Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مرلی کی دھن

سعادت حسن منٹو

مرلی کی دھن

سعادت حسن منٹو

MORE BYسعادت حسن منٹو

    اپریل کی تیئس یا چوبیس تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد نہیں رہا۔ پاگل خانے میں شراب چھوڑنے کے سلسلے میں زیر علاج تھا کہ شیام کی موت کی خبر ایک اخبار میں پڑھی۔ ان دنوں ایک عجیب و غریب کیفیت مجھ پرطاری تھی۔ بے ہوشی اور نیم بے ہوشی کے ایک چکر میں پھنسا ہوا تھا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ہوش مندی کا علاقہ کب شروع ہوتا ہے اور میں بے ہوشی کے عالم میں کب پہنچتا ہوں۔ دونوں کی سرحدیں کچھ اس طرح آپس میں گڈ مڈ ہو گئی تھیں کہ میں خود کو ’’نومینزلینڈ‘‘ میں بھٹکتا محسوس کرتا تھا۔

    شیام کی موت کی خبر چنانچہ جب میری نظروں سے گزری تو میں نے سمجھا یہ سب ترکِ شراب کی کارستانی ہے، جس نے میرے ذہن میں ہلچل پیدا کر رکھی ہے۔ اس سے قبل نیم خوابی کے عالم میں کئی عزیزوں کی موتیں میرے لئے واقع ہو چکی تھیں اور نیم ہوش مندی کے وقت مجھے یہ بھی معلوم ہو چکا تھا کہ وہ سب کے سب زندہ ہیں اور میری صحت کے لئے دعائیں مانگ رہے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میں نے یہ خبر پڑھی تو ساتھ والے کمرے کے پاگل سے کہا، ’’جانتے ہو، میرا ایک نہایت ہی عزیز دوست مر گیا ہے۔‘‘

    اس نے پوچھا، ’’کون؟‘‘

    میں نے گلوگیر آواز میں جواب دیا، ’’شیام‘‘

    ’’کہاں؟ یہاں پاگل خانے میں؟‘‘

    میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ اوپر تلے کئی تصویریں میرے مضطرب دماغ میں ابھریں جن میں شیام تھا۔ مسکراتا شیام، ہنستا شیام، شور مچاتا شیام، زندگی سے بھرپور شیام، موت اور اس کی ہولناکیوں سے قطعاً نا آشنا شیام۔۔۔ میں نے سوچا جو کچھ میں نے پڑھا ہے بالکل غلط ہے۔۔۔ اخبار کا وجود میرے دماغ کی اختراع ہے۔

    آہستہ آہستہ الکحل کی دھند دماغ سے ہٹنے لگی اور میں تمام واقعات کو ان کے صحیح خد و خال میں دیکھنے لگا۔ مگر یہ عمل کچھ اس قدر سست رفتار تھا کہ جب میں شیام کی موت کے حادثے سے دوچار ہوا تو مجھے زبردست دھکا نہ لگا۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے وہ عرصہ ہوا مر چکا تھا اور اس کی موت کا صدمہ بھی عرصہ ہوا مجھے پہنچ چکا تھا، اب صرف اس کے آثار باقی تھے، صرف ملبہ رہ گیا تھا۔ آہستہ آہستہ جس کی کھدائی کر رہا تھا۔ شکستہ اینٹوں کے ڈھیر میں کہیں شیام کی مسکراہٹ دبی ہوئی مل جاتی تھیں، کہیں اس کا بانکا قہقہہ۔

    پاگل خانے سے باہر فرزانوں کی دنیا میں یہ مشہور تھا کہ سعادت حسن منٹو، شیام کی موت کی خبر سن کر پاگل ہو گیا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو مجھے بہت افسوس ہوتا۔ شیام کی موت کی خبر سن کر مجھے زیادہ ہوش مند ہو جانا چاہیے تھا۔ دنیا کی بے ثباتی کا احساس میرے دل و دماغ میں زیادہ شدید ہو جانا چاہئے تھا اور انتقامی جذبے کے تحت اپنی زندگی کو پوری طرح استعمال کرنے کا عزم میرے اندر پیدا ہو جانا چاہئے تھا۔۔۔ شیام کی موت کی خبر سن کر پاگل ہو جانا محض پاگل پن تھا۔

    تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد

    سرگشتہ خماررسوم و قیود تھا

    رسوم و قیود کے بتوں کو توڑنے والے شیام کی موت پر پاگل ہو جانا اس کی بہت بڑی توہین تھی۔

    شیام زندہ ہے اپنے دو بچوں میں جو اس کی بے لوث محبت کا نتیجہ ہیں۔ تاجی (ممتاز) میں جو بقول اس کے اس کی کمزوری تھی۔ اور ان تمام عورتوں میں جن کی اوڑھنیوں کے آنچل اس کے محبت بھرے دل پر گاہے گاہے سایہ کرتے رہے اور میرے دل میں جو صرف اس لیے سوگوار ہے کہ وہ اس کی موت کے سرہانے یہ نعرہ بلند نہ کرسکا، ’’شیام زندہ باد!‘‘ مجھے یقین ہے، موت کے ہونٹوں کو بڑے خلوص سے چومتے ہوئے اس نے اپنے مخصوص انداز میں کہا ہوتا، ’’منٹو۔۔۔ خدا کی قسم ان ہونٹوں کا مزا کچھ اور ہی ہے۔‘‘

    میں جب بھی شیام کے متعلق سوچتا ہوں تومجھے مشہور روسی ناول نویس آترتزبی شیف کا ہیروسینیائن یاد آجاتا ہے۔ شیام عاشق تھا، عشق پیشہ نہیں تھا۔ وہ ہر خوبصورت چیز پر مرتا تھا۔۔۔ میرا خیال ہے کہ موت ضرور خوبصورت ہوگی، ورنہ وہ کبھی نہ مرتا۔ اس کو تپش اورحدت سے پیار تھا۔ لوگ کہتے ہیں کہ موت کے ہاتھ ٹھنڈے ہوتے ہیں۔ میں نہیں مانتا۔ شیام ٹھنڈے ہاتھوں کا بالکل قائل نہیں تھا۔ اگر واقعی موت کے ہاتھ ٹھنڈے ہوتے تو اس نے یہ کہہ کر ایک طرف جھٹک دیے ہوتے۔

    ’’ہٹو بڑی بی۔۔۔ تم میں خلوص نہیں ہے؟‘‘

    مجھے ایک خط میں لکھتا ہے،

    قصہ یہ ہے جانِ من! کہ یہاں ہر ایک ’’ہیپ ٹلا‘‘ ہے۔ لیکن اصلی ’’ہیپ ٹلا‘‘ یہاں سے بہت دور لیکن میری پوچھتے ہو تو بھئی کوئی ایسی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ حرف شکایت لب پر لاؤں۔۔۔ زندگی خوب گزر رہی ہے۔۔۔ رندی و مے نوشی! مے نوشی ورندی! ساتھ ساتھ چل رہی ہے۔ تاجی (ممتاز) چھ مہینے کے عرصے کے بعد واپس آگئی ہے، وہ ابھی تک میری ایک بڑی زبردست کمزوری ہے اور تم جانتے ہو عورت کی محبت کی گرمی کی راحت محسوس کرنا کتنی فرحت انگیز چیز ہے۔۔۔! آخر میں انسان ہوں ایک نورمل انسان۔ نگار(نگار سلطانہ) کبھی کبھی ملتی ہے لیکن اولین حق’’ت‘‘ کا ہے۔ شاموں کو تمہاری’’دانش مندانہ بکواس‘‘ اکثر یاد آتی ہے۔

    شیام نے اس خط میں ایک لفظ ’’ہیپ ٹلا‘‘ استعمال کیا ہے۔ اس کی تشریح چونکہ خالی از دلچسپی نہیں، اس لئے آپ بھی سن لیجیے۔

    میں بمبئی ٹاکیز میں ملازم تھا۔ ان دنوں کمال امروہی کی فلمی کہانی’حویلی‘ ( جو ’محل‘ کے نام سے فلمائی گئی) کی تشکیل و تکمیل ہورہی تھی۔ اشوک، واچا، حسرت (لکھنوی) اور میں سب ہر روز بحث و تمحیص میں شامل ہوتے تھے۔ ان نشستوں میں کام کے علاوہ کبھی کبھی خوب زوروں پر گپ بھی چلتی تھی، ایک دوسرے سے مذاق ہوتے۔ شیام کو جب فلم’مجبور‘ کی شوٹنگ سے فراغت ہوتی تووہ بھی ہماری محفل میں شریک ہو جاتا۔

    کمال امروہی کو عام گفتگو میں بھی ٹھیٹھ قسم کے ادبی الفاظ استعمال کرنے کی عادت ہے۔ میرے لیےیہ ایک مصیبت ہوگئی تھی اس لیے اگر میں عام فہم انداز میں کہانی کے متعلق اپنا کوئی نیا خیال پیش کرتا تو اس کا اثر کمال پر پوری طرح نہیں ہوتا تھا۔ اس کے برعکس اگر میں زور دار الفاظ میں اپنا عندیہ بیان کرتا تو اشوک اور واچا کی سمجھ میں کچھ نہ آتا۔ چنانچہ میں ایک عجیب قسم کی ملی جلی زبان استعمال کرنے لگا۔

    ایک روز صبح گھر سے بمبئی ٹاکیز آتے ہوئے میں نے زمین میں اخبار کا اسپورٹس کالم کھولا۔ بڑے برن اسٹیڈیم میں کرکٹ میچ ہورہے تھے۔ ایک کھلاڑی کا نام عجیب و غریب تھا، ’’ہیپ ٹلا۔۔۔‘‘ ایچ، ای، پی، ٹی، یو، ایل، ایل، ایچ، اے۔۔۔ ہیپ ٹلا۔۔۔ میں نے بہت سوچاکہ آخر یہ کیا ہو سکتا ہے مگر کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ شاہد ہیبت اللہ کی بگڑی ہوئی شکل تھی۔

    اسٹوڈیو پہنچا تو کمال کی کہانی کی فلمی تشکیل کا کام شروع ہوا۔ کمال نے اپنے مخصوص ادیبانہ اور اثر پیدا کرنے والے انداز میں کہانی کا ایک باب سنایا۔ مجھ سے اشوک نے رائے طلب کی، ’’کیوں منٹو؟‘‘ معلوم نہیں کیوں، میرے منہ سے نکلا، ’’ٹھیک ہے۔۔۔ مگر ہیپ ٹلا نہیں!‘‘ بات کچھ بن ہی گئی، ’’ہیپ ٹلا‘‘ میرا مطلب بیان کر گیا۔ میں کہنا یہ چاہتا تھا کہ سیکونس زور دار نہیں ہے۔

    کچھ عرصے کے بعد حسرت نے اسی باب کو ایک نئے طریقے سے پیش کیا۔ میری رائے پوچھی گی تو میں نے اب کی دفعہ ارادی طور پر کہا، ’’بھئی حسرت بات نہیں بنی۔۔۔ کوئی ہیپ ٹلا چیز پیش کرو، ہیپ ٹلا۔‘‘ دوسری مرتبہ ہیپ ٹلا کہہ کر میں نے سب کی طرف رد عمل معلوم کرنے کے لیےدیکھا۔ یہ لفظ اب معنی اختیار کر چکا تھا۔ چنانچہ اس نشست میں بلا تکلف میں نے اسے استعمال کیا۔ ہپ ٹلیٹی نہیں۔ ہپ ٹولائز کرنا چاہئے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اچانک ایک بار اشوک مجھ سے مخاطب ہوا، ’’ہیپ ٹلا کا اصل مطلب کیا ہے؟ کس زبان کا لفظ ہے؟‘‘

    شیام اس وقت موجود تھا۔ جب اشوک نے مجھ سے یہ سوال کیا، اس نے زور کا قہقہہ لگایا، اس کی آنکھیں سکڑ گئیں۔ ٹرین میں وہ میر ے ساتھ تھا جب میں نے کرکٹ کے کھلاڑی کے اس عجیب و غریب نام کی طرف اس کو متوجہ کیا تھا، ہنس ہنس کے دوہرا ہوتے ہوئے اس نے سب کو بتایا کہ یہ منٹو کی نئی منٹویت ہے۔ جب کچھ سمجھ میں نہ آیا تو ہیپ ٹلا کو کھینچ کر فلمی دنیا میں لے آیا مگر کھینچا تانی کے بغیر یہ لفظ بمبے کے فلمی حلقوں میں رائج ہوگیا۔

    29/7/1948 کے خط میں شیام مجھے لکھتا ہے،

    پیارے منٹو! اب کی دفعہ تم پھر خاموش ہو۔ تمہاری یہ خاموشی مجھے بہت دق کرتی ہے۔ اس کے باوجود کہ میں تمہارےدماغی تساہل سے بخوبی واقف ہوں، میں غصے سے دیوانہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا، جبکہ تم یک لخت چپ سادھ لیتے ہو۔ اس میں شک نہیں کہ میں بھی کوئی بہت بڑا خط باز نہیں ہوں، لیکن مجھے ایسے خط لکھنے اور وصول کرنے میں لطف حاصل ہوتا ہے جو ذرا ’’الگ قسم‘‘ کے ہوں۔۔۔ یعنی ہیپ ٹلا! لیکن ہیپ ٹلا یہاں بہت ہی نایاب چیز ہوگئی ہے۔۔۔ اسے کاغذ پر لکھو تو کم بخت ’’ہیپ ٹلی‘‘ بن جاتی ہے اور اگر یہ ہیپ ٹلی بھی دستیاب نہ ہو تو بتاؤ کتنی کوفت ہوتی ہے۔ معاف کرنا۔ اگر میں نے ہپٹولائز کرنا شروع کردیا ہو۔۔۔ لیکن کیا کروں۔ جب حقیقتیں گم ہو جائیں تو انسان ہپٹولیٹ ہی کرتا ہے۔ مگر مجھے کچھ پروا نہیں کہ تم کیا کہوگے کیا نہیں کہو گے، میں اتنا جانتا ہوں اور تمہیں اس کا علم ہوگا کہ تم ایسے بڑے ہپ ٹلا کو اس میدان میں شکست دینے کا سہرا صرف میرے ہی سر ہے۔

    منٹو! کسی نے کہا ہے جب عاشق کے پاس لفظ ختم ہو جاتے ہیں تو وہ چومنا شروع کردیتاہے اور جب کسی مقرر کے پاس الفاظ کا ذخیرہ ختم ہو جاتا ہے تو وہ کھانسنے لگتا ہے۔ میں اس کہاوت میں ایک اور چیز شامل کرتا ہوں۔ جب مرد کی مردانگی ختم ہو جاتی ہے تووہ اپنے ماضی کو پلٹ پلٹ کر دیکھنے لگتا ہے۔ لیکن تم فکر مند نہ ہونا، میں اس آخری منزل سے کچھ دور ہوں۔ زندگی بہت مصروف اور بھرپور ہے، اور بھرپور زندگی میں تم جانتے ہو دیوانگی کے لئے بہت کم فرصت ملتی ہے حالانکہ مجھے اس کی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

    نسیم والا فلم (چاندنی رات) قریب قریب نصف مکمل ہو چکا ہے۔ امرناتھ سے ایک فلم کا کنٹریکٹ کر چکا ہوں۔ ذرا سوچو تو میری ہیروئن کون ہے۔۔۔؟ نگار (نگار سلطانہ) میں نے خود اس کا نام تجویز کیا تھا۔ محض یہ معلوم کرنے کے لئے کہ پردے پر ان پرانے جذبات کا اعادہ کیسے لگتا ہے جو کبھی کسی سے حقیقت کی دنیامیں متعلق رہے ہیں۔۔۔ پہلے مسرت تھی، اب محض کاروبار، لیکن کیا خیال ہے تمہارا، یہ سلسلہ جوش آفریں نہیں رہے گا۔ تاجی، ابھی تک میری زندگی میں ہے۔ نگار بہت ہی اچھی ہے اور اس کا سلوک بے حد نرم و نازک۔

    پچھلے دنوں سے رمولا بھی یہاں بمبے میں ہے۔ اس سے ملاقات کرنے پر مجھے معلوم ہوا کہ وہ ابھی تک اس کمزوری کو جو اس کے دل و دماغ میں میری طرف سے موجود ہے مغلوب نہیں کر سکی۔ چنانچہ اس کے ساتھ بھی سیر و تفریح رہی۔ اولڈ بوائے میں ان دنوں ’فلرٹیشن‘ کے فن میں ایڈوانس ٹریننگ لے رہا ہوں۔ مگر دوست یہ سارا سلسلہ بہت ہی پیچیدہ ہو گیا ہے۔ بہر حال میں پیچیدگیاں پسند کرتا ہوں۔ وہ میرے اندر جو قسمت آزما مہم جو اور آوارہ گرد ہے ابھی تک کافی طاقت ور ہے۔ میں کسی مخصوص جگہ کا نہیں اور نہ کسی مخصوص جگہ کا ہونا چاہتا ہوں۔ میں لوگوں سے محبت کرتا ہوں اور ان سے نفرت کرتا ہوں۔ زندگی یوں ہی گزر رہی ہے۔

    دراصل زندگی ہی ایک ایسی معشوقہ ہے جس سے مجھے محبت ہے۔ لوگ جائیں جہنم میں! مجھے مصنف کا نام بھول گیا ہےمگر اس کا ایک جملہ یاد رہ گیا ہے۔ شاید وہ بھی درست نہ ہو۔ مگر مفہوم کچھ اسی قسم کا تھا۔۔۔ وہ لوگوں سے اس قدر محبت کرتا تھاکہ ( خود کو محبت کرنے میں) کبھی تنہا محسوس نہیں کرتا تھا لیکن وہ اس طور پر ان سے نفرت کرتا تھا کہ (نفرت کرنے میں خود کو) یکہ و تنہا محسوس کرتا تھا۔‘‘

    میں اس میں اور کوئی فقرہ شامل نہیں کرسکتا۔

    ان دو خطوں میں تاجی کا ذکر آیا ہے۔ خطوط وحدانی میں اتنا تو میں بتا چکا ہوں کہ یہ ممتاز کی تصغیر ہے۔ ممتاز کون ہے یہ خود شیام بتا چکا ہے کہ وہ اس کی کمزوری ہے۔ پوچھیے تو نگار، رمولا سب اس کی کمزوریاں تھیں۔ عورت در اصل اس کی سب سے بڑی کمزوری تھی اور یہی اس کے کردار کا مضبوط ترین پہلو تھا۔

    ممتاز، زیب قریشی ایم۔ اے کی چھوٹی بہن ہے۔ زیب کے ساتھ بمبے گئی تو وہاں ظہور راجہ کے بھاری بھر کم عشق میں پھنس گئی۔ کچھ عرصے کے بعد اس سے اپنا دامن چھڑا کر لاہور آئی تو شیام کے ساتھ رومانس شروع ہوگیا۔ بمبے میں جب شیام کی مالی حالت درست ہوئی تو اس نے اپنے ہونے والے بچوں کی خاطر اس سے شادی کرلی۔

    شیام کو بچوں سے بہت پیار تھا۔ خاص طور پر خوبصورت بچوں سے، خواہ وہ حد درجہ بدتمیز ہی کیوں نہ ہوں۔ طہارت و نفاست پسند طبقوں کی نظر میں وہ خود بہت بڑا بدتمیز تھا۔ بعض عورتیں تو اس سے اس کی بدتمیزیوں کی وجہ سے سخت نفرت کرتی تھیں مگر وہ بالکل بے پروا تھا۔ اس نے کبھی ان عورتوں کی خوشنودی کے لیے اپنی عادت سنوارنے کی کوشش نہ کی۔ اس کا ظاہر و باطن ایک تھا، ’’منٹو۔۔۔ میری باتیں سن کر یہ ناک بھوں چڑھانے والی سالیاں سب بنتی ہیں۔۔۔ میک اپ کی دنیا میں رہتی ہیں۔‘‘

    لیکن بعض عورتیں اس کی بدتمیزیوں سے محبت کرتی تھیں۔ کیونکہ ان میں بستر کی بو نہیں ہوتی تھی۔ شیام ان سے کھلے مذاق کرتا۔ وہ بھی اس سے ایسی باتیں کرتیں جو مہذب سوسائٹی میں قابلِ سترپوش سمجھی جاتی تھیں۔۔۔ ہونٹوں پر مسکراہٹیں ناچتیں، حلق سے قہقہے اچھلتے، ہنستے ہنستے شیام کی آنکھوں میں آنسو آجاتے اور مجھے ایسا محسوس ہوتا کہ دور کونے میں طہارت پسندی نوکیلے کیلوں پر آسن جمائے اپنے گناہ بخشوانے کی رائیگاں کوشش کررہی ہے۔

    شیام سے میری پہلی ملاقات کب اور کہاں ہوئی یہ مجھے بالکل یاد نہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں اس سے ملنے سے پہلے ہی مل چکا تھا۔ ویسے اب سوچتا ہوں تو اتنا یاد آتا ہے کہ بمبئی میں اس سے شروع شروع کی ملاقاتیں شاید لیڈی جمشید جی روڈ پر ہوئی تھیں، جہاں میری بہن رہتی تھی، ’’ہائی نسٹ‘‘ میں بالائی منزل کے ایک فلیٹ میں ڈائمنڈ رہتی تھی۔ اس کے ہاں شیام کا آنا جانا تھا۔ دو تین مرتبہ غالباً سیڑھیوں میں اس سے ملنا ہوا۔ یہ ملاقاتیں گو رسمی تھیں لیکن پھر بھی غایت درجہ بے تکلف تھیں۔ کیونکہ شیام نے مجھے خود ہی بتا دیا تھا کہ ڈائمنڈ نام کی عورت جو مسز شیام کہلاتی ہے۔ درحقیقت اس کی بیوی نہیں لیکن تعلقات کی بنا پر وہ بیوی سے کچھ زیادہ رہی ہے۔ وہ ازدواجی رشتے اور اس کے اشتہار کا بالکل قائل نہیں تھا لیکن جب ایک تکلیف کے سلسلے میں اسے ڈائمنڈ کو ہسپتال داخل کرانا پڑا تو اس نے رجسٹر میں اس کا نام مسز شیام ہی لکھوایا۔

    بہت دیر بعد ڈائمنڈ کے شوہر نے مقدمے بازی کی، شیام کو بھی اس میں پھنسایا گیا۔ لیکن معاملہ رفع دفع ہوگیااور ڈائمنڈ جو کہ اب فلمی دنیا میں قدم رکھ چکی تھی اور وزنی جیبیں دیکھ چکی تھیں۔ شیام کی زندگی سے نکل گئی، مگر شیام اس کو اکثر یاد کرتا تھا۔

    مجھے یاد ہے۔ پونے کے ایک باغ میں اس نے مجھے سیر کراتے ہوئے کہا، ’’منٹو۔۔۔ ڈائمنڈ گریٹ عورت تھی۔۔۔‘‘ خدا کی قسم جو عورت اسقاط برداشت کرسکتی ہے، وہ دنیا کی بڑی سے بڑی صعوبت کا مقابلہ کر سکتی ہےلیکن فوراً ہی اس نے کچھ سوچ کر کہا، ’’یہ کیا بات ہے منٹو۔۔۔ عورت پھل پھول سے کیوں ڈرتی ہے۔۔۔ کیا اس لیےکہ یہ گناہ کا ہوتا ہے؟ مگر یہ گناہ اور ثواب کی بکواس کیا ہے۔ ایک نوٹ اصلی یا جعلی ہو سکتا ہے۔ ایک بچہ حلال کا یا حرام کا نہیں ہوسکتا۔ وہ جھٹکہ یا کلمہ پڑھ کے چھری پھیرنے سے پیدا نہیں ہوتا۔ اس کی پیدائش کا موجب تووہ عظیم الشان دیوانگی ہے جس کے مرتکب سب سے پہلے باوا آدم اور اماں حوا ہوئے تھے۔۔۔ آہ، یہ دیوانگی!‘‘

    اور وہ دیرتک اپنی مختلف دیوانگیوں کی باتیں کرتا رہا۔

    شیام بہت بلند بانگ تھا۔ اس کی ہربات، اس کی ہر حرکت، اس کی ہر ادا اونچے سروں میں ہوتی تھی۔ اعتدال کا وہ بالکل قائل نہیں تھا۔ محفل میں سنجیدگی و متانت کی ٹوپی پہن کر بیٹھنا اس کے نزدیک مسخرہ پن تھا۔ شغلِ مے نوشی کے دوران میں خاص طور پر اگر کوئی خاموش ہو جاتا یا فلسفی بن جاتا تو اسے ناقابل بیان کوفت ہوتی۔ اس قدر جھنجھلاتا کہ بعض اوقات بوتل اور گلاس توڑ پھوڑ کر گالیاں دیتا محفل سے باہر چلا جاتا۔

    پونے کا ایک واقعہ ہے۔ شیام اور مسعود پرویز دونوں ’’زبیدہ کاٹیج‘‘ میں رہتے تھے۔ ایک کہانی فروخت کرنے کے سلسلے میں مجھے وہاں ٹھہرنا پڑا۔ مسعود طبعاً خاموش پسند ہے۔ شراب پی کر وہ اور بھی زیادہ منجمد ہو جاتا۔ ایک دن صبح سے رم کا دور شروع ہوا۔ اس دوران میں کئی آئے اور بہک کر چلے گیے۔ میں، مسعود اور شیام ڈٹے ہوئے تھے۔ شیام بہت خوش تھا، اس لیے کہ وہ بہکنے والوں سے مل کر جی بھر کے شور مچاتا رہا تھا۔ مگر شام کے قریب اس کو دفعتاً محسوس ہوا کہ مسعود دن کی تمام ہاؤ ہو سے الگ تھلگ رہا ہے۔ نشے سے چور آنکھوں کو سکیڑ کر اس نے مسعود کی طرف دیکھا اور طنزیہ لہجے میں کہا، ’’کیوں حضرتِ پرویز۔۔۔ کیا آپ نے اپنا مرثیہ مکمل فرما لیا ہے۔‘‘

    مسعود حسبِ عادت مسکرا دیا۔ اتنے میں کرشن چندر آگیا اور شیام مسعود کی منجمد مسکراہٹ کے پیدا کردہ اثر کو بھول گیا۔ دو ایک دَور چلے تو شیام نے کرشن سے مسعود کے’’ناقابلِ برداشت انجماد‘‘ کا ذکر کیا۔ کرشن کی زبان کا تالا کھولنے کے لیے دو پیگ کافی تھے۔ چنانچہ مسعود سے مخاطب ہو کر اس نے لعن طعن شروع کردی۔‘‘ تم کیسے شاعر ہو پرویز۔۔۔ صبح سے پی رہے ہو۔ اور تم نے ابھی تک کوئی واہیات بات نہیں کی۔ خدا کی قسم جو شاعر و اہیات بکواس کرنا نہیں جانتا، وہ شاعری بھی نہیں کرسکتا۔ مجھے حیرت ہے کہ تم شاعری کیسے کرلیتے ہو۔ میرا خیال ہے تمہاری یہ شاعری یقیناً بکواس ہوگی، اور تمہارا پی کر یوں کیسٹر آئل کی بوتل بن جانا تمہاری اصل شاعری ہے۔‘‘

    یہ سن کر شیام اس قدر ہنسا کہ اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے۔

    جب کچھ دیر تک مسعود سے چھیڑ جاری رہی تووہ اٹھا۔ اٹھ کر اس نے ہم سب کے گلاس خالی کردیےاور کہا، ’’چلو باہر چلیں۔‘‘ ہم باہر نکلے۔ مسعود کے کہنے پر سب نے اپنے جوتے اتار کرجیبوں میں رکھ لیے اور دوڑنے لگے۔ اس وقت رات کے بارہ بجے ہوں گے۔ پونہ کی سڑکیں سب سنسنان تھیں۔ میں، مسعود، شیام اور ایک اور جس کا نام مجھے یاد نہیں رہا، دیوانہ وار شور مچاتے دوڑ رہے تھے۔ بالکل بے مطلب! اپنی منزل سے ناآشنا۔

    راستے میں کرشن چندر کا مکان پڑتا تھا۔ وہ دوڑ سے پہلے ہم سے الگ ہو کر چلا گیا۔ دروازہ کھلوا کر ہم نے اسے بہت پریشان کیا۔ اس کی ثمینہ خاتون ہمارا شور سن کر دوسرے کمرے سے باہر نکل آئی۔ اس سے کرشن اور بھی زیادہ پریشان ہوا جس کے پیش نظر ہم وہاں سے رخصت ہوئے اور پھر سڑک پیمائی شروع کردی۔

    پونہ مندروں کا شہر ہے۔ ہر فرلانگ پر ایک نہ ایک مند ر ضرور ہوتا ہے۔ مسعود نے ایک کا گھنٹہ بجایا، میں اور شیام سجدے میں چلے گئے اور شو شمبھو، شو شمبھو کہنے لگے۔ اس کے بعد جو بھی مندر آتا۔ ہم چاروں یہی عمل دہراتے اور خوب قہقہے لگاتے۔ جب کوئی پجاری آنکھیں ملتا باہر نکلتا تو ہم خاموش ہو جاتے اور چپ چاپ چل پڑتے۔

    اسی طرح تین بج گئے۔۔۔ ایک سڑک میں کھڑے ہو کرمسعود نے وہ مغلظات بکیں کہ میں دنگ رہ گیا۔ کیونکہ اس کی زبان سے میں نے کبھی ناشائستہ کلمہ نہیں سنا تھا۔ مگر جب وہ موٹی موٹی گالیاں اگل رہا تھا تو میں نے محسوس کیا کہ وہ اس کی زبان پر ٹھیک طور پر بیٹھتی نہیں تھی۔

    چار بجے ہم زبیدہ کاٹیج پہنچے اور سو گیے۔ لیکن مسعود شاید جاگتا اور شعر کہتا رہا تھا۔

    مے نوشی کے معاملے میں بھی شیام اعتدال پسند نہیں تھا۔ وہ کھل کھیلنے کا قائل تھامگر اپنے سامنے میدان کی وسعت دیکھ لیتا تھا۔ اس کی لمبائی چوڑائی کو اچھی طرح جانچ لیتا تھا۔ تاکہ حدود سے آگے نکل نہ جائے۔ وہ مجھ سے کہا کرتا تھا، ’’میں چوکے پسند کرتا ہوں۔۔۔ چھکے محض اتفاق سے لگ جاتے ہیں۔‘‘

    ایک چھکا ملاحظہ ہو،

    تقسیم ہونے سے چند ماہ پیشتر کا ذکر ہے۔۔۔ شیام، شاہد لطیف کے گھر سے میرے یہاں چلا آیا تھا۔ بمبئی کی زبان میں کڑکی یعنی مفلسی کے دن تھے۔ مگر مے نوشی بڑی باقاعدگی سے جاری تھی۔ ایک شام باتوں باتوں میں زیادہ پی گیے، راجہ مہدی علی خاں بھی اتفاق سے موجود تھا۔ کرفیو کا وقت ہواتو اس نے جانے کی اجازت چاہی۔ میں نے اس سے کہا، ’’پاگل ہوئے ہو پکڑے جاؤ گے۔‘‘ شیام نے اس سے ازراہِ مذاق کہا، ’’یہیں سو جاؤ۔ آج کل تاجی یاں نہیں ہے۔‘‘ راجہ نے مسکرا کر جواب دیا، ’’مجھے نیند نہیں آئے گی۔ اسپرنگ والے پلنگوں پر میں قطعاً سو نہیں سکتا۔‘‘ شیام نے ایک گلاس میں راجہ کے ڈیل ڈول کے مطابق برانڈی کا پیگ ڈالا اور اس کو دے دیا، ’’یہ لو۔ اس سے نیند آجائے گی۔‘‘

    راجہ ایک جرعے میں سارا گلاس چڑھا گیا۔ بہت دیر تک تاجی کی باتیں ہوتی رہیں، جو شیام سے ناراض ہو کر اپنی بہن کے پاس چلی گئی تھی۔۔۔ ہر آٹھویں دسویں روز نکمی نکمی باتوں پر دونوں میں چخ ہو جاتی تھی۔ میں بالکل دخل نہیں دیتا تھا۔ اس لیےکہ شیام کو یہ بالکل پسند نہیں تھا۔ ہم دونوں میں گویا دل ہی دل میں یہ معاہدہ ہو چکا تھا کہ ایک دوسرے کے کاموں میں دخل اندازی نہیں کریں گے۔

    تاجی یوں گئی تھی جیسے کبھی واپس نہیں آئے گی۔ اور شیام نے بھی اسے یوں وداع کیا تھا جیسے وہ پھر کبھی اس کی شکل تک دیکھنے کا روا دار نہیں ہوگا۔ مگر دونوں ایک دوسرے سے دور بیٹھے تڑپتے رہتے تھے۔ شاموں کو تو شیام اکثر تاجی کے معاملے میں بہت جذباتی ہو جاتا تھا۔ میں سوچتا کہ وہ ضروررات بھر اس کی یاد میں جاگتا رہے گا۔ مگر کم بخت نیند کا کچھ ایسا ماتا تھا کہ پلنگ پر لیٹتے ہی سو جاتا۔

    میرے فلیٹ میں صرف دو کمرے تھے۔ ایک سونے کا دوسرا بیٹھنے کا۔ سونے والا کمرہ میں نے شیام اور تاجی کو دے دیا تھا اور بیٹھنے والے کمرے میں گدا بچھا کر میں سوتا تھا۔ تاجی چونکہ موجود نہیں تھی، اس لئے اس کا پلنگ راجہ مہدی علی خاں کو مل گیا۔ رات بہت گزر گئی، اس لیےہم سب اپنی اپنی جگہ پر سو گیے۔

    حسبِ معمول پونے چھ کے قریب میری جاگ کھلی۔ نیم خوابی کے عالم میں یوں محسوس ہوا کہ میرے ساتھ کوئی لیٹا ہے۔ پہلے میں نے خیال کیا کہ بیوی ہے مگر وہ تو لاہور بیٹھی تھی۔ آنکھیں کھول کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ شیام ہے۔ اب میں نے سوچنا شروع کیاکہ یہ کیسے میرے پاس پہنچ گیا۔ ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ جلے ہوئے کپڑے کی بو ناک میں گھسی۔ پاس ہی صوفہ تھا۔ عرصہ ہوا سگرٹ گرنے سے اس کا ایک حصہ جل گیا تھا۔ مگر اتنی دیر کے بعد اب بو آنے کا کیا مطلب ہے۔ آنکھیں زیادہ کھلیںتو میں نے دھوئیں کی کڑواہٹ محسوس کی اورہلکے ہلکے دودھیا بادل بھی دیکھے۔۔۔ اٹھ کر میں دوسرے کمرے میں گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ وہ پلنگ جس پر شیام سویا کرتا تھا۔ سلگ رہا ہے اور پاس ہی دوسرے پلنگ پر راجہ مہدی علی خاں اپنی توند نکالے پڑا خراٹے لے رہا ہے۔

    میں نے قریب جا کر پلنگ کے جلے ہوئے حصہ کا معائنہ کیا۔ میٹرس میں بڑی رکابی کے برابر سوراخ تھا، جس میں سے د ھواں نکل رہا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کسی نے آگ بجھانے کی کوشش کی ہےکیونکہ پلنگ پانی میں تر بتر تھا۔ مگر معاملہ چونکہ روئی اور ناریل کے پھوس کا تھا، اس لیےآگ پوری طرح بجھی نہیں تھی اور برابر سلگ رہی تھی۔ میں نے راجہ کو جگانے کی کوشش کی مگر وہ کروٹ بدل کر اور زورسے خراٹے لینے لگا۔ ایک دم پلنگ کے سیاہ سورخ سے ایک لال لال شعلہ باہر لپکا۔ میں فوراً غسل خانے کی طرف بھاگا۔ ایک بالٹی پانی کی اس سوراخ میں ڈ الی۔ اور جب پوری طرح اطمینان ہوگیا کہ آگ بجھ گئی ہے تو راجہ کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر جگایا۔ اس سے جب آتش زدگی کی واردات کے متعلق استفسار کیا تو اس نے اپنے مخصوص مزاحیہ انداز میں خوب نمک مرچ لگا کرواقعات بیان کئے،

    ’’تمہارا یہ شیام ہنومان مہاراج ہے۔ رات برانڈی کے تالاب میں غوطہ لگاتے ہوئے میں سو گیا۔ دو بجے کے قریب عجیب عجیب آوازیں آئیں تو میں جاگ پڑا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ شیام ایک بہت بڑا ہنومان ہے۔ اس کی گپھے دار دم کے ساتھ مٹی کے تیل میں ڈوبی چندیاں بندھی ہیں اور ان میں آگ لگی ہے۔ شیام پلنگ پر زور زور سے اچھل کود رہا ہے۔ اور اپنی دم سے آگ لگا رہا ہے۔ جب آگ لگ گئی تو میں نے آنکھیں بند کرلیں اور برانڈی کے تالاب میں غوطہ لگا گیا۔ تہہ کے ساتھ لگ کر سونے ہی والا تھا کہ مجھے تمہارا خیال آیا ہے کہ غریب آدمی کا پلنگ ایسا نہ ہو کہ جل کر راکھ ہو جائے۔

    چنانچہ اٹھا۔ شیام غائب تھا۔ دوسرے کمرے میں تمہیں حالات سے آگاہ کرنے کے لیےگیاتو کیا دیکھتا ہوں کہ شیام اپنے اصلی روپ میں تمہارے ساتھ چمٹ کر لیٹا ہے۔ میں نے تمہیں جگانے کی کوشش کی۔ اپنے پھیپھڑوں پر زور لگا لگا کر تمہیں پکارا، گھنٹے بجائے، ایٹم بم چلائے مگر تم نہ اٹھے۔ آخر میں نے ہولے ہولے تمہارے کان میں کہا۔ خواجہ اٹھو، اسکاچ وسکی کی ایک پوری پیٹی آئی ہے، تم نے فوراً آنکھیں کھول دیں اور پوچھا، ’’کہاں۔۔۔‘‘ میں نے کہا، ’’ہوش میں آؤ۔۔۔ سارا مکان جل رہا ہے۔۔۔ آگ لگ گئی ہے آگ! تم نے کہا، ’’بکتے ہو۔‘‘ میں نے کہا، ’’نہیں خواجہ۔ میں خواجہ خضر کی قسم کھا کر کہتا ہوں۔ آگ لگی ہے۔‘‘ جب تمہیں میرے بیان پر یقین آگیا۔ تو تم آرام سے یہ کہتے ہوئے سو گئے، ’’فائر بریگیڈ کو اطلاع دے دو۔‘‘

    تمہاری طرف سے مایوس ہوکر میں نے شیام کو حالات کی نزاکت سے آگاہ کرنے کی کوشش کی۔ جب وہ اس قابل ہوا کہ میری بات اس کے دماغ تک پہنچ سکے۔ تو اس نے مجھ سے کہا، ’’تم بجھا دو نایار۔ کیوں تنگ کرتے ہو۔۔۔‘‘ اورسو گیا۔۔۔ آگ آخر آگ ہے اور اس کا بجھانا ہر انسان کا فرض ہے۔ اس لئے میں فوراً اپنی ساری انسانیت مجتمع کرکے فائر بریگیڈ بن گیا اور وہ جگ جو میں نے تمہاری سالگرہ پر تحفے کے طور پر دیا تھا، بھرکے آگ پر ڈال دیا۔۔۔ میرا کام چونکہ پورا ہو چکا تھا۔ نتیجہ خدا کے ہاتھ سونپ کر سو گیا۔‘‘

    شیام جب پوری نیند سو کر اٹھا تو میں نے اورراجہ نے اس سے پوچھا کہ آگ کیسے لگی تھی۔ شیام کو یہ قطعاً معلوم نہیں تھا۔ بہت دیر غور و فکر کے بعد اس نے کہا، ’’میں آتش زدگی کی اس واردات پر کوئی روشنی نہیں ڈال سکتا۔‘‘ مگر جب راجہ دوسرے کمرے سے شیام کی جلی ہوئی ریشمی قمیص اٹھا کر لایا تو شیام نے مجھ سے کہا، ’’اب تفتیش کرنی ہی پڑے گی۔‘‘

    سب نے مل کر تفتیش کی تومعلوم ہوا کہ شیام صاحب نے جو بنیان پہنا تھا وہ بھی دو ایک جگہ سے جلا ہوا ہے۔ زیادہ گہرائیوں میں گیے تو دیکھا کہ ان کی چھاتی پر روپے روپے جتنے دو بڑے آبلے ہیں۔ چنانچہ شرلاک ہومز نے اپنے دوست وائٹس سے کہا، ’’یہ بات قطعی طور پر پایۂ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ آگ ضرور لگی تھی، اور شیام صرف اس غرض سے کہ اس کے ہمسائے راجہ مہدی علی خاں کو تکلیف نہ ہو چپ چاپ اٹھ کر میرے پاس چلا آیا۔‘‘

    جب شیام نے تہذیب و تمدن کے مروجہ قوانین کے پیش نظر تاجی سے باقاعدہ شادی کی تو میرا خیال ہے صرف ایک انتقامی جذبے کے تحت اس نے اتنی شاندار دعوت کی کہ دیر تک فلمی دنیا میں اس کے چرچے رہے، اتنی شراب بہائی گئی کہ خم کے خم خالی ہوگئے، مگر افسوس کہ تہذیب و تمدن کی سترپوش چولی کے داغ دھل نہ سکے۔

    شیام صرف بوتل اور عورت ہی کا رسیا نہیں تھا۔ زندگی میں جتنی نعمتیں موجود ہیں، وہ ان سب کا عاشق تھا۔ اچھی کتاب سے بھی وہ اسی طرح پیار کرتا تھا جس طرح ایک اچھی عورت سے کرتا تھا۔ اس کی ماں اس کے بچپن ہی میں مر گئی تھی مگر اس کو اپنی سوتیلی ماں سے بھی ویسی ہی محبت تھی، جو حقیقی ماں سے ہوسکتی ہے۔ اس کے چھوٹے چھوٹے سوتیلے بہن بھائی تھے۔ ان سب کو وہ اپنی جان سے زیادہ عزیز سمجھتا تھا۔ باپ کی موت کے بعد صرف اس کی اکیلی جان تھی۔ جو اتنے بڑے کنبے کی دیکھ بھال کرتی تھی۔

    ایک عرصے تک وہ انتہائی خلوص کے ساتھ دولت اور شہرت حاصل کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتا رہا۔ اس دوران میں تقدیر نے اسے کئی غچے دئے مگر وہ ہنستا رہا، ’’جانِ من ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ تو میری بغل میں ہوگی۔‘‘ اور وہ کئی برسوں کے بعد آخر آہی گیا کہ دولت اور شہرت دونوں اس کی جیب میں تھیں۔

    موت سے پہلے اس کی آمدنی ہزاروں روپے ماہوار تھی۔ بمبے کے مضافات میں ایک خوبصورت بنگلہ اس کی ملکیت تھا اور کبھی وہ دن تھے کہ اس کے پاس سرچھپانے کو جگہ نہیں تھی، مگر مفلسی کے ان ایام میں بھی وہی ہنستا ہوا شیام تھا۔ دولت و شہرت آئی تو اس نے ان کا یوں استقبال نہ کیا جس طرح لوگ ڈپٹی کمشنر کا کرتے ہیں۔ یہ دونوں محترمائیں اس کے پاس آئیں تو اس نے ان کو اپنی لوہے کی چارپائی پر بٹھا لیا اور پٹاخ پٹاخ بوسے داغ دیے۔

    میں اور وہ جب ایک چھت کے نیچے رہتے تھے تو دونوں کی حالت پتلی تھی۔ فلم انڈسٹری ملک کی سیاسیات کی طرح ایک بڑے ہی نازک دور سے گزر رہی تھی۔ میں بمبئی ٹاکیز میں ملازم تھا۔ اس کا وہاں ایک پکچر کا کنٹریکٹ تھا دس ہزار روپے میں۔ عرصے کی بیکاری کے بعد اس کو یہ کام ملا تھا۔ مگر وقت پر پیسے نہیں ملتے تھے۔ بہر حال ہم دونوں کا گزر کسی نہ کسی طور ہو جاتا تھا۔ میاں بیوی ہوتے تو ان میں روپے پیسے کے معاملے میں ضرور چخ ہوتی، مگر شیام اور مجھے کبھی محسوس تک نہ ہوا۔ ہم میں سے کون خرچ کررہا ہے اور کتنا کررہا ہے۔

    ایک دن اسے بڑی کوششوں کے بعد موٹی سی رقم ملی (غالباً پانچ سو روپے تھے) میری جیب خالی تھی۔ ہم ملاڈسے گھر آرہے تھے۔ راستے میں شیام کا یہ پروگرام بن گیا کہ وہ چرچ گیٹ کسی دوست سے ملنے جائے گا۔ میرا اسٹیشن آیا تو اس نے جیب سے دس دس روپے کے نوٹوں کی گڈی نکالی۔ آنکھیں بند کرکے اس کے دو حصے کئے اور مجھ سے کہا، ’’جلدی کرو منٹو۔۔۔ ان میں سے ایک لے لو۔‘‘

    میں نے گڈی کا ایک حصہ پکڑ کر جیب میں ڈال لیا۔ اور پلیٹ فارم پر اتر گیا۔ شیام نے مجھے’’ٹاٹا‘‘ کہا اور کچھ نوٹ جیب سے نکال کر لہرائے، ’’تم بھی کیا یاد رکھو گے سیفٹی کی خاطر میں نے یہ نوٹ علیحدہ رکھ لئے تھے۔۔۔ ہیپ ٹلا!‘‘ شام کو جب وہ اپنے دوست سے مل آیا تو کباب ہورہا تھا۔ مشہور فلم اسٹار’’کے کے‘‘ نے اس کو بلایا تھا کہ وہ اس سے ایک پرائیویٹ بات کرنا چاہتی ہے۔ شیام نے برانڈی کی بوتلیں بغل میں سے نکال کر اور گلاس میں ایک بڑا پیگ ڈال کر مجھ سے کہا، ’’پرائیویٹ بات یہ تھی۔۔۔ میں نے لاہور میں ایک دفعہ کسی سے کہا تھا کہ ’’کے کے‘‘ مجھ پر مرتی ہے۔ خدا کی قسم بہت بری طرح مرتی تھی۔ لیکن ان دنوں میرے دل میں کوئی گنجائش نہیں تھی۔ آج اس نے مجھے اپنے گھر بلا کر کہا کہ تم نے بکواس کی تھی۔ میں تم پر کبھی نہیں مری۔ میں نے کہا تو آج مر جاؤ۔ مگر اس نے ہٹ دھرمی سے کام لیا اور مجھے غصے میں آکر اس کے ایک گھونسہ مارنا پڑا۔‘‘ میں نے اس سے پوچھا، ’’تم نے ایک عورت پرہاتھ اٹھایا؟‘‘ شیام نے مجھے اپنا ہاتھ دکھایا جو زخمی ہورہا تھا، ’’کم بخت آگے سے ہٹ گئی۔ نشانہ چوکا اور میرا گھونسہ دیوار کے ساتھ جا ٹکرایا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ خوب ہنسا، ’’سالی بیکار تنگ کررہی ہے۔‘‘

    میں نے اوپر روپے پیسے کا ذکر کیا ہے۔۔۔ غالباً دو برس پیچھے کی بات ہے۔ میں یہاں لاہورمیں فلمی صنعت کی زبوں حالی اور اپنے افسانے’’ٹھنڈا گوشت‘‘ کے مقدمے کی وجہ سے بہت پریشان تھا۔ عدالتِ ماتحت نے مجھے مجرم قرار دے کر تین مہینے قید با مشقت اور تین سو روپے جرمانے کی سزا دی تھی۔ میرا دل اس قدر کھٹا ہوگیا تھا کہ جی چاہتا تھا، اپنی تمام تصانیف کو آگ میں جھونک کر کوئی اور کام شروع کردوں جس کا تخلیق سے کوئی علاقہ نہ ہو۔۔۔ چنگی کے محکمے میں ملازم ہو جاؤں اور رشوت کھا کر اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالا کروں، کسی پر نکتہ چینی کروں نہ کسی معاملے میں اپنی رائے دوں۔

    ایک عجیب و غریب دورسے میرا دل و دماغ گزررہا تھا۔ بعض لوگ سمجھتے تھے کہ افسانے لکھ کر ان پر مقدمے چلوانا میرا پیشہ ہے۔ بعض کہتے تھے کہ میں صرف اس لیےلکھتا ہوں کہ سستی شہرت کا دلدادہ ہوں اور لوگوں کے سفلی جذبات مشتعل کر کے اپنا الو سیدھا کرتا ہوں۔ مجھ پر چار مقدمے چل چکے ہیں۔ ان چار الوؤں کو سیدھا کرنے میں جو خم میری کمر میں پیدا ہوا، اس کو کچھ میں ہی جانتا ہوں۔

    مالی حالت کچھ پہلے ہی کمزور تھی۔ آس پاس کے ماحول نے جب نکما کردیا تو آمدنی کے محدود ذرائع اور بھی سکڑ گئے۔ ایک صرف مکتبہ جدید، لاہور کے چودھری برادران تھے جو مقدور بھر میری امداد کررہے تھے۔ غم غلط کرنے کے لیے جب میں نے کثرت سے شراب نوشی شروع کی تو انہوں نے چاہا کہ اپنا ہاتھ روک لیں۔ مگر وہ اتنے مخلص تھے کہ مجھے ناراض کرنا نہیں چاہتے تھے۔

    اس زمانے میں میری کسی سے خط و کتابت نہیں تھی۔ دراصل میرا دل بالکل اچاٹ ہو چکا تھا۔ اکثر گھر سے باہر رہتا اور اپنے شرابی دوستوں کے گھر پڑا رہتا، جن کا ادب سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ ان کی صحبت میں رہ کر جسمانی و روحانی خود کشی کی کوشش میں مصروف تھا۔ ایک دن مجھے کسی اور کے گھر کے پتے سے ایک خط ملا۔ تحسین پکچرز کے مالک کی طرف سے تھا۔ لکھا تھا کہ میں فوراً ملوں۔ بمبے سے انہیں میرے بارے میں کوئی ہدایات موصول ہوئی ہے۔ صرف یہ معلو م کرنے کے لیے یہ ہد ایت بھیجنے والا کون ہے۔ میں تحسین پکچرز والوں سے ملا۔ معلوم ہوا کہ بمبے سے شیام کے پے در پے انہیں کئی تار ملے ہیں کہ مجھے ڈھونڈ کر 500 روپے دے دیے جائیں۔ میں جب دفتر میں پہنچا تو وہ شیام کے تازہ تاکیدی تار کا جواب دیکھ رہے تھے کہ تلاشِ بسیار کے باوجود انہیں منٹو نہیں مل سکا۔ میں نے500 روپے لے لیےاور میری مخمور آنکھوں میں آنسو آگیے۔

    میں نے بہت کوشش کی کہ شیام کو خط لکھ کر اس کا شکریہ ادا کروں اور پوچھوں کہ اس نے مجھے یہ 500 روپے کیوں بھیجے تھے، کیا اس کو علم تھا کہ میری مالی حالت کمزور ہے۔ اس غرض سے میں نے کئی خط لکھے اور پھاڑ ڈالے۔ ایسا محسوس ہوتا کہ میرے لکھے ہوئے الفاظ شیام کے اس جذبے کا منہ چڑا رہے ہیں جس کے زیر اثر اس نے مجھے یہ روپے روانہ کیے تھے۔ پچھلے سال جب شیام اپنی ذاتی فلم کی نمائش کے سلسلے میں امرت سر آیا تو تھوڑی دیر کے لئے لاہور بھی آگیا۔ یہاں اس نے بہت سے لوگوں سے میرا اتا پتا پوچھا۔ مگر اس دوران میں اتفاق سے مجھے ہی معلوم ہوگیا کہ وہ لاہور میں موجود ہے، میں اسی وقت دوڑا اس سینما پہنچا جہاں وہ ایک دعوت کھا کے آرہا تھا۔

    میرے ساتھ رشید عطرے تھا۔ شیام کا پونے کا پرانا دوست۔ جب موٹر سینما کے صحن میں داخل ہوئی تو شیام نے مجھے اور رشید کو دیکھ لیا۔ ایک زور کا نعرہ اس نے بلند کیا۔ اس نے ڈرائیور سے موٹر روکنے کے لیے بہت کہا مگر اس کے استقبال کے لیےاس قدر ہجوم تھا کہ ڈرائیور نہ رکا۔ موٹر سے نکل کر پولیس کی مدد سے شیام اور اوم ایک ہی قسم کا لباس اورسر پر سفید پانامہ ہیٹ پہنے سینما کے اندر پچھلے دروازے سے داخل ہوئے۔ بڑے دروازے سے ہم اندر پہنچے۔ شیام۔۔۔ وہی شیام تھا۔ مسکراتا، ہنستا اور قہقہے لگاتا شیام۔

    دوڑ کر ہم دونوں سے لپٹ گیا۔ پھر اس قدر شور مچا کہ ہم میں سے کوئی بھی مطلب کی بات نہ کرسکا۔ اوپر تلے اتنی باتیں ہوئیں کہ انبار لگ گیے اور ہم ان کے نیچے دب کے رہ گیے۔ سینما سے فارغ ہو کر اسے ایک فلم ڈسٹری بیوٹر کے دفتر میں جانا تھا۔ ہمیں بھی اپنے ساتھ لے گیا۔ یہاں جو بات بھی شروع ہوتی فوراً کٹ جاتی۔ لوگ دھڑا د ھڑ آرہے تھے۔ نیچے بازار میں ہجوم شور برپا کر رہا تھا کہ شیام درشن دینے کے لیے باہر بالکنی میں آئے۔

    شیام کی حالت عجیب وغریب تھی۔ اس کو لاہور میں اپنی موجودگی کا شدید احساس تھا۔ اس لاہور میں جس کی متعدد سڑکوں پر اس کے رومانوں کے چھینٹے بکھرا کرتے تھے۔ اس لاہور میں جس کا فاصلہ اب امرتسر سے ہزاروں میل ہوگیا تھا اور اس کا راولپنڈی کہاں تھا۔ جہاں اس نے اپنے لڑکپن کے دن گزارے تھے؟ لاہور، امرت سر اور راولپنڈی سب اپنی اپنی جگہ تھے مگر وہ دن نہیں تھے۔ وہ راتیں نہیں تھیں جو شیام یہاں چھوڑ کر گیا تھا۔ سیاست کے گورکن نے انہیں نہ معلوم کہاں دفن کردیا تھا۔

    شیام نے مجھ سے کہا، میرے ساتھ ساتھ رہو مگر اس کے دل و دماغ کی مضطرب کیفیت کے احساس نے مجھے سخت پراگندہ کردیا۔ اس سے یہ وعدہ کرکے کہ رات کو اس سے فلیٹی ہوٹل میں ملوں گا، چلا گیا۔ شیام سے اتنی دیر کے بعد ملاقات ہوئی تھی مگر خوشی کے بجائے ایک عجیب قسم کی گھٹی گھٹی کوفت محسوس ہو رہی تھی۔ طبیعت میں اس قدر جھنجھلاہٹ تھی کہ جی چاہتا تھا کسی سے زبردست لڑائی ہو جائے۔ خوب مار کٹائی ہو اور میں تھک کر سو جاؤں۔ گھٹن کا تجزیہ کیا تو کہاں کا کہاں پہنچ گیا۔ ایک ایسی جگہ جہاں خیالات کے سارے دھاگے بری طرح آپس میں الجھ گیے۔ اس سے طبیعت اور بھی جھنجھلا گئی۔ اور فلیٹیز میں جا کر میں نے ایک دوست کے کمرے میں پینا شروع کردی۔

    نو ساڑھے نو کے قریب شور سننے پر معلوم ہوا کہ شیام آگیا ہے۔ اس کے کمرے میں ملنے والوں کی ویسی ہی بھیڑ تھی۔ تھوڑی دیر وہاں بیٹھا مگر کھل کر کوئی بات نہ ہوئی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہم دونوں کے جذبات میں تالے لگا کر چابیاں کسی نے ایک بہت بڑے گچھے میں پرو دی تھیں۔ ہم دونوں اس گچھے میں سے ایک ایک چابی نکال کر یہ تالے کھولنے کی کوشش کرتے اور ناکام رہتے تھے۔

    میں اکتا گیا۔ ڈنر کے بعد شیام نے بڑی جذباتی قسم کی تقریر کی مگر میں نے اس کا ایک لفظ تک نہ سنا۔ میرا اپنا دماغ بڑے اونچے سروں میں جانے کیا بک رہا تھا۔ شیام نے اپنی بکواس ختم کی تو لوگوں نے بھرے پیٹ کے ساتھ تالیاں پیٹیں میں اٹھ کرکمرے میں چلا آیا۔ وہاں فضلی بیٹھے تھے۔ ان سے ایک معمولی بات پر چخ ہوگئی۔ شیام آیا تو اس نے کہا، ’’یہ سب لوگ ہیرا منڈی جارہے ہیں۔ چلو آؤ تم بھی چلو۔‘‘

    میں قریب قریب رو دیا، ’’میں نہیں جاتا۔ تم جاؤ اور تمہارے یہ لوگ جائیں۔‘‘

    ’’تومیرا انتظارکرو۔۔۔ میں ابھی آیا۔‘‘

    یہ کہہ کر شیام ہیرا منڈی جانے والی پارٹی کے ساتھ چلا گیا۔ میں نے شیام کو اورفلمی صنعت سے متعلق لوگوں کو موٹی موٹی گالیاں دیں اور فضلی سے کہا، ’’میرا خیال ہے۔ آپ تو یہاں انتظار کریں گے۔ اگر تکلیف نہ ہو تو از راہِ کرم اپنی موٹر میں مجھے میرے گھر تک چھوڑ آئیے۔‘‘

    رات بھر اوٹ پٹانگ خواب دیکھتا رہا۔ شیام سے کئی مرتبہ لڑائی ہوئی۔ صبح دودھ والا آیا تو میں کھوکھلے غصے میں اس سے کہہ رہا تھا، ’’تم بالکل بدل گئے ہو۔۔۔ الو کے پٹھے، کمینے، ذلیل۔۔۔ تم ہندو ہو۔‘‘

    نیند کھلی تو میں نے محسوس کیا کہ میرے منہ سے ایک بہت بڑی گالی نکل گئی ہے لیکن جب میں نے خود کو اچھی طرح ٹٹولا تو یقین ہوگیا کہ وہ میرا منہ نہیں تھا، سیاست کا بھونپو تھا، جس سے یہ گالی نکلی تھی۔ اس کے متعلق سوچتے ہوئے میں نے دودھ والے سے دودھ لیا۔ جس میں ایک چوتھائی پانی تھا۔ اس خیال نے مجھے بڑی ڈھارس دی کہ شیام ہندو تھا مگر پانی ملا ہندو نہیں تھا۔

    عرصہ ہوا جب تقسیم پرہندو مسلمانوں میں خونریز جنگ جاری تھی اور طرفین کے ہزاروں آدمی روزانہ مرتے تھے۔ شیام اور میں راولپنڈی سے بھاگے ہوئے ایک سکھ خاندان کے پاس بیٹھے تھے۔ اس کے افراد اپنے تازہ زخموں کی روداد سنا رہے تھےجو بہت ہی دردناک تھی۔ شیام متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا، وہ ہلچل جو اس کے دماغ میں مچ رہی تھی، اس کو میں بخوبی سمجھتا تھا۔ ہم وہاں سے رخصت ہوئے تو میں نے شیام سے کہا، ’’میں مسلمان ہوں، کیا تمہارا جی نہیں چاہتا کہ مجھے قتل کردو۔‘‘

    شیام نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا، ’’اس وقت نہیں۔۔۔ لیکن اس وقت جبکہ میں مسلمانوں کے ڈھائے ہوئے مظالم کی داستان سن رہا تھا۔۔۔ میں تمہیں قتل کرسکتا تھا۔‘‘ شیام کے منہ سے یہ سن کر میرے دل کو زبردست دھکا لگا۔ اس وقت شاید میں بھی اسے قتل کر سکتا مگر بعد میں جب میں نے سوچا اور اس وقت اور اس وقت میں زمین و آسمان کا فرق محسوس کیا تو ان تمام فسادات کا نفسیاتی پس منظر میری سمجھ میں آگیا۔ جس میں روزانہ سیکڑوں بے گناہ ہندو اور مسلمان موت کے گھاٹ اتارے جارہے تھے۔

    اس وقت نہیں۔۔۔ اس وقت ہاں۔۔۔ کیوں؟ آپ سوچیےتو آپ کو اس کیوں کے پیچھے انسان کی فطرت میں اس سوال کا صحیح جواب مل جائےگا۔

    بمبئی میں بھی فرقہ وارانہ کشیدگی دن بدن بڑھتی چلی جارہی تھی۔ بمبے ٹاکیز کی عنانِ حکومت جب اشوک اور واچا نے سنبھالی تو بڑے بڑے عہدے اتفاق سے مسلمانوں کے ہاتھ میں چلے گیے۔ اس سے بمبے ٹاکیز کے ہندو اسٹاف میں نفرت اور غصے کی لہر دوڑ گئی۔ واچا کو گمنام خط موصول ہونے لگے جس میں اسٹوڈیو کو آگ لگانے اور مرنے مارنے کی دھمکیاں ہوتی تھیں۔ اشوک اور واچا دونوں کو ان کی کوئی پروا نہیں تھی۔ لیکن کچھ ذکی الحس ہونے کے باعث اور کچھ مسلمان ہونے کی وجہ سے میں حالات کی نزاکت کو بہت زیادہ اہمیت دے رہا تھا۔ کئی مرتبہ میں نے اشوک اور واچا سے اپنی تشویش کا اظہار کیا اور ان کو رائے دی کہ وہ مجھے بمبے ٹاکیز سے الگ کردیں کیونکہ ہندو یہ سمجھتے تھے کہ صرف میری وجہ سے مسلمان وہاں داخل ہورہے ہیں۔ مگر انہوں نے کہا کہ میرا دماغ خراب ہے۔

    دماغ میرا واقعی خراب ہو رہا تھا۔ بیوی بچے پاکستان میں تھے۔ جب وہ ہندوستان کا ایک حصہ تھا تو میں اسے جانتا تھا۔ اس میں وقتاً فوقتاً جو ہندو مسلم فسادات ہوتے رہتے تھے میں ان سے بھی واقف تھا۔ مگر اب اس خطہ زمین کو نئے نام نے کیا بنا دیا تھا، اس کا مجھے علم نہیں تھا۔ اپنی حکومت کیا ہوتی ہے؟ اس کی تصویر بھی کوشش کے باوجود میرے ذہن میں نہیں آتی تھی۔

    14 اگست کا دن میرے سامنے بمبے میں منایا گیا۔ پاکستان اوربھارت دونوں آزاد ملک قرار دیے گیے تھے۔ لوگ بہت مسرور تھےمگر قتل اور آگ کی وارداتیں باقاعدہ جاری تھیں۔ ہندوستان زندہ باد کے ساتھ ساتھ پاکستان زندہ باد کے نعرے بھی لگتے تھے۔ کانگریس اور ترنگے کے ساتھ اسلامی پرچم بھی لہراتا تھا۔ پنڈت جواہر لال نہرو اور قائداعظم محمد علی جناح دونوں کے نعرے بازاروں اور سڑکوں میں گونجتے تھے۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ہندوستان اپنا وطن ہے یا پاکستان۔ اور وہ لہو کس کا ہےجو ہر روز اتنی بے دردی سے بہایا جارہا ہے، وہ ہڈیاں کہاں جلائی یا دفن کی جائیں گی، جن پر سے مذہب کا گوشت پوست، چیلیں اور گدھ نوچ نوچ کر کھا گیے تھے۔ اب کہ ہم آزاد ہوئے، ہمارا غلام کون ہوگا۔۔۔ جب غلام تھے تو آزادی کا تصور کرسکتے تھے۔ اب آزاد ہوئے تو غلامی کا تصور کیا ہوگا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم آزاد بھی ہوئے ہیں یا نہیں۔

    ہندو اور مسلمان دھڑا دھڑ مر رہے تھے۔ کیسے مررہے تھے، کیوں مررہے تھے۔۔۔ ان سوالوں کے مختلف جواب تھے۔ بھارتی جواب پاکستان جواب، انگریزی جواب، ہر سوال کا جواب موجود تھا۔ مگر اس جواب میں حقیقت تلاش کرنے کا سوال پیدا ہوتا تو اس کا کوئی جواب نہ ملتا۔ کوئی کہتا اسے غدر کے کھنڈرات میں تلاش کرو کوئی کہتا نہیں,یہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت میں ملے گا۔ کوئی اور پیچھے ہٹ کر اسے مغلیہ خاندان کی تاریخ میں ٹٹولنے کے لئے کہتا۔ سب پیچھے ہی پیچھے ہٹتے جاتے تھے اور قاتل اور سفاک برابر آگے بڑھتے جارہے تھے، اور لہو اور لوہے کی ایسی تاریخ لکھ رہے تھے جس کا جواب تاریخِ عالم میں کہیں بھی نہیں ملتا۔

    ہندوستان آزاد ہوگیا تھا۔ پاکستان عالمِ وجود میں آتے ہی آزاد ہوگیا تھا۔ لیکن انسان ان دونوں مملکتوں میں غلام تھا۔ تعصب کا غلام۔۔۔ مذہبی جنون کا غلام، حیوانیت و بربریت کا غلام۔۔۔

    میں نے بمبے ٹاکیز جانا چھوڑ دیا۔ اشوک اور واچا آتے تو میں خرابی طبیعت کا بہانہ کردیتا۔ اسی طرح کئی دن گزر گئے۔ شیام مجھے دیکھتا اور مسکرا دیتا۔ اس کو میری قلبی کیفیات کا بخوبی علم تھا۔ کچھ دن بہت زیادہ پی کر میں نے یہ شغل بھی چھوڑ دیا تھا۔ سارادن گم سم صوفے پر لیٹا رہتا۔ ایک دن شیام اسٹوڈیو سے آیا تو اس نے مجھے لیٹا دیکھ کر مزاحیہ انداز میں کہا، ’’کیوں خواجہ جگالی کر رہے ہو؟‘‘

    مجھے بہت جھنجھلاہٹ ہوتی تھی کہ شیام میری طرح کیوں نہیں سوچتا۔ اس کے دل و دماغ میں وہ طوفان کیوں برپا نہیں ہیں جن کے ساتھ میں دن رات لڑتا رہتا ہوں۔ وہ اسی طرح مسکراتا، ہنستا اور شور مچاتا رہتا۔ مگر شاید وہ اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ جو فضا اس وقت گردوپیش تھی، اس میں سوچنا بالکل بے کار ہے۔

    میں نے بہت غور و فکر کیا مگر کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ آخر تنگ آکر میں نے کہا ہٹاؤ، چلیں یہاں سے۔۔۔ شیام کی نائٹ شوٹنگ تھی۔ میں نے اپنا اسباب وغیرہ باندھنا شروع کردیا۔ ساری رات اسی میں گزر گئی، صبح ہوئی تو شیام شوٹنگ سے فارغ ہو کر آیا۔ اس نے میرا بندھا ہوا اسباب دیکھا تو مجھ سے صرف اتنا پوچھا، ’’چلے؟‘‘

    میں نے بھی صرف اتنا ہی کہا، ’’ہاں!‘‘

    اس کے بعد میرے اور اس کے درمیان ’ہجرت‘ کے متعلق کوئی بات نہ ہوئی۔ بقایا سامان رکھوانے میں اس نے میرا ہاتھ بٹایا۔ اس دوران میں رات کی شوٹنگ کے لطیفے بیان کرتا رہا اور خوب ہنستا رہا۔ جب میرے رخصت ہونے کا وقت آیا تو اس نے الماری میں سے برانڈی کی بوتل نکالی۔ دو پیگ بنائے اور ایک مجھے دے کر کہا، ’’ہییپ ٹلا۔‘‘ میں نے جواب میں ہیپ ٹلا کہا اور اس نے قہقہے لگاتے ہوئے مجھے اپنے چوڑے سینے کے ساتھ بھینچ لیا، ’’سور کہیں کے۔‘‘

    میں نے اپنے آنسو روکے، ’’پاکستان کے۔‘‘

    شیام نے پر خلوص نعرہ بلند کیا، ’’زندہ باد پاکستان!‘‘

    ’’زندہ باد بھارت‘‘ اور میں نیچے چلا گیا، جہاں ٹرک والا میرا انتظار کررہا تھا۔ بندرگاہ تک شیام میرے ساتھ گیا۔ جہاز چلنے میں کافی دیر تھی۔ وہ اِدھر اُدھر کے لطیفے سنا کر میرا دل بہلاتا رہا۔ جب وسل ہوا، تو اس نے ہیپ ٹلا کہہ کر میرا ہاتھ دبایا اور’’گینگ وے‘‘ سے نیچے اتر گیا۔۔۔ مڑ کر اس نے میری طرف نہ دیکھا اور مضبوط قدم اٹھاتا بندرگاہ سے باہر چلا گیا۔ میں نے لاہور پہنچ کر اس کو خط لکھا۔ انیس ایک اڑتالیس کو اس کا جواب آیا،

    یہاں تمہیں سب لوگ یاد کرتے ہیں۔ تمہاری اور تمہاری بذلہ سنجی کی غیرموجودگی محسوس کرتے ہیں۔ جو تم بڑی فراخدلی سے ان پر ضائع کرتے تھے۔ واچا ابھی تک اس بات پر مصر ہے کہ تم کنی کترا گئے۔ اب کی دفعہ اس کو اطلاع دیے بغیر پاکستان بھاگ کر گیے۔ عجیب متناقض بات ہے کہ وہ جو بمبے ٹاکیز میں مسلمانوں کے داخلے کی مخالفت میں سب سے آگے تھا۔ سب سے پہلا آدمی تھا جو پاکستان بھاگ کرچلا گیا۔ خود کو اپنے نظریے کا شہید بناتے ہوئے۔۔۔ یہ واچا کا اپنا نظریہ ہے۔ مجھے امید ہے کہ تم نے اس کو ضرور خط لکھا ہوگا اگر نہیں لکھا، تو فوراً لکھو۔ کم از کم شرافت کا یہی تقاضا ہے۔

    تمہارا شیام

    آج چودہ اگست کا دن ہے۔ وہ دن جب پاکستان اور ہندوستان آزاد ہوئے تھے۔ ادھر اور ادھر دونوں طرف خوشیاں منائی جارہی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ حملے اور دفاع کی تیاریاں بھی زور و شور سے جاری ہیں۔۔۔ میں شیام کی روح سے مخاطب ہوتا ہوں، ’’پیارے شیام! میں بمبے ٹاکیز چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ کیا پنڈت جواہر لال نہرو کشمیر نہیں چھوڑ سکتے۔۔۔ ہے نا ہیپ ٹلا بات!‘‘

    مأخذ:

    گنجے فرشتے (Pg. 155)

    • مصنف: سعادت حسن منٹو
      • ناشر: ساقی بک ڈپو، دہلی
      • سن اشاعت: 1993

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے