوریا باندھا اور اس کے ساتھ اس کے گھر واقع دادر (خداداد سرکل) چھوڑنے گیا۔

    یہاں ستارہ نے آصف کا بہت بہت شکریہ ادا کیا۔آصف نے جرأت سے کام لے کر ستارہ کا ہاتھ پکڑ لیا اورکہا، ’’اس کی کیا ضرورت تھی ستارہ۔‘‘

    ستارہ نے اپنا ہاتھ آصف کی گرفت سے چھڑانے کی کوشش نہ کی مگر آصف مطمئن نہ تھا۔ تھوڑی دیر رازونیاز کی باتیں ہوئیں۔ ستارہ نے آصف کو اپنے اس سحر کا نمونہ چکھایا جس سے وہ اس وقت تک سیکڑوں مرد، دبلے پتلے، ہٹے کٹے، ضدی اور وحشی اپنی خواہشات کا غلام بنا چکی تھی۔

    اگر دن ہوتا تو آصف کو یقیناً تارے نظر آجاتے مگررات کو اسے خداداد سرکل کے اس فلیٹ میں دن طلوع ہوتا نظر آیا۔۔۔ اس کی مسرتوں کا دن، مگر وہ پھر بھی مطمئن نہیں تھا۔ اس نے ستارہ سے کہا کہ دیکھو، تمہارا میرا سمبندھ بہت مضبوط ہوجانا چاہیے۔ ہرجائی پن چھوڑو، بس ایک کی ہو جاؤ۔

    ستارہ نے اسے یقین دلایا کہ وہ آصف کے سوا کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھے گی۔ آصف مطمئن ہوگیا مگر اس خوف سے کہ نذیر اس سے اتنی دیر لگانے کی وجہ نہ پوچھ بیٹھے، عاشق صادق کی طرح اس کا ہاتھ چوم کر چلا گیا اور وعدہ کرگیا کہ وہ دوسرے روز ضرور آئے گا۔ وہ گیا، تو ستارہ اٹھی، سنگار میز کے پاس جا کر اس نے اپنے بال درست کیے، ساڑی تبدیل کی اور کسی کی طرف آنکھ اٹھائے بغیر نیچے اتری اور ٹیکسی لے کر پی این اروڑہ کے پاس چلی گئی۔

    جملہ معترضہ ہے لیکن ہوا کرے۔ کہنا یہ ہے کہ ستارہ کو مجھ سے سخت نفرت تھی۔ میں مصور کا ایڈیٹر تھا اور بے لاگ لکھتا تھا۔ ’’بال کی کھال‘‘ اور’’نت نئی‘‘ کے کالموں میں کئی بار میں نے اس کی درگت بنائی تھی لیکن بڑے سلیقے سے۔ اس میں کوئی سوقیانہ پن نہیں تھا۔ پھر بھی وہ ناراض تھی اور مجھے اس ناراضی کی سچ پوچھئے تو کوئی پروا بھی نہیں تھی، اس لیے کہ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں تھی اور یوں بھی فلمی ہستیوں سے دور دور ہی رہتا تھا۔

    میں نے’’نت نئی‘‘ یا ’’بال کی کھال‘‘ کے کالموں میں جب نذیر اور اس کی لڑائی کا ذکر ذرا نمک مرچ لگا کر کیا تو وہ بہت سیخ پا ہوئی اور اس نے مجھے خوب گالیاں دیں۔اس کے بعد جب مجھے اپنے جاسوسوں کے ذریعے سے آصف اور اس کے خفیہ معاشقے کا پتہ چلا اور میں نے چبھتے ہوئے اشاروں اور کنایوں میں اس کا ذکر اپنے کالموں میں کیا تو وہ بِھنا گئی اور اس نے آصف سے کہا، ’’تم اس شخص کو پیٹتے کیوں نہیں، خود نہیں پیٹتے تو کسی سے پٹواؤ یا کسی اور اخبار والے کہو کہ وہ اسے اپنے اخبار میں ڈھیروں کے ڈھیر گالیاں دے۔‘‘ آصف، بڑے ظرف کا آدمی ہے۔ اس میں برد باری ہے، تحمل ہے، مذاق سمجھنے کی اہلیت رکھتا ہے، حالانکہ ان پڑھ ہے اس نے ستارہ کی یہ باتیں اس کان سے سنیں، اس کان سے نکال دیں۔

    معاملہ اب زیادہ نزاکت اختیار کرگیا تھا۔ یہ تو آپ کو معلوم ہو چکا ہے کہ ستارہ کس قسم کی عورت ہے۔ اگر اس سے کسی مرد کا واسطہ پڑ جائے تو اس کی رہائی مشکل ہو جاتی ہے۔ فقط ایک الناصر ہی تھا جو چند ماہ اس کے ساتھ گزار کر ڈیرہ دون بھاگ گیا ورنہ ایک روز اس کی انتڑیاں بالکل جواب دے جاتیں اور اس کی قبر بمبئی کے قبرستان میں بنی ہوتی۔ جس کے کتبے پر کچھ اس قسم کا شعر مرقوم ہوتا

    لحد پر مری وہ پردہ پوش آتے ہیں

    چراغ گور غریباں، صبا بجھا دینا

    ہاں تو معاملہ بہت نزاکت اختیار کرگیا تھا اس لیے کہ نذیر کے دل میں شکوک پیدا ہورہے تھے۔ وہ سوچتا تھا، یہ میرا بھانجھا، اتنی اتنی دیر کہاں غائب رہتا ہے جب وہ اس سے پوچھتا تھا وہ کوئی بہانہ پیش کردیتا۔مگر یہ بہانے کب تک چلتے۔ اس کا اسٹاک ایک روز ختم ہونا ہی تھا، نذیر کے دل میں ستارہ کے لیےاب کوئی جگہ نہیں تھا۔ وہ ایسا آدمی نہیں تھا کہ اپنا فیصلہ تبدیل کردے۔ اس کو ستارہ کی نہیں آصف کی فکر تھی۔ اپنے بھانجے کی جس کووہ اپنا عزیز سمجھتا تھا اور جس کو اس نے صرف اس غرض سے اپنے پاس رکھا تھا کہ وہ کچھ بن جائے۔

    البتہ اس کو فکر تھی کہ وہ کہیں اس عورت کے ہتھے نہ چڑھ جائے۔ وہ اس عورت کے ساتھ کئی برس گزار چکا تھا۔ اس کی رگ رگ اور نس نس سے واقف تھا۔ اس کومعلوم تھا کہ آصف جیسے نوجوان اس کا من بھاتا کھاجا ہیں اور ان کو اپنے دام میں پھنسانا اس ایسی تجربہ کار عورت کے لئے کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ لطف کی بات تو یہ ہے کہ وہ خود بخود اس کے دام کے نیچے آجاتے تھے۔ ایک بار پھنس جاتے تو پھر رہائی مشکل ہو جاتی تھی۔

    ستارہ سے کسی مرد کا سابقہ پڑ جائے اور اتفاق سے وہ ستارہ کو پسند آجائے تو پھردن اور رات کا بیشتر حصہ اسی کے ساتھ کاٹنا پڑتا ہے۔ نذیر کو آصف کی پے در پے غیر حاضریوں ہی سے پتہ چل گیا تھا مگر جب آصف کہتا کہ ماموں جان! یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں، میں اس کے متعلق تو سوچ بھی نہیں سکتا تو وہ شش و پنج میں پڑ جاتا لیکن دل میں اسے پورا یقین تھا کہ یہ لونڈا پھنس چکا ہے اور جھوٹ بول رہا ہے۔آصف واقعی جھوٹ بول رہا تھا۔ معاملہ اگر کسی اور عورت کا ہوتا تو وہ یقیناً کبھی جھوٹ نہ بولتا مگر ستارہ اس کے ماموں کی داشتہ تھی۔ اس کے ساتھ وہ ایسے تعلقات قائم نہیں کرسکتا تھا، وہ تعلقات جو قائم ہو چکے تھے۔

    پیچھے ہٹنا اور فرار اب بہت مشکل تھا۔ آصف اس ’’زن تسمہ پا‘‘ کی گرفت میں تھا۔ بھاگ نکلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا مگر ادھر نذیر کی آنکھوں میں برابر خون اتررہا تھا۔ اس کو بس ایک موقع چاہیے تھا۔ ایسا موقع کہ وہ سب کچھ خود اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ ایک روز نذیر نے وہ سب کچھ دیکھ بھی لیا جو وہ خود اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا تھا۔ میرا حافظہ ساتھ نہیں دیتا۔ مجھے سارے واقعات اچھی طرح معلوم تھے مگر اب اتنا عرصہ گزر گیا کہ بہت سی باتیں ذہن سے اتر گئی ہیں۔ وہ خون جو نذیر کی آنکھوں میں ایک عرصے سے اتر رہا تھا وہ اس وقت پی گیا اور ان دونوں پرٹوٹ پڑا۔

    آصف نے اپنے ماموں کو قسمیں کھا کھا کر یقین دلانے کی کوشش کی کہ وہ دونوں بے گناہ ہیں۔ ان کے درمیان ایسا کوئی رشتہ، ایسا کوئی تعلق نہیں جس کے لئے انہیں مور دعتاب بنایا جائے۔ نذیر اس وقت کچھ بھی سننے کے لئے تیار نہیں تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ مار مار کے ان دونوں کی ہڈیاں پسلیاں توڑ دینا چاہتا ہے تاکہ سارا قصہ ہی ختم ہو، مگر مجید (مشہور ایکٹر جواب پاکستان میں ہے) نے بڑی ہوشیاری سے بیچ بچاؤ کرایا۔

    مجید کو آصف اورستارہ کے معاشقے کا علم تھا۔ سنا ہے کہ اس نے آصف کو کئی بارمنتبہ کیا تھا کہ وہ اس خطرنا کھیل سے باز آجائے مگر جوانی کے وہ دیوانے دن جن میں سے آصف کی زندگی گزر رہی تھی، نہ مانے اور نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ جس راز کو وہ اپنی دانست کے مطابق بڑے دبیز پردوں کے اندر چھپائے بیٹھے تھے، فاش ہوگیا۔

    نذیر جیسا کہ میں اس سے پہلے عرض کر چکا ہوں، بہت سخت گیر آدمی ہے، مگر ایسے بہت کم آدمی ہیں جن کو معلوم ہے کہ وہ نرم دل بھی ہے۔ جو کام وہ خود کرتا ہے اس کی اچھائی برائی کا شعور رکھتا ہے، جو اوسط درجے کا آدمی نہیں رکھتا۔ وہ ستارہ سے ایک عرصے تک جسمانی طور پر وابستہ رہا لیکن وہ نہیں چاہتا تھا کہ یہ وابستگی آصف کی ستارہ سے بھی ہو۔

    آصف اس کا بھانجا تھا۔ کہا جاسکتا تھا کہ وہ اسی رشتے کی بنا پر آصف اور ستارہ کا ملاپ پسند نہیں کرتا تھا مگر میں جو نذیر کے کردار کے تمام ٹیڑھے ترچھے زاویوں سے واقف ہوں، وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر آصف کے بجائے کوئی اور آدمی ہوتا تو وہ اس سے بھی یہی کہتا کہ دیکھو اس عورت سے بچو۔ ایک صرف میں ہی تھا جسے اپنی توانائی اور قوت پر ناز تھا لیکن میں بھی ہار گیا۔نذیر خلوص کا پتلاہے۔ ایک ایسے خلوص کا جو ہر وقت بڑا درشت اور کھردرا لباس پہنے رہتا ہے۔

    نذیر نے مجید کے کہنے پر ستارہ اور آصف دونوں کو چھوڑ دیا اس لیے بھی کہ آصف نے اپنے ماموں کو یقین دلایا تھا کہ ان دونوں کے تعلقات بالکل پاک اورصاف ہیں۔ نذیر چلا گیا مگر وہ مطمئن نہیں تھا۔ بظاہر وہ ایک اکھڑ آدمی معلوم ہوتا تھا۔ شے لطیف سے کورا مگر وہ دوسروں کے دل کی گہرائیوں میں ایک ماہر غوطہ زن کی طرح اتر سکتا ہے اور پھر وہ ستارہ کی ایک ایک رگ سے واقف تھا۔ اس نے ایسی کئی منزلیں دیکھی تھیں جو آصف شاید ساری عمربھی نہ دیکھ سکھے۔ وہ مطمئن نہیں تھا۔

    اس حادثے کے بعد آصف اور ستارہ کے درمیان کچھ دیر باتیں ہوئیں۔ وعدے وعید ہوئے، قسمیں کھائی گئیں کہ وہ کبھی ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے وغیرہ وغیرہ۔ اس کے بعد آصف نے سچے عاشقوں کے انداز سے ستارہ سے رخصت لی اور چلا گیا۔ستارہ نے اپنا میک اپ درست کیا۔ نئے کپڑے پہنے اور ٹیکسی منگوا کر پی این اروڑہ کے پاس چلی گئی، جس کی صحت دہلی کے حکیموں کے علاج سے اب کسی قدر بحال ہو چکی تھی اور اس کے پچکے ہوئے گالوں میں تھوڑا سا گوشت آگیا تھا۔

    الناصر بھی تھا۔ ڈائریکٹرمحبوب بھی تھے اور خدا معلوم اور کتنے تھے۔ آصف گو ایک بہت ہی کڑے مرحلے سے گزر چکا تھا مگر اس نے ستارہ کے یہاں اپنی آمدورفت یکسر منقطع نہ کی اور وہ کر بھی کیسے سکتا تھا جب کہ پرانی جادوگرنیوں کی طرح اس جادوگرنی نے آصف کو ایک مکھی بنا کر اپنی دیوار کے ساتھ چپکارکھا تھا۔ اب صرف نجات کا ایک ہی راستہ تھا کہ پرانی کہانیوں کا کوئی شہزادہ سلیمانی تعویذ کے ذریعے سے اس جادوگرنی کا مقابلہ کرتا اور انجام کار آصف اس کے چنگل سے نکلتا۔

    میں جانتا ہوں اور اچھی طرح جانتا ہوں کہ طاقتور سے طاقتور سلیمانی تعویذ بھی ستارہ پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ وہ ایک ایسا حصار ہے جسے لندھور بھی سر نہیں کرسکتا۔ یہ چکر یونہی چلتا رہا۔ نذیر اور آصف کے تعلقات روز بروز کشیدہ ہوتے چلے جارہے تھے

    ہاں میں ایک بات کہنا بھول ہی گیا۔ جب نذیر نے ستارہ کا بستر گول کیا تھا تو رفیق غزنوی، مشہور موسیقار نے مفاہمت کی کوشش کی۔ اس نے ستارہ، اروڑہ اور نذیرکواپنے یہاں بلایا۔ شراب کے دور چلے، رفیق نے جو گفتار کا غازی ہے، بڑے فلسفیانہ انداز میں کئی پیگ شراب کے پلائے مگر کوئی صورت پیدا نہ ہوئی اور جب کوئی صورت پیدا نہ ہوئی تو خود بخود ایک صورت پیدا ہوگئی۔ رات بھر ستارہ رفیق کے فلیٹ میں رہی اور وہ اس کو سمجھاتا رہا کہ اب کوئی صورت پیدا نہیں ہوسکتی۔

    عجیب بات ہے کہ رفیق نے پھر مفاہمت کی کوشش نہ کی اور نہ ستارہ اس کے یہاں رات کو یہ سننے کے لیے گئی کہ اب کوئی صورت پیدا نہیں ہوسکتی۔ شاید اس لیے کہ ستارہ کے کسی توڑے میں رفیق کو ایک دو ماترے کم محسوس ہوئے ہوں گے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ستارہ نے یہ محسوس کیا ہو کہ رفیق سر سے ایک آدھ سوتر اوپر یا نیچے گاتا ہے۔۔۔ اس کے متعلق وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

    اب ہم پھر ستارہ اور آصف کی طرف پلٹتے ہیں۔ ستارہ اس پر بہت بری طرح لٹو تھی کہ وہ نوجوان خامکار تھا۔ اس کی زندگی میں ستارہ شاید سب سے پہلی عورت تھی۔کہا جاتا ہے کہ نذیر نے ایک بار پھر چھاپہ مارا اور دونوں کو عین موقع پر جا پکڑا۔ اس دفعہ کس نے بیچ بچاؤ کیا، اس کا مجھے علم نہیں۔ بہر حال معاملہ رفع دفع ہوگیا کیوں کہ آصف نے اپنے ماموں کو یقین دلا دیا کہ اس کے ستارہ کے درمیان ایسی ویسی کوئی بات نہیں۔ بہر حال آصف اور ستارہ کے سر سے آئی بلا ایک دفعہ پھر ٹل گئی مگر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک دن آصف غائب ہوگیا۔ دوسرے دن معلوم ہوا کہ ستارہ غائب ہے۔ استفسار پر معلوم ہوا کہ وہ کسی تیرتھ کی یاترا کرنے گئی ہے۔ اگر موسم حج کا ہوتا تو یار لوگ یقیناً اڑا دیتے کہ حضرت آصف حج کرنے گیے ہیں۔

    مجھے معلوم نہیں وہ دونوں کہاں گئے تھے مگر دہلی سے خبر موصول ہوئی کہ ستارہ مشرف بہ اسلام ہو چکی ہے اور اس کا اسلامی نام اللہ رکھی رکھا گیا، اوریہ کہ آصف نے اس سے باقاعدہ نکاح پڑھوالیا ہے۔اس کے ماموں نذیر پر اس کا کیا رد عمل ہوا، اس کے متعلق آپ خود سوچ سکتے ہیں مگر پر لطف بات یہ ہے کہ ہندوؤں کے قانون کے مطابق طلاق ہو ہی نہیں سکتی۔ عورت ایک دفعہ کسی مرد سے وابستہ ہو جائے تو سو حِیلے کرنے پر بھی خود کو اپنے پتی سے جدا نہیں کرسکتی۔ یوں وہ آوارہ گردی کرسکتی ہے، سیکڑوں مردوں کی آغوش کی زینت بن سکتی ہے مگر رہے گی اپنے پتی کی پتنی۔ اور یہ بھی ہے کہ ہندوعورت چاہے دوسرا مذہب اختیار کرلے مگر اس کی اصل پوزیشن میں فرق نہیں آسکتا۔ اس لحاظ سے گو ستارہ اللہ رکھی بن کربیگم کے آصف ہوگئی تھی مگر قانون کی نظروں میں وہ مسز ڈیسائی تھی۔ اس بیمار صورت ڈیسائی کی بیوی جو روٹی کمانے کے لیےبہت بری طرح ہاتھ پاؤں ماررہا تھا۔

    جب اس خبر کی تصدیق ہوگئی تو میں نے مصور کے کالموں میں جی بھر کے لکھا۔ قریب قریب ہر ہفتے اس نئے بیاہتا جوڑے کا ذکر ہوتا تھا۔ بڑے طنزیہ مزاحیہ اور افکاہیہ انداز میں۔ ماہ غسل یعنی ہنی مون منانے کے بعد جب یہ جوڑا بمبئی واپس آیا تو نذیر خون کے گھونٹ پی کے رہ گیا۔ ایک دفعہ مجھے ریس کورس جانے کا اتفاق ہوا۔ میں نے دیکھا کہ ہجوم میں سے آصف شارک سکن کے بے داغ سوٹ میں ملبوس، پھرتیلی ستارہ کی کمر میں ہاتھ دیے چلا آرہا ہے۔ جب وہ میرے قریب پہنچا تو وہ پہلے مسکرایا پھر ہنسنے لگا اور میری طرف ہاتھ بڑھا کر کہنے لگا، ’’بھئی خوب۔۔۔ بہت خوب، نمک مرچ اور بال کی کھال کے کالموں میں تم جو لکھ رہے ہو خدا کی قسم کی لاجواب ہے۔‘‘

    ستارہ تیوری چڑھا کر ایک طرف ہٹ گئی مگر آصف نے اس کی طرف کوئی توجہ نہ دی اور مجھ سے بڑے بلند بانگ خلوص کے ساتھ دیر تک باتیں کرتا رہا۔ میں اس سے پیشتر عرض کرچکا ہوں کہ وہ بڑے ظرف کا آدمی ہے اور ان پڑھ ہونے کے باوجود مزاح اور فکاہ سمجھنے کی اہلیت رکھتا ہے۔

    اب بمبئی میں ہر شخص کو جسے فلمی صنعت سے دلچسپی تھی، معلوم تھا کہ کوئی آصف ہے، جس سے ستارہ نے شادی کرلی ہے۔ بھنڈی بازار اور محمد علی کے ایرانی ہوٹلوں میں پنجاب اور یوپی کے مسلمان جو مسلم لیگ کی حمایت میں تھے۔ چائے کی پیالیاں سامنے رکھ کر اپنی بے پناہ مسرت کا اظہار کرتے تھے کہ میاں بھائی (مسلمان) نے ایک کافر عورت کو مسلمان کرکے اپنے عقد میں لے لیا۔

    بعض کہتے تھے کہ آصف کو اب اس سالی سے ایکٹنگ نہیں کرانی چاہیے۔

    بعض کہتے تھے کہ کوئی واندہ (حرج) نہیں مگر جب باہر نکلے تو پردہ ضرور کیا کرے۔

    بعض کہتے تھے ہٹاؤ یار۔۔۔ یہ سب اسٹنٹ ہے۔

    بہرحال جہاں تک میں سمجھتا ہوں، آصف ، ستارہ سے قانونی طور پر شادی کرچکا تھا مگر ایک عرصے کے بعد جب میں نے اس سے پوچھا، ’’کیوں دھانسو کیا واقعی ستارہ تمہاری منکوحہ بیوی ہے۔‘‘

    تو وہ ہنسا، ’’کیسا نکاح اور کیسی شادی؟‘‘

    اب اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اصل معاملہ کیا تھا اورکیا ہے۔

    آصف کا اپنا مکان کوئی بھی نہیں تھا۔ بس دونوں وہیں خداداد سرکل (دادر) میں رہتے تھے اور کھلے بندوں رہتے تھے۔ ستارہ کی موٹر تھی اس میں گھومتے تھے۔میرا خیال ہے، دہلی میں آصف نے شاید لالہ جگت نرائن کو اس بات پر آمادہ کرلیا تھا کہ وہ اسے ایک فلم بنانے کا سرمایہ دے۔ اس سے شاید اس نے کچھ ایڈوانس بھی لیا ہوگا جبھی تو وہ تنگدست نہیں تھا۔ آصف میں ایک بڑی خوبی ہے کہ خود اعتماد ہے۔ اس کے اندر احساس کمتری کا شائبہ تک موجود نہیں۔ وہ بڑے بڑے ڈائریکٹروں اور اسٹوری رائٹروں کے چھکے چھڑا سکتا ہے۔ محض اپنی خدادا قابلیت کی بدولت۔ اس خداداد قابلیت کو میں ’ہاؤس سنس‘ کہا کرتا تھا۔ آصف کے سامنے بھی، مگر اس نے کبھی برا نہ مانا۔

    آصف جب ڈائریکٹر بنا تو دوسرے تنگ خیال اور کم ظرف ڈائریکٹروں کے مانند اس نے اپنا حلقہ فکر و نظر محدود نہ رکھا۔ اس نے ہر دماغ کو دعوت دی کہ وہ کوئی اچھی چیز پیش کرے، جسے وہ بخوشی قبول کرلے گا۔ میں خدا معلوم کہاں کا کہاں چلا گیا مگر یہاں مجھے ایک لطیفے کاذکر کرنا اس لیے دلچسپ معلوم ہوتا ہے کہ میری ذات سے متعلق ہے۔

    آصف ان دنوں’’پھول‘‘ بنا رہا تھا۔ میں اپنے فلیٹ واقع کلیئر روڈ میں تھا کہ نیچے سے موٹر کی ہارن کی تابڑ توڑ آوازیں آئیں۔ میں نے بالکنی میں نکل کر دیکھا۔ ایک بہت بڑی موٹر نیچے کھڑی تھی۔ جب میں جنگلے پر پہنچا تو پچھلی سیٹ سے آصف نے کھڑکی سے اپنا وزنی سر باہر نکالا اور مسکرایا۔ میں نے اس سے کہا، ’’آؤ، کیا بات ہے؟‘‘

    اس نے دروازہ کھولا اور پچھلی سیٹ پر بیٹھی ستارہ سے کچھ کہا۔ اس کے بعد مجھ سے مخاطب ہوا، ’’آتا ہوں اور بتاتا ہوں۔‘‘ لمبی چوڑی موٹر کا انجن اسٹارٹ ہوا اوروہ چشم زدن میں اڈلفی چیمبرز کے احاطے سے باہر نکل گئی۔آصف نے سیڑھیوں کا رخ کیا۔میں نے دروازہ کھول دیا۔ ایک منٹ میں آصف اندر داخل ہوا اور بڑے پرجوش انداز میں مجھ سے ہاتھ ملا کر کہنے لگا، ’’میں تمہیں اپنی کہانی سنانے آیا ہوں۔‘‘

    میں نے ازراہ مذاق کہا،’’تمہیں معلوم ہے میں فیس لیا کرتا ہوں۔‘‘آصف نے کچھ نہ کہا، مجھ سے ہاتھ ملایا اور الٹے پاؤں واپس چلا گیا۔ میں نے اس کو آوازیں دیں۔ اس کے پیچھے دوڑتا گیا مگر اس نے میری ایک نہ سنی۔ بس اتنا کہا کہ وہ فیس لے کر آئے گا تو کہانی سنائے گا ورنہ نہیں ،میں بہت پشیمان ہوا کہ میں نے اس سے ایسا مذاق کیا۔ میں سمجھتا تھا کہ وہ میری اس بات کو اسی رنگ میں لے گا جس رنگ میں کہی گئی تھی مگرمعاملہ اس کے برعکس نکلا اور وہ چلا گیا۔

    میں اوپر آیا اور اپنی بیوی سے سارا قصہ بیان کیا تو اس نے صاف لفظوں میں کہا کہ یہ میری عین حماقت تھی اس لیے کہ آصف میرا بے تکلف دوست نہیں تھا، اور یہ واقعہ ہے کہ اس کے اور میرے مراسم کچھ زیادہ نہیں تھے۔ چونکہ وہ اور میں طبعاً صاف گو، دل شکن حد تک صاف گو ہیں اس لیے میں نے جب اس سے فیس کا مذاق کیا تھا تو میرے دل و دماغ میں کوئی ایسی بات نہیں تھی جس سے مجھے اس کے جذبات مجروح کرنا مطلوب تھے اور نہ میں ایسا بنیا ہوں کہ اس سے پہلے ہی روپے کا تقاضاکرتا۔ مجھے تو صرف کہانی سننا تھی اور بس۔

    اور میں کئی ڈائریکٹروں سے ان کی تھرڈ کلاس کہانیاں ایک نہیں چار چار مرتبہ سن چکا تھا کیوں کہ وہ میری رائے کے طالب ہوتے تھے۔ میں نے ان سے کبھی اپنے وقت کی (جو کہ ظاہر ہے ضائع ہوتا تھا) قیمت طلب نہیں کی۔ مجھے افسوس تھا کہ میں نے آصف کو ناراض کیا۔ میں اس کے متعلق سوچ ہی رہا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے دروازہ کھولا۔ ایک آدمی کھڑا تھا۔ اس نے ایک لفافہ میرے ہاتھ میں دیا اور چلا گیا۔ میں ابھی لفافہ کھول ہی رہا تھا کہ نیچے سے ہارن کی آواز آئی۔ میں نے بالکنی میں جا کر دیکھا۔ ستارہ کی گاڑی تھی اور وہ اڈلفی چیمبر کے گیٹ سے باہر نکل رہی تھی۔

    لفافہ کھول کرمیں نے دیکھا کہ سوسو کے پانچ نوٹ ہیں۔ ان کے ساتھ ایک مختصر سی تحریر تھی۔ ’’فیس حاضر ہے اب میں کل آؤں گا۔‘‘

    میں بھونچکا ہو کے رہ گیا۔دوسرے روز صبح نو بجے کے قریب وہ اسی کار میں آیا۔ ستارہ ساتھ تھی مگر وہ اوپر نہ آئی۔ آصف کو دستک دینے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی اس لیے کہ دروازہ کھلا تھا اور میں اس کے استقبال کے لیے دہلیز میں کھڑا تھا۔

    اس نے مجھے دیکھتے ہی کہا، ’’کیوں ڈاکٹر صاحب، فیس مل گئی آپ کو؟‘‘ میں بہت شرمندہ ہوا جس کا اظہار میں نے بڑے پرخلوص اور موزوں و مناسب الفاظ میں کیا اور وہ پانچ سو اس کو واپس کرنا چاہے۔

    آصف اپنے مخصوص انداز میں ہنسا اور صوفے پر اپنی نشست جما کر کہنے لگا، ’’منٹو صاحب! آپ کس خیال میں ہیں۔یہ پیسہ میرا ہے نہ میرے باپ کا۔ پروڈیوسر کا ہے، غلطی میری تھی جو میں بغیر فیس کے چلا آیا۔ حالانکہ میری نیت واللہ ہرگز یہ نہیں تھی کہ مفت کام کرایا جائے۔ آپ کا وقت یقیناً ضائع ہوگا اور اس کی قیمت بھی خدا کی قسم آپ کو فیس ضرور ملنی چاہیے لیکن اب چھوڑیئے اس بکواس کو اور کہانی سنئے۔‘‘

    اس نے مجھے کچھ اور کہنے کی مہلت نہ دی۔ وہ بڑے صوفے پر تھا۔ میں اس کے سامنے ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ آصف کو میں نے کبھی کہانی سناتے یا سنتے نہیں دیکھا تھا۔ اس نے اپنی بوسکی کی قمیص کی آستینیں اوپر چڑھائیں۔ پتلون کے اوپر کے بٹن جو پیٹی کا کام دیتے ہیں کھولے اور صوفے پر ایک آسن جمال کر کہانی سنانے کے انداز میں بیٹھ گیا، ’’ہاں تو کہانی سنئے۔عنوان ہے’پھول‘ کیا خیال ہے آپ کا عنوان سے متعلق؟‘‘

    میں نے کہا ، ’’اچھا ہے۔‘‘

    ’’شکریہ۔ اب آپ سنئے۔ میں آپ کو منظر بہ منظر سناتا ہوں۔‘‘

    اور اس نے اپنی کہانی جو خدا معلوم کس کی لکھی تھی، اپنے مخصوص انداز میں سنانا شروع کی۔ یہ مخصوص انداز کچھ اس قسم کا ہے کہ کہانی سنانے کے دوران میں وہ مداری پن کرتا ہے یعنی حسب ضرورت واقعات کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ خود بھی اترتا چڑھتا رہتا ہے۔ ابھی وہ صوفے پر، چند لمحات کے بعد اس کی پشت کی دیوار پر، دوسرے لمحے اس کا سر نیچےہے اور ٹانگیں اوپر اور دھم سے نیچے فرش پر۔ اس کے فوراً بعد کرسی پر اکڑوں بیٹھا ہے مگر فوراً اکٹھ کھڑا ہوا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ الیکشن میں کوئی آدمی ووٹ حاصل کرنے کے لیے تقریر کررہا ہے۔

    کہانی ختم ہوئی۔ بڑی لمبی کہانی۔ شیطان کی آنت کی طرح۔چند لمحات خاموش میں گزرے۔ اس کے بعد آصف نے مجھ سے پوچھا، ’’کیا خیال ہے، آپ کا کہانی کے متعلق؟‘‘

    میرے منہ سے یہ الفاظ خود بخود نکل گئے، ’’بکواس ہے۔‘‘

    آصف نے زور زور سے اپنے ہونٹ کاٹے اور بوکھلا کر صوفے کی پشت پر بیٹھ گیا اور غضب ناک لہجے میں پوچھا، ’’کیا کہا؟‘‘

    کوئی اور ہوتا تو بہت ممکن ہے لڑکھڑا جاتا مگر میں ہمیشہ ایسے معاملوں میں ثابت قدم رہا ہوں چنانچہ میں نے اور زیادہ مضبوطی سے کہا، ’’میں نے کہا تھا بکواس ہے۔‘‘

    آصف نے اپنے مداری پن سے مجھے متاثر کرنے کی بہت کوشش کی۔ مجھے فضول کی جھک جھک پسند نہیں تھی۔ وہ بہت اونچے سروں میں بولتا تھا۔ میں نے سوچا، اس کا علاج یہی ہے کہ ایک دفعہ میں بھی اپنے حلق کو کُھلی چھٹی دے دوں۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا، ’’سنئے آصف صاحب! آپ ایک بہت وزنی پتھر منگوائیے، اس کو میرے سرپر رکھیے اور اس پروزنی ہتھوڑے ماریے۔ خدا کی قسم! میں پھر بھی کہوں گا کہ آپ کی یہ کہانی بکواس ہے۔‘‘

    یہ سب کچھ میں نے بہت اونچے سروں میں کہا تھا۔ آصف صوفے کی پشت کی دیوار پر سے نیچے اتر آیا۔ آگے بڑھ کر اس نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اپنے ہونٹ چوستے ہوئے کہا، ’’خدا کی قسم! بالکل بکواس ہے، میں تم سے یہی سننے آیا تھا۔‘‘

    میں سمجھا شاید مذاق کررہا ہے لیکن چند لمحات کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ وہ قطعاً سنجیدہ تھا۔ چنانچہ ہم کہانی میں ترمیم و اصلاح کے متعلق سوچنے لگے۔

    لطیفہ ختم ہوا۔ یہ میری ذات سے یقیناً متعلق ہے مگر اس کے بیان سے مقصود صرف تھا کہ آپ کو آصف اور ستارہ کے کردار کا تقابل نظر آئے۔

    ایک زمانہ گزر گیا۔ آصف اور ستارہ میاں بیوی کی زندگی گزار رہے تھے مگر یہاں مجھے ایک اور لطیفہ یاد آگیا۔ جس زمانے میں آصف اور میری دوستی نہیں تھی اور اس کا تعلق بھی ستارہ کے ساتھ قائم نہیں ہوا تھا۔

    کےآصف صاحب کے چہرے پر بلامبالغہ دس ہزار کیلیں تھیں اور اتنے ہی مہاسے تھے۔ جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ جوانی کی نشانیاں ہیں۔ میں سوچتا تھا کہ اگر جوانی کی نشانیاں اتنی بدنما اور تکلف دہ ہیں تو خدا کرے کسی پر جوانی نہ آئے۔ ( مجھ پر اللہ کا شکر ہے کبھی آئی ہی نہیں)

    میں جب اس کے چہرے کی طرف دیکھتا جو کہ بلامبالغہ خانہ زنبور دکھائی دیتا تھا تو مجھے بڑی کوفت ہوتی۔ میں نیم حکیم بھی ہوں۔ اپنی دانست کے مطابق اور اپنے ڈاکٹر دوستوں سے مشورہ کرکے میں نے کئی دوائیں خرید کر اس کو دیں مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔ کیلیں اسی طرح موجود تھیں مگر جب ستارہ اس کی زندگی میں آئی تو چند مہینوں کے اندر اندر اس کا چہرہ بالکل صاف ہوگیا صرف نشان باقی رہ گیے تھے۔

    ایک اور لطیفہ سن لیجئے۔ بمبئے ٹاکیز میں کمال امروہی اور میں دونوں اکٹھے کام کررہے تھے۔ اس کی کہانی’’محل‘‘ کو فلم کے لئے موزوں و مناسب شکل دینے کے لئے سوچ بچار ہورہی تھی۔ اس دوران میں کمال کے داہنے گال پر ایک چھٹوی سی پھنسی نمودار ہوئی جو اس کو بہت تکلیف دینے لگی۔ اس نے تکلیف کا ذکر مجھ سے کیا۔ میں نے اس سے کہا، ’’ایک بڑا سہل علاج ہے اور تیر بہدف۔‘‘

    اس نے مجھ سے پوچھا، ’’کیا؟‘‘

    میں نے اس سے کہا، ’’تم ستارہ کا گھر جانتے ہو نا؟‘‘

    ’’ہاں ہاں، کیوں نہیں! ‘‘

    ’’تو ایسا کرو۔ اس کی سیڑھیوں کا ایک چکر لگا آؤ مگر دیکھو اندر نہیں جانا۔‘‘

    کمال ذہین آدمی ہے، میرا مطلب سمجھ گیا اور بہت دیر تک ہنستا رہا۔ لطیفے ختم ہوئے۔

    بہت دیر تک ستارہ اور آصف اکٹھے ازدواجی زندگی بسر کرتے رہے۔ اب دونوں غالباً ماہم کے ایک فلیٹ میں رہتے تھے۔ ہاں وہیں رہتے تھے ،کیوں کہ وہاں میرا کئی مرتبہ آنا جانا ہوا۔ لیڈی جمشید روڈ، جی ٹی روڈ کے چرچ کے سامنے ایک گلی تھی جس کے آخری سرے پر ایک تین منزلہ بلڈنگ، غالباً تیسری منزل پر ستارہ کا فلیٹ تھا۔مجھے یہاں جانے کا کئی بار اتفاق ہوا۔ ان دنوں آصف ’پھول‘ بنانے کے بعد غالباً’انار کلی‘ بنانے کی تیاری کررہا تھا۔ اس کی کہانی کمال امروہی نے لکھی تھی مگر وہ شاید اس سے مطمئن نہیں تھا کیوں کہ وہ کئی آدمیوں کو دعوت دے چکا تھا کہ وہ اس میں کچھ جدت پیدا کریں۔ میں بھی ان ہی لوگوں میں سے ایک تھا۔

    میں عام طور پرصبح آٹھ بجے کے قریب وہاں پہنچتا۔ دروازہ ایک بڑھیا کھولتی جو ململ کی باریک ساڑھی پہنے ہوتی۔ اسے دیکھ کر مجھے سخت کوفت ہوتی۔ مجھے ایسا معلوم ہوتا کہ دروازہ الف لیلیٰ کی کسی کٹنی نے کھولا ہے۔میں اندر جاتا اور صوفے پر بیٹھ جاتا۔ ساتھ والے کمرے سے جو غالباً خوابگاہ تھی۔ ایسی ایسی آوازیں آتیں کہ روح لرز لرز جاتی۔ تھوڑی دیر کے بعد آصف نمودار ہوتا۔ حسب عادت اپنے ہونٹ چاٹتے ہوئے۔ اس کی ہیئت کذائی دیکھنے کی چیز تھی۔ ململ کا کرتہ جگہ جگہ سے پھٹا ہوا ہے، گردن اور سینے پر نیل پڑے ہیں، بال پریشان ہیں، سانس پھولی ہوئی ہے، معمولی علیک سلیک ہوتی اور وہ فرش پر ڈھیر ہو جاتا۔ تھوڑی دیر کے بعد ستارہ، آصف کے لیے ایک پیالہ بھیجتی۔ جس میں معلوم نہیں کس چیز کی کھیر ہوتی۔ آصف آہستہ آہستہ بادل نخواستہ پیالہ ختم کرتا، اس کے بعد ہم اپنا کام شروع کردیتے جو زیادہ تر گپوں پر مشتمل ہوتا۔

    کافی عرصہ گزر گیا۔ ستارہ اور آصف کے تعلقات بڑے مستحکم نظر آتے تھے مگر ایک دم جانے کیا ہوا کہ یہ سننے میں آیا کہ آصف اپنے عزیزوں میں کسی لڑکی سے شادی کررہا ہے۔ تاریخ پکی ہوگئی اور وہ عنقریب اپنے دوستوں کے ساتھ لاہور روانہ ہونے والا ہے۔

    میں ان دنوں بہت مصروف تھا ورنہ اس سے مل کر ضرور دریافت کرتا کہ یہ کیا قصہ ہے لیکن مجھے اس کا موقع نہ ملا، لیکن ایک روز اس سے سرراہ ملاقات ہوگئی۔ میں نے سرسری طور پر اس سے پوچھا تو اس نے صرف اتنا کہا، ’’میں نے وہ قصہ ختم کردینے کی ٹھانی تھی۔ چنانچہ ہو جائے گا۔‘‘

    وہ کار میں تھا، میں پیدل تھا اور اس کو عجلت بھی تھی اس لیے زیادہ باتیں نہ ہوسکیں۔ چند روز کے بعد معلوم ہوا کہ آصف ایک بہت بڑی پارٹی کے ساتھ روانہ ہوگیا ہے۔ اس کے بعد یہ اطلاع ملی کہ لاہور میں اس کی شادی بڑے ٹھاٹ سے ہوئی۔ خم کے خم لنڈھائے گئے۔ مجرے ہوئے اور راگ رنگ کی کئی محفلیں جمیں، پھر سنا کہ آصف اپنی نئی نویلی دلہن کے ساتھ بمبئی پہنچ چکا ہے اور پالی ہل باندرہ میں اس نے ایک کوٹھی کا نصف حصہ کرائے پر اٹھا لیا ہے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ پوری کوٹھی نذیر کے پاس تھی جس نے آدھی اپنے بھانجے کو دے دی۔

    یہ بڑا خوشگوار انقلاب تھا۔ مجھے معلوم نہیں ستارہ کا رد عمل کیا تھا لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ اروڑہ کے ہاں وہ اکثر جایا کرتی تھی اور وہ بھی اس کے ہاں اکثر آیا کرتا تھا۔

    ان دنوں آصف پالی ہل میں رہتا تھا۔ نئی نویلی دلہن پاس تھی۔ میرا خیال ہے کہ وہ ان دنوں مغل اعظم کی تیاریوں میں مصروف تھا۔ اس کی کہانی کمال امروہی نے لکھی تھی مگر آصف اس سے مطمئن نہیں تھا۔ اس نے کئی انشا پردازوں سے مشورہ لیا تھا مگر وہ پھر بھی مطمئن نہیں تھا۔ اس ضمن میں آپ کو کئی لطیفے سنا سکتا ہوں مگر ان سے کوئی مطلب حل نہیں ہوگا۔ کہنا صرف یہ ہے کہ آصف اور اس کی نئی نویلی بیوی، سہرے جلوؤں کی بیاہی، چند روز اکٹھے رہے۔ اس کے بعد یہ دیکھنے میں آیا کہ آصف صاحب گھر سے غائب ہیں اور راتیں ستارہ کے ساتھ گزارتے ہیں۔یہ شادی زیادہ دیر تک قائم نہ رہی۔ نذیر کا نوجوان لڑکا بھی وہیں تھا۔ معلوم نہیں کیا ہوا کہ آصف نے اپنی بیوی کے پاس جانا چھوڑ دیا۔ ناچاقی ہوئی، اس کے بعد پتہ چلا کہ طلاق ہونے والی ہے اور اس دوران میں آصف برابر ستارہ کے یہاں جاتا تھا۔

    اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ستارہ کاریگر ہے۔ اس کا مقابلہ نئی نویلی دلہن نہیں کرسکتی۔ چنانچہ چند مہینوں کے بعد آصف کی دلہن اپنے گھر واپس چلی گئی اور بعد میں معلوم ہوا کہ طلاق ہوگئی ہے۔ اب پھر آصف اور ستارہ اکٹھے تھے۔ آصف کی بیاہتا بیوی کے متعلق کئی افسانے مشہور ہیں مگر میں ان کا ذکر کرنا نہیں چاہتا اس لیے کہ مجھے ان کی صداقت کے متعلق اچھی طرح علم نہیں۔میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ آصف نے بیاہ کیا۔ لاہور میں بڑے ٹھاٹ کی مجلسیں جمیں، اس کے بعد آصف اپنی بیوی کو لے کر بمبئی آیا۔ پالی ہل پر ٹھہرا اور دو تین مہینے کے اندر اندر اس نے اپنی بیوی کو چھوڑ دیا۔ اس کی وجہ ستارہ کے سوا اور کیا ہوسکتی تھی۔

    ستارہ مردم شناس عورت ہے۔ اس کووہ تمام ڈھب آتے ہیں جو مرد کو اپنے طرف راغب کرسکتے ہیں، بلکہ یوں کہیے کہ اسے دوسری عورتوں کے لیے بالکل ناکارہ بنا دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آصف نے اپنی بیوی کو چھوڑ دیا اور ستارہ کی آغوش میں چلا گیا اس لیے کہ اس میں کشش تھی۔

    آصف کی شادی اپنے خاندان میں ہوئی تھی۔ اس خاندان کے متعلق مختلف روایات مشہور ہیں لیکن میں ان کا تذکرہ کرنا نہیں چاہتا۔

    آصف نے اپنی بیاہتا بیوی کو چھوڑ دیا شاید اس لیے کہ اس میں وہ خصوصیتیں موجود نہیں تھیں جو ستارہ میں تھیں، شاید اس لیے کہ آصف کنواری لڑکی کا قائل نہیں تھا ۔بہر حال جو نتیجہ برآمد ہوا وہ ہر شخص کو معلوم ہے۔ آصف کی نئی نویلی دلہن چلی گئی اور آصف نے پھر سے ستارہ کے یہاں قیام شروع کردیا،اس قیام کے دوران میں عجیب و غریب افواہیں منتشر ہوئیں مگر ان کے متعلق کچھ کہنا نہیں چاہتا۔

    میں نے یہ مضمون لکھا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ آصف مجھ سے ناراض نہیں ہوگا اس لیے کہ وہ بڑے ظرف کا آدمی ہے، ستارہ یقیناً ناراض ہوگی۔۔۔ مگر وہ مجھے تھوڑی دیرکے بعد بخش دے گی اس لیے کہ اس کا ظرف بھی چھوٹا نہیں ہے۔ وہ بڑی قد آور عورت ہے ( حالانکہ اس کا قد بہت پست ہے) وہ مجھے معلوم نہیں کیسا آدمی سمجھتی ہے مگر میں اسے بحیثیت عورت کے ایسی عورت سمجھتا ہوں جو سو سال میں شاید ایک مرتبہ پیدا ہوتی ہے۔

    مأخذ:

    لاؤڈ اسپیکر (Pg. 37)

    • مصنف: سعادت حسن منٹو
      • ناشر: ساقی بک ڈپو، دہلی
      • سن اشاعت: 1987

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے