Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بابو راؤ پاٹیل

سعادت حسن منٹو

بابو راؤ پاٹیل

سعادت حسن منٹو

MORE BYسعادت حسن منٹو

    غالباً سن اڑتالیس کی بات ہے کہ بابو راؤ سے میری ملاقات ہوئی۔ میں ان دنوں ہفتہ وار’’مصّور‘‘ ایڈٹ کیا کرتا تھا، تنخواہ واجبی تھی، یعنی کل چالیس روپے ماہوار۔ ’’مصّور‘‘ کا مالک نذیر لدھیانوی چاہتا تھا کہ میری اس آمدنی میں کچھ اضافہ ہو جائے، چنانچہ اس نے میرا تعارف بابو راؤ پاٹیل ایڈیٹرفلم انڈیا سے کرایا۔

    اس سے پہلے کہ میں اپنی اس ملاقات کا حال بیان کروں ،مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میں یہ بتاؤں کہ فلم انڈیا معرضِ وجود میں کیسے آیا۔آپ کو یاد ہوگا، ایک زمانہ تھا، جب پونہ کی پربھات فلم کمپنی اپنے پورے عروج پر تھی۔ ’’امرت منتھن‘‘ اور’’امیرجیوتی‘‘ جیسے امر فلم پیش کرکے اس نے ہندوستان کے اکناف و اطراف میں غیر معمولی شہرت حاصل کرلی تھی، اب وہ ایک معمولی ادارہ نہیں رہاتھا بلکہ’’پربھات نگر‘‘ میں تبدیل ہو چکا تھا۔ جس کا ہر رکن اجتہاد کے نشے میں مخمور تھا۔ شانتا رام، سید فتح لال، ڈھائبر۔۔۔ سب کو ایک ہی لگن تھی کہ ان کی کمپنی فن اور تکنیک میں سب کو پیچھے چھوڑ جائے۔

    اسی زمانے میں جبکہ پربھات،وسعت اختیار کررہی تھی اور حاملہ عورت کی طرح خوبصورت اور باوقارتھی، اس نے اپنے بطن سے تین بچے پیدا کیے۔

    (۱) فیمس پکچرز، جو پربھات کے فلموں کا واحد تقسیم کار ادارہ مقرر ہوا، اس کے مالک بابو راؤپائی تھے۔

    (۲) بی۔ پی سامنت ایڈ کمپنی۔ اشتہاروں کے تقسیم کار۔ پربھات کے تمام فلموں کی نشرو اشاعت کا کام اس ادارے کے سپرد ہوا۔

    (۳) نیو جیک پرنٹنگ پریس۔۔۔ گمنام سا پریس تھا، اس کے مالک پارکر تھے ان کو پربھات نے اپنے تمام پوسٹروں، دستی اشتہاروں اور کتابچوں کی چھپائی کا کام تفویض کردیا۔

    فلم انڈیا، نیو جیک پرنٹنگ ورکس سے پیدا ہوا، پارکر بابو راؤ کا دوست تھا، معمولی سا پڑھا لکھا آدمی، ان دونوں نے مل کر پلان بنایا، پریس موجود تھا، کاغذ بھی دستیاب ہو سکتا تھا کیونکہ ان دنوں بہت سستا تھا، بی پی سامنت کمپنی موجودتھی، اس سے پربھات فلم کمپنی کے علاوہ دوسری فلم کمپنیوں کے اشتہار مل سکتے تھے، ظاہر ہے کہ سب لوازم موجود تھے۔۔۔ اور بابو راؤ بڑا محنتی آدمی ہے اور دقیقہ رس بھی، اس کے علاوہ وہ خواب دیکھنے والا آدمی نہیں، انگریزی محاورے کے مطابق وہ کیل کے سر پر چوٹ لگانا جانتا ہے، چنانچہ جب’فلم انڈیا‘ کا پہلا پرچہ شائع ہوا، تویہ واقعہ ہے ہندوستان میں فلمی صحافت کا ایک نیا اور انوکھا دور شروع ہوا۔

    بابو راؤ کے قلم میں فصاحت تھی، بلاغت تھی، غنڈوں کی سی کج کلاہی بھی تھی، اس کے علاوہ اس میں ایک ناقابل نقل طنز اور مزاح تھا، ایک زہر تھا، جو میں سمجھتا ہوں یہاں ہندوستان میں کسی انگریزی لکھنے والے ادیب کے قلم کو نصیب نہیں ہوا۔بابو راؤ کے قلم کی جس خوبی نے اس کی دھاک جمائی وہ اس کا نوکیلا، بہت ہی نوکیلا طنز تھا جس میں ہلکا سا گنڈپنا بھی شامل تھا۔ اس صنف سے ہندوستانی آنکھیں بالکل ناآشنا تھیں، اس لیے اس کی تحریریں لوگوں کے لیے چاٹ کا مزا دینے لگیں۔

    بابو رائے بڑے ٹھسے کا آدمی ہے، اس نے اپنا دفتر پالواسٹریٹ کی مبارک بلڈنگ کے ایک وسیع و عریض فلیٹ میں قائم کیا، اسے ہر ممکن طریقے سے بارعب بنایا،مبارک بلڈنگ کے اسی وسیع و عریض دفتر میں بابو راؤ سے میری پہلی ملاقات ہوئی، اس وقت تک ’’فلم انڈیا‘‘ کے غالباً سات آٹھ شمارے نکل چکے تھے، جو میں’’مصّور‘‘ کے دفتر میں دیکھ چکا تھا اور متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا تھا۔

    میرا خیال تھا ایسی ستھری انگریزی لکھنے والا اور نوکیلے طنز کا مالک، دبلا پتلا اور تیکھے تیکھے نقشوں والا آدمی ہوگا۔ مگر جب میں نے ایک جاٹ کو ایک جہازی میز کے پاس گھومنے والی کرسی پر بیٹھے دیکھا تو مجھے سخت ناامیدی ہوئی ، اس کے چہرے کا کوئی نقش،کوئی خط ایسا نہیں تھا، جس میں اس کے قلم کا ہلکا سا عکس بھی نظر آسکے، چھوٹی چھوٹی آنکھیں، چوڑا چکلا چہرہ،موٹی ناک، بڑا واہیات لب دہان، دانت بد نما۔۔۔ لیکن پیشانی بڑی۔

    جب وہ مجھ سے ہاتھ ملانے کے لیےاٹھا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ مجھ سے اونچا ہے، یعنی کافی درازقد ہے۔ مضبوط ڈیل ڈول، لیکن جب اس نے ہاتھ ملایا تو گرفت بڑی ڈھیلی، اور جب اس نے اردومیں بات چیت شروع کی تو میرا سارا مزا کرکرا ہوگیا، گنواروں کا سالب و لہجہ، بات بات میں بمبئی کے موالیوں کی طرح سالاکہتا تھا اور گالیاں بکتا تھا۔

    میں نے خیال کیا، شاید اس لئے کہ اس کو اردو نہیں آتی، لیکن جب اس نے ٹیلیفون پر کسی سے انگریز ی میں گفتگو شروع کی تو خدا کی قسم میرے دل میں شک پیدا ہواکہ یہ شخص ہرگزہرگز وہ بابو راؤ پاٹیل نہیں جو فلم انڈیا کا اداریہ لکھتا ہے۔ ’’بمبے کالنگ‘‘ رقم کرتا ہے اور سوالوں کے جواب دیتا ہے،معاذ اللہ کیا لب و لہجہ تھا، ایسا لگتا تھا کہ انگریزی، مرہٹی میں اور مرہٹی، بمبئی کی گنوار بولی میں بول رہا ہے۔ یہاں بھی ہر فل ا سٹاپ کے بعد یا اس سے پہلے ایک ’’سالا ‘‘ ضرور آتا تھا۔میں نے دل میں کہا، ’’اگر یہی سالا بابو راؤ پاٹیل ہے توسالا میں سعادت حسن منٹو نہیں ہوں۔‘‘

    تھوڑی دیر گفتگو ہوئی، نذیر لدھیانوی نے میری بہت تعریف کی۔ اس پر بابو راؤ نے کہا، ’’مجھے معلوم ہے۔ وہ سالا عابد گل ریز ہر ہفتے مجھ کو مصور پڑھ کے سنا جاتا ہے۔‘‘ پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوا، ’’یہ سالا منٹو کیا ہوا؟‘‘

    میں نے اس کو اس کا مطلب سمجھا دیا۔

    معاملہ صرف اتنا تھا کہ پربھات کے کسی فلم کی ’’چوپڑی‘‘ یعنی کتابچے میں جو کہانی کا خلاصہ تھا، اور جسے بابو راؤ نے لکھا تھا، مجھے اس کا اردو میں ترجمہ کرنا تھا، میں نے یہ خلاصہ لے لیا اور ترجمہ کر کے نذیرلدھیانوی کے ہاتھ اسے بھجوا دیا جو اس نے بہت پسند کیا۔ اس کے بعد دیرتک میری اس کی ملاقات نہ ہوئی، میں دفتر سے بہت کم باہر نکلتا تھا۔ فلم کمپنیوں میں ملازمت حاصل کرنے کے لیے دربدر مارے پھرنا، یہ میں اس وقت بھی اپنی شان کے خلاف سمجھتا تھا۔

    بابو راؤ نے کسی نہ طرح شانتا رام کو اکسایا کہ وہ ’’پربھات‘‘ کا ایک ماہانہ پرچہ شائع کرے، جس میں وہ بالکل نئے انداز سے ان کی فلم کمپنی کی اور ان کے فلموں کی پبلسٹی کرے گا، شانتارام گو ان پڑھ تھامگر آرٹسٹ تھا اور بڑا اعلیٰ پائے کا، طبیعت میں اپج تھی،فوراً مان گیا، بس پھرکیا دیر تھی ’’پربھات‘‘ نکل آیا اور بڑی شان سے بابو راؤ نے واقعی بڑے انوکھے اور پیارے انداز میں پربھات والوں اور ان کے فلموں کی پبلسٹی کی۔

    نذیر لدھیانوی بڑا وقت شناس اور مطلب نکالنے والا آدمی تھا۔ فوراً بابو راؤ کے پاس پہنچا،یہ اسکیم لے کر کہ پربھات کے ہر شمارے کے کچھ حصے’’مصور‘‘ میں بھی شائع ہونے چاہئیں۔

    میں یہاں ایک بات عرض کردوں کہ بابو راؤ نے چونکہ مفلسی کے دن دیکھے ہیں، اس لئے وہ حاجت مندوں پرہمیشہ مہربان ہو جاتا ہے ، اس کو معلوم تھا کہ نذیر کی مالی حالت کوئی زیادہ اچھی نہیں، اس لئے وہ فوراً اس کی تجویز مان گیا۔ لیکن اس کو شبہ تھا کہ جو کچھ اس نے انگریزی میں لکھا ہے، اردو میں منتقل نہ ہوسکے گا۔ نذیر نے میرا نام لیا تووہ کسی قدر مطمئن ہوگیا۔

    ایمان کی بات ہے میرا انگریزی کا علم بہت محدود ہے۔ بابو راؤ نے جو کچھ لکھا تھا و ہ میری سمجھ سے بالاتر تو نہ تھامگر اس کا اردو میں من و عن ترجمہ کرنا بہت ہی دشوار تھا۔ اس کا ایک خاص طرز تھا، الفاظ کی نشست و برخاست ایک خاص ڈھب کی تھی، انگریزی اور امریکی دونوں محاورے تھے۔ بعض الفاظ پر وہ کھیل کھیل گیا تھا، اب میں کیا کرتا۔ بہت سوچ بچار کے بعد یہی بات سمجھ میں آئی کہ مضمون سامنے رکھ لوں اور اس کے مفہوم کو اپنے انداز اور اپنی زبان میں منتقل کردوں، چنانچہ میں نے یہی کیا۔جب یہ خرافات چھپ گئی تو نذیر، پرچہ لے کراس کے پاس گیا۔ میں بھی اس کے ساتھ تھا، اس نے مجھے دیکھتے ہی کہا، ’’سالا تو بھی بابو راؤ بننے کی کوشش کرتا ہے۔‘‘

    میں نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ اس کو ساری بات سمجھا دی کہ، تمہاری تحریر کو اردومیں لانے کی صرف ایک یہی صورت تھی۔۔۔ میں سمجھتا ہوں میں نے جوکیا جائز ہے۔

    دائیں ہاتھ کی آخری انگلیوں میں سگریٹ دبائے ٹھیٹ دیہاتیوں اور موالیوں کی طرح اس نے مٹھی بند کرکے زور کا کش لیا اور کہنے لگا، ’’سالا ہم نے عابد گل ریز سے سب سنا۔ بہت مزا آئی۔۔۔ میں نے اس کو کہا۔۔۔ (گالی)۔۔۔ تو تو کہتا تھا کہ اردو کا بہت بڑا رائٹرہے۔‘‘

    میں اس داد سے بہت خوش تھا۔ چنانچہ طے ہوگیا کہ آئندہ ترجمے کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا۔۔۔ مگر دو ہی پرچوں کے بعد بند ہوگیا، کیونکہ پربھات فلم کمپنی اتنے زائد شاہانہ خرچ کی کفیل نہیں ہوسکتی تھی۔ میں زیادہ تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا کہ وہ مجھے کھینچ کر اور موضوعات کی طرف لے جائیں گی، جو اس د استان کے ریشوں کے اندر چھپے ہوئے ہیں، مجھے اصل میں بابوراؤ پاٹیل کے متعلق اپنے تاثرات بیان کرنا ہیں۔

    چند ایسے واقعات ہوئے کہ نذیر سے میرے۔۔۔ نہ نہ نہ۔۔۔ ابھی نہیں، یہ بعد کی بات ہے، جی ہاں۔۔۔ میں نے شادی کا ارادہ کرلیا، ان دنوں میں امپیرئل فلم کمپنی میں اسی روپے ماہوار پر نوکر ہوا تھا، یہاں ایک برس ملازمت کی۔ مگر تنخواہ صرف آٹھ مہینے کی ملی۔ چار مہینے کی باقی تھی کہ اس کمپنی کا دیوالہ پٹ گیا۔

    یہاں سے میں سردج فلم کمپنی میں چلا گیامگر ایسا لگتاہے کہ میں اندر داخل ہوا ہی تھا کہ کمپنی نے بند ہونے کا ارادہ کرلیا تھا، مجھے یقین ہونے والا تھا کہ میں سبز قدم ہوں کہ اس کمپنی کے بند ہونے کے تھوڑے ہی عرصہ بعد اس کے سیٹھ نے ہاتھ پاؤں مار کر اسی چار دیواری میں ایک نئی کمپنی کھڑی کردی، یہاں میں سو روپے ماہوار پر ملازم ہوا۔ ایک کہانی لکھی۔ یہ تین چوتھائی فلمائی بھی گئی۔ اس دوران میں میرا نکاح ہو چکا تھا۔ اب صرف رخصتی باقی تھی، جس کے لئے مجھے روپے کی ضرورت تھی، تاکہ کوئی معمولی سا فلیٹ کرائے پر لے کر اسے گھرمیں تبدیل کرسکوں۔ جب روپیہ مانگنے کاوقت آیا تو سیٹھ نانو بھائی نے صاف جواب دے دیا۔ اور کہا کہ میری حالت سخت خراب ہے، اس کی حالت توجو خراب تھی سو تھی لیکن یہ غور فرمائیے میری حالت کتنی خراب ہوگی۔ میں نے سیٹھ کو سارے واقعات سے آگاہ کیا مگر اس کے کان پر جوں تک نہ رینگی، معاملہ بڑھ گیا۔تو تو میں میں شروع ہوئی تو اس نے مجھے کمپنی سے نکال باہر کیا۔ میری عزت پر یہ صاف حملہ تھا، میرا وقار مٹی میں مل گیاتھا، چنانچہ میں نے تہیہ کرلیا کہ وہیں باہر صدردروازے پر بیٹھ کر بھوک ہڑتال شروع کردوں گا۔

    اس معاملے کی خبر کسی نہ کسی طریقے سے بابو راؤ تک پہنچ گئی، اس نے پہلے تو نانو بھائی ڈیسائی کو فون پر بہت گالیاں دیں۔ جب اس کا کچھ اثر نہ ہوا، توسیدھا اسٹوڈیو پہنچا اور بارہ سو روپے کا فیصلہ آٹھ سو روپے میں کرادیا۔ میں نے کہا چلو بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی۔

    میرا گھربس گیا۔

    ہاں میں آپ سے یہ کہنا بھول گیا، میں جس زمانے میں امپیرئل فلم کمپنی میں تھا، ان دنوں وہاں ایک بہت ہی شریف الطبع ایکٹرس پدما دیوی کے نام سے تھی، میرے پہلے فلم ’’کسان کنیا‘‘ (رنگین) کی ہیروئن یہی تھی، میرے اس کے بڑے دوستانہ تعلقات تھے، لیکن اس کا صحیح یعنی جسمانی تعلق بابو راؤ پاٹیل سے تھا، جو اس پر بڑی کڑی نگرانی رکھتا تھا۔

    یہاں آپ کو یہ بتا دینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بابو راؤ پاٹیل کی اس وقت دو بیویاں تھیں، ان میں سے ایک کو میں نے دیکھا ہے جو ڈاکٹر تھی۔

    خیرچند ایسے واقعات ہوئے کہ نذیر نے میری بے لوث خدمت اور دوستی ٹھکرا دی۔۔۔ ہم دونوں الگ ہوگئے، اس کا مجھے افسوس نہ تھا، میں اس سے لیتا ہی کیا تھا، لیکن پھر بھی وہ میرے مکان کا کرایہ جو پچیس روپے بنتا تھا ادا کردیا کرتا تھا، ان دنوں میں نے ریڈیو میں بھی لکھنا شروع کردیا تھا۔ لیکن اب چونکہ میری اکیلی جان کا سوال نہیں تھا، اس لئے میں نے سوچا کہ بابو راؤ سے ملنا چاہئے۔۔۔ لیکن ٹھہرئیے۔۔۔ میں آگے چلا گیا۔ درمیان میں مجھے آپ سے کچھ اور بھی کہنا تھا۔

    میری شادی عجیب و غریب حالات میں ہوئی تھی، کچھ ایسے قصے تھے کہ میرے گھرمیں سوائے میری والدہ کے اور کوئی نہیں تھا، فلم انڈسٹری کے تمام آدمی آرہے تھے۔ ان کی خاطر داری کون کرتا، ایک ضعیف عورت بیچاری کیا کرسکتی تھی۔بابو راؤ کو کہیں سے معلوم ہوا کہ منٹو پریشان ہے تو اس نے اپنی چہیتی رنگین ملکہ پدما دیوی کو بھیج دیا کہ جاؤ اس کی والدہ کا ہاتھ بٹاؤ، مجھے اچھی طرح یاد ہے، پدما نے میری بیوی کو شاید کوئی زیور وغیرہ بھی دیا تھا۔

    چلئے، اب چلتے ہیں۔۔۔ جی ہاں۔ میں بابو راؤ کے پاس پہنچا، اس لیے کہ وہ اردو کا ایک ہفتہ وار اخبار’’ کارواں‘‘ بھی نکالتا تھا، صرف اس غرض سے کہ عابد گل ریز کے لئے جو اس کا دوست تھا، روزی کا ایک وسیلہ بن جائے، مگر وہ ایک لاابالی طبیعت کا شاعر آدمی تھا اور ان دنوں اخبار سے علیحدہ ہو کر مکالمہ نویسی، گیت نگاری اور فلم سازی کے چکر میں پڑا تھا۔ میں نے بابو راؤ کو برطرفی کا وہ نوٹس دکھایا جومجھے نذیر نے بھیجا تھا، اسے دیکھ کر بابو راؤ ایک لحظہ کے لئے چکرا گیا، بہت بڑی گالی دے کر اس نے صرف اتنا کہا، ’’ایسا؟‘‘

    میں نے اثبات میں سرہلا دیا۔

    بابو راؤ نے فوراً ہی کہا، ’’تو سالا تم ادھر کیوں نہیں آجاتا۔۔۔ اپنا کارواں ہے۔۔۔ سالے کو پوچھنے والا ہی کوئی نہیں۔‘‘

    میں نے جواب دیا، ’’اگر ایسی بات ہے تو میں تیار ہوں۔‘‘

    بابو راؤ نے زور سے آوازدی، ’’ریٹا‘‘

    دروازہ کھلا۔ ایک مضبوط پنڈلیوں اور سخت چھاتیوں والی گہرے سانولے رنگ کی کرسچین لڑکی اندر داخل ہوئی۔بابوراؤ نے اسے آنکھ ماری، ’’ادھر آؤ۔‘‘ وہ اس کی کرسی کے پاس چلی گئی۔ بابو راؤ نے کہا، ’’منہ ادھر کرو۔‘‘ اس نے حکم کی تعمیل کی۔بابو راؤ نے ایک ایسادھپا اس کے چوتڑوں پر مارا کہ اس کے کولہوں کا سارا گوشت ہل گیا۔ ’’جاؤ کاغذ پنسل لاؤ۔‘‘ لڑکی جس کا نام ریٹا کارلائل تھا اور جو بابو راؤ کی بیک وقت سیکرٹری، اسٹینو اور د اشتہ تھی، چلی گئی اور فوراً ہی شارٹ ہینڈ کی کاپی اور پنسل لے آئی۔ بابو راؤ میرے نام کا اپائنٹ منٹ لیٹر لکھوانے لگا۔ تنخواہ کے پاس پہنچا تو رک گیا اور مجھ سے مخاطب ہوا، ’’کیوں منٹو کتنا چلے گا؟‘‘

    پھر خود ہی کہا، ’’ایک سو پچاس ٹھیک ہے۔‘‘

    میں نے کہا، ’’نہیں۔‘‘

    بابو راؤ سنجیدہ ہوگیا، ’’دیکھو منٹو۔۔۔ یہ سالا کارواں زیادہ افورڈ نہیں کرسکتا۔‘‘

    میں نے کہا، ’’تم میرا مطلب غلط سمجھے ہو۔۔۔ میں ساٹھ روپے ماہوار پر کام کروں گا۔ اس سے کم نہ اس سے زیادہ۔‘‘

    بابو راؤ سمجھا، میں اس سے مذاق کررہا ہوں، پر جب میں نے اسے یقین دلایا کہ میرا ایسا کوئی مطلب نہیں تووہ اپنے مخصوص گنوار لہجے میں بولا، ’’سالا میڈملا۔‘‘ میں نے اس سے کہا، میں میڈ ملا یعنی پاگل ملا ہی سہی۔ لیکن میں نے یہ ساٹھ روپے اس لیے کہے ہیں کہ میں وقت کا پابند نہیں رہنا چاہتا۔ جب چاہوں گا آؤں گا۔ جب چاہوں گا چلا جاؤں گا لیکن کارواں وقت پر نکلتا رہے گا۔

    بات طے ہوگئی۔

    میں نے بابو راؤ کے دفتر میں غالباً چھ سات مہینے کام کیا۔ اس دوران میں مجھے اس کی عجیب و غریب شخصیت کے متعلق کئی باتیں معلوم ہوئیں۔

    اس کو ریٹا کارلائل سے عشق تھا،اور وہ سمجھتا تھا کہ دنیا میں اور کوئی لڑکی کے اس کے حسن و جمال کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ ریٹا کارلائل جیسا کہ عام کرسچین لڑکیوں کا دستور ہے، جس راستہ پر تھی چلی جارہی تھی لیکن بابو راؤ کی وجہ سے اس کا بھاؤ بڑھ گیا تھا۔مجھے یقین ہے اگر ریٹا اردو بول سکتی تو وہ اسے چند دنوں میں فلمی آسمان پر پہنچا دیتا۔ اس کو اپنے قلم اور اس کے زور پر بہت ناز ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ میں اگر لکڑی کا ایک ٹکڑا لے لوں اور کہنا شروع کردوں کہ نرتے سمراٹ ہے تو یقیناًوہ چوب بے حرکت نرتے سمراٹ بن جائے گی، اور لوگ اس پر ایمان لائیں گے۔

    پدما دیوی گمنامی کے گوشے میں پڑی تھی مگر جب اس کے آغوش میں آئی تو اس نے اسے ’’کلرکوئین‘‘ یعنی رنگوں کی ملکہ بنا دیا۔ ان دنوں فلم انڈیا کے ہر شمارے میں اس کے درجنوں فوٹوہوتے تھے۔ جن کے نیچے وہ بڑے چست فقرے اور جملے لکھتا تھا۔ بابو راؤ خود ساختہ آدمی ہے۔ جوکچھ بھی وہ اس وقت تھا اور جو کچھ وہ اس وقت ہے اس کے بنانے میں کسی کا ہاتھ نہیں۔ جوانی ہی میں اس کی اپنے باپ سے کسی بات پر ان بن ہوگئی تھی۔ چنانچہ دونوں کے تعلقات منقطع ہوگئے۔ بابو راؤ سے میں نے جب بھی بڈھے پاٹیل کے بارے میں سنا۔ یہی سنا کہ ’’وہ سالا پکا حرامی ہے۔‘‘

    معلوم نہیں ان دونوں میں سے حرامی کون ہے اگربڈھا پاٹیل حرامی ہے۔ (بابو راؤ کے معنوں میں) تو خود بابو راؤ بھی اس بڈھے سے حرامی پن میں جہاں تک جوتوں کا تعلق ہے، کئی جوتے آگے ہے، اپنے اور اپنے باپ کے ملا کر۔

    بابو راؤ کے قلم میں جس نوکیلے طنز کا میں نے ذکرکیا ہے، اگر اس سلسلے کے اسباب تلاش کیے جائیں تو اس کی اوائل کی زندگی میں مل سکتے ہیں۔ وہ غزنی کا محمود بن کر کیوں بت شکنی کرنا چاہتا ہے۔ اسی لئے کہ بچپن میں اس کے والدنے اس کی فطرت توڑنے اور اپنے قالب میں ڈھالنے کی کوشش کی۔ اس کی شادی کی مگر اس کی مرضی کے خلاف۔۔۔ دوسری شادی، اس نے خود کی۔ مگر اس مرتبہ وہ خود دھوکا کھا گیا اور چڑ گیا۔ اپنے آپ سے۔۔۔ ہر ایک سے!

    بابو راؤکے کردار کے شہ نشینوں میں کئی بت اوندھے اور شکستہ پڑے ہیں۔ کئی بڈھے حرامی ہیں۔ سیکڑوں بازاری ٹکھائیاں ہیں۔ لیکن ان بتوں کو توڑ پھوڑ کر اسے وہ لذت حاصل نہیں ہوئی جو سومنات کا مندر ڈھا کر غزنی کے محمود کو ہوئی تھی۔ وہ اونچے استھان پرکسی کو بیٹھے ہوئے نہیں دیکھ سکتا، لیکن جو زمین پرگرا ہوگا، اس کو اٹھانے کے لیے وہ کئی کوس چل کے آئے گا۔ اس کو اونچا کرنے کے لیے وہ ایڑی چوٹی کا زور لگا دے گا اور جب وہ افتادہ شخص اس کی مدد سے اور اپنی محنت سے بلند مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا تو وہ اس کو گرانے کی کوشش کرے گا۔

    بابو راؤ مجموعہ اضداد ہے۔

    ایک زمانہ تھا کہ شانتا رام اس کے نزدیک دنیا کا سب سے بڑا فلم ڈائرکٹر تھا۔ ایک وہ زمانہ آیا کہ اس نے اسی شانتا رام کے فلموں میں بلکہ اس کے کردار میں بھی کیڑے ڈالنے شروع کردیے۔ کاردار کے وہ سخت خلاف تھا لیکن بعد میں بابو راؤ کو اس کی ہر ادا پسند آنے لگی۔ بٹوارہ ہوا تو وہ پھراس کے خلاف ہوگیا، اس کا اسٹوڈیو اور اس کی جائیداد ضبط کرانے کے لیے اس نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ لیکن غریب کی قسمت اچھی تھی کہ بال بال بچ گیا۔

    بیچ میں ایک زمانہ آیا کہ اس نے ببانگِ دہل اعلان کردیا کہ فلم سازی صرف میاں بھائی (مسلمان) جانتے ہیں۔ جو رکھ رکھاؤ، جو سلیقہ اور قرینہ مسلمان فلم ڈائرکٹروں کو ودیعت ہوا ہے، وہ کسی ہندو فلم ساز کے حصے میں نہیں آسکتا۔ میں وہ دن بھی جانتا ہوں جب پرتھوی راج کو وہ ایک حقیر کیڑا سمجھتا تھا اور وہ دن بھی یاد ہیں جب کشور ساہو اسے بہت کھلتا تھا۔ بابو راؤ پر دورے پڑتے ہیں۔ نفسیاتی طور پر اس کا دماغ بالکل درست نہیں۔ وہ ایک بہکی ہوئی بھٹکی ہوئی طاقت ہے۔۔۔ ایک اندھی طاقت جو کبھی ادھر اپنا سر پھوڑتی کبھی ادھر۔۔۔ وہ ایک ایسا آرٹسٹ ہے جو اپنے زعم میں گمراہ ہوگیا ہے۔

    میں جب ’’کارواں‘‘ میں تھا تو فلم انڈیا میں میری ذہانت و ذکاوت کے چرچے عام ہوتے تھے۔ وہاں سے نکلا تو میں ’’یہ منٹو کون ہے۔۔۔ جانے کون بلا ہے‘‘ ہوگیا۔ لیکن تھوڑے ہی عرصے کے بعد جب میرا فلم ’’آٹھ دن‘‘ پیش ہوا تو اس نے اس کے ریویو میں اپنی ٹوپی اتار کر مجھے سلام کیا اور کہا کہ منٹو ہمارے ملک کا منفرد ذہین افسانہ نگارہے۔ جب بابو راؤ پربھات فلم کمپنی سے منسلک تھا تو شانتا آپٹے ہندوستان کی خوبصورت ترین فلم ایکٹرس تھی۔ وہاں سے علیحدہ ہوا تووہ ایک دم بدصورت ہوگئی۔ اس کے خلاف اس نے کافی زہر ’’فلم انڈیا‘‘ میں اگلا مگر وہ بھی مرہٹے کی بچی ہے۔ ایک روز سواری کا لباس پہنے بابو راؤ کے دفتر میں گھس گئی اور سڑاپ سڑاپ چھ ساٹ ہنٹر اس کے جڑ دیے۔

    سنا تھا کہ اونٹ کی کوئی کل سیدھی نہیں ہوتی تھی۔ اونٹ کے بعد درجہ بابو راؤ پاٹیل کا آتا ہے۔ اس کی بھی کوئی کل سیدھی نہیں۔۔۔ عرصہ ہوا بمبئی کی انگریزی صحافت کے باوا مسٹربی جی ہارنی مین (مرحوم) نے’’بمبے سیٹی نال‘‘ کے خاص کالموں میں چند فقرے بابو راؤ پر چست کردیے۔

    بابو راؤ کو بڑا تاؤ آیا، اس نے جھٹ ہتک عزت کا مقدمہ دائر کردیا۔ اسی برس کا گرگِ جہاندیدہ ہارنی مین بہت ہنسا، اس نے ایک دوست کے ذریعے سے بابو راؤ کو یہ پیغام پہنچوایا کہ دیکھو اگر تم چاہتے ہو کہ میں لڑوں تو میں تیارہوں۔ لیکن اگر تم اپنی خیریت چاہتے ہو تو دو ہزار کی رقم داہنے ہاتھ سے بھجوا دو تاکہ میں خاموش رہوں۔

    بابو راؤ کو اور تاؤ آیا، پر جب اس نے ٹھنڈے دل سے غور کیا اور بڈھے ہارنی مین کے کارناموں پر نظر ڈالی تو دوہزار روپے اس کی نذر کردیے۔

    وہ بے وقوف ہے۔۔۔ پرلے درجے کا احمق ہے،ا ور اس کے دل میں انسانیت کی رمق موجود ہے۔ وہ نراکھرا حیوان نہیں، غریبوں کا ہمدرد ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے، ایک مرتبہ اس نے ایک بات پر طوفان برپا کردیا تھا۔

    بمبئی میں جو اونچی عمارتیں ہیں ان میں لفٹ لگی ہے۔ سیڑھیاں بھی ہوتی ہیں۔ سب کو یہ لفٹیں استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ لیکن غریب ڈاکیوں کو نہیں۔ اگر صرف پانچویں منزل کے لئے ایک خط ہوتو اسے پورا قطب صاحب چڑھنا اور اترنا پڑے گا۔ بابو راؤ نے بہت طوفان مچایا اور اس خلافِ انسانیت حکم کے خلاف بہت دیر تک صدائے احتجاج بلند کی اور آخر اسے منسوخ کراکے رہا۔

    اس نے ہندوستانی صنعتِ فلم سازی کی سطح بلند کرنے میں قابل ستائش خدمات سرانجام دی ہیں۔ غیر ملکی فلم سازوں سے جو ہندوستان، ہندوستانی روایات اور خود ہندوستانیوں کا مضحکہ اڑایا کرتے تھے، اس کا اس نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ یورپ کا دورہ کیا اور ان لوگوں کو ان کی حماقتوں سے آگاہ کیا۔وہ کئی بچوں کاباپ ہے۔ درجنوں تو نہیں ہوں گے، لیکن ایک درجن کے قریب ضرور ہوں گے۔ کیونکہ ایک دن جب میں اس کے گھر گیا تو اس نے اپنے تمام بچوں کو ’’فال اِن‘‘ کا حکم دیا۔ بابو راؤ ان سب کا شفیق باپ ہے۔

    مگر۔۔۔

    بس اسی مگر کے بعد وہ بابو راؤ شروع ہوتا ہے جس کا آغاز اور اس کے بعد کا کچھ حصہ میں نے دیکھا تھا، تعمیر و تاسیس، عظمت و بزرگی کے خلاف جو ہلکی سی کد اس کی تحریروں میں جھلکیاں لیتی تھی اور آہستہ آہستہ نمایاں ہورہی تھی، اب اپنے پورے بھیانک لباس میں جلوہ گر ہے۔محمود غزنی کی بت شکنی کا وہ ہلکا سا پر تو، جو اس کے دل و دماغ میں موجود تھا، اب نہایت بھونڈی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔درمیان میں اس نے جواہر لال نہروکی ہر دلعزیزی اور عظمت سے چڑکر اس کو گاندھی کا لے پالک اورساری قوم کے سرکا درد کہا تھا، یہی چیز اب بگڑ کر پاکستان دشمن بن گئی ہے۔ اس لئے کہ پاکستان حقیقت بن گیا ہے اور دنیا کے نقشے پر اپنے لیےایک اہم جگہ پیدا کررہا ہے۔ یہ اس کی کج رو طبیعت کے خلاف ہے۔

    ’’فلم انڈیا‘‘ میں جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، صرف فلم سے متعلقہ مضامین ہونے چاہئیں اورہوا کرتے تھے لیکن آہستہ آہستہ اس میں سیاسیات نے بھی سر نکالنا شروع کردیا، اور اب تو یہ حالت ہے کہ سیاسیات، فلمیات اور جنسیات کچھ اس طرح آپس میں گڈ مڈ ہوگیے ہیں کہ بالکل بابوراؤ کی موجودہ پروڑٹڈ ذہنیت کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔ایک ہی جگہ پر آپ کو پاکستان، مرارجی ڈسائی، عورتوں کے ایام اور ویرا کے پپیتا نما چہرے کا ذکر ملے گا۔ لیاقت کا مکہ ہوگا، ساتھ ہی بابو راؤ کی تنومندی اور مردمی، اس کے ساتھ آچاریہ کشورساہو اور آخر میں وہ گاندھی ٹوپی کو اپنی پھونکوں سے اڑانے کی کوشش کررہا ہوگا۔

    سیاسیات میں قدم رکھ کر وہ سمجھتا ہے کہ یہ بھی کوئی ریٹا ہے، سوشیلا ہے، پدما ہے جسے وہ ڈگڈگی بجا کر بانس پر چڑھا دے گا اور خود تماشا دیکھے گا، حالانکہ وہ اندرونی طور پر جانتا ہے کہ فلم سازی کے میدان میں بہت بری طرح ناکام رہ چکا ہے اور اس میدان میں اس سے بھی زیادہ ناکام رہے گا۔۔۔ مگر چھیڑ چھاڑ اس کی سرشت میں داخل ہے۔

    مجھ سے آپ پوچھیے تو بابو راؤ کو ہندوستان سے غرض ہے نہ پاکستان سے۔ وہ دراصل عظمت اور بزرگی کا دشمن ہے۔ ورنہ وہ اپنے اس بنگلے میں خوش ہے جو اس نے ایک بڑی رقم دے کرعمر پارک میں خریدا ہے۔ اپنی سیکرٹری سوشیلا رانی سے خوش ہے جس کو آسمان پر چڑھانے کے لیے اس نے ’’فلم انڈیا‘‘ دو برس تک وقف کیے رکھا۔ اس کو ایک فلم میں بھی پیش کیا، اس خیال سے کہ دوسرے کا ہاتھ رانی کو نہ لگے۔ اس نے یہ فلم خود ڈائریکٹ کیا۔۔۔ لیکن نتیجہ صفر۔

    اس کی بابو راؤ کو کوئی پروا نہیں۔ اس کے پاس رانی ہے۔ اس کے پاس ریس کے گھوڑے ہیں۔ اس کے پاس بہترین دفتر ہے۔ اس کے پیٹ میں سرطان ہے، لیکن اس کی تجوری میں کافی دولت ہے۔ وہ اڑ کر امریکہ جاسکتا ہے اور اس کا علاج کراسکتا ہے۔۔۔ لیکن اس کو ایک بہت بڑا دکھ ہے۔

    میں آپ کو بتاتا ہوں۔۔۔ اس کو یہ دکھ ہے کہ مسلمان کیوں اتنے بے وفا ہوتے ہیں۔ میں سچ کہتاہوں اس کے کئی مسلمان دوستوں نے اس سے بے وفائی کی ہے۔ ہندو دوستوں نے بھی کی ہے لیکن مسلمان اسے زیادہ عزیز تھے۔ وہ ان کی خوبو پسند کرتا تھا۔ ان کا رہن سہن پسند کرتا تھا۔ اس کو ان کی خوبصورتی پسند تھی۔ سب سے زیادہ اس کو ان کے کھانے پسند تھے۔

    بابوراؤ عقائد کے لحاظ سے بہت روشن خیال ہے۔ اس کی ایک لڑکی، پریس کے ایک مسلمان ملازم کے عشق میں گرفتار ہوگئی۔ مسلمان قریب قریب ان پڑھ تھا اور بابو راؤ کی لڑکی ظاہر ہے کہ تعلیم یافتہ تھی۔۔۔ لیکن عشق ایسی چیزیں کب دیکھتا ہے، دونوں بھاگ گئے۔ بابو راؤ ان دونوں کو پکڑ کر لے آیا۔ لڑکی کو لعنت ملامت کی اور چاہا کہ یہ قصہ ختم ہو جائے، لیکن نہ مانی۔۔۔ بابو راؤ نے اس سے پوچھا، ’’تو کیا چاہتی ہے؟‘‘ لڑکی نے جواب دیا، ’’میں اس سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔‘‘

    بابو راؤ نے اپنی لڑکی کی شادی پریس میں کام کرنے والے مسلمان سے کردی۔۔۔ کچھ عرصے کے بعد جب اس سے میری ملاقات ہوئی تووہ آنکھوں میں آنسو بھر کے کہنے لگا، ’’یہ تم سالا مسلمان کیسا ہے۔۔۔ ایک ہم سے چھوکری لیتا ہے۔۔۔ پھر کہتا ہے کھانے کے لیے بھی دو۔‘‘

    اس پس منظر میں بھی بابو راؤ کی موجودہ زہریلی تحریروں کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔

    لیکن یہ کتنی بڑی حماقت ہے کہ وہ ایک فرد کا یا دو تین افراد کا بدلہ ایک پوری قوم سے لینا چاہتا ہے۔۔۔ ایک مذہب سے لینا چاہتا ہے۔ بابو راؤ تاریخ کا طالب علم ہے، کیا اس پر یہ حقیقت آشکار نہیں کہ یہ قوم اور مذہب سراب نہیں، ایک ٹھوس حقیقت ہے!

    اسلام اور ہادئ اسلام کے خلاف لوگ دریدہ دہنی کرتے رہے ہیں لیکن اس سے کچھ فرق نہیں پڑا۔ پاکستان کے خلاف بھی لوگ ایک عرصے تک زہر اگلتے رہیں گے۔ اس سے کیا ہوتا ہے۔۔۔ مجھے افسوس تو اس بات کا ہے کہ حالات نے کتنا شاندار قلم غلاظت اور گندگی میں ڈبو دیا۔۔۔ کوئی آرٹسٹ کسی کی مذہبی دل آزاری کا باعث نہیں ہوسکتا۔ وہ آرٹسٹ تھا، لیکن افسوس کہ عام آدمی بن گیا۔

    خدا کی قسم ’فلم انڈیا‘ کے چند پچھلے شمارے دیکھے، مجھے گھِن آنے لگی۔۔۔ بابو راؤ اور ایسی گراوٹ، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ آرٹسٹ جو اس میں تھا، یا تو سرطان بن کے اس کے پیٹ میں چلا گیا ہے، یا اس کی دو بیویوں کی بددعاؤں، ریٹاکارلائل کے بریدہ گیسوؤں، اور پدمادیوی اور سوشیلا رانی کے بستروں میں دفن ہوگیا ہے۔

    مأخذ:

    گنجے فرشتے (Pg. 279)

    • مصنف: سعادت حسن منٹو
      • ناشر: ساقی بک ڈپو، دہلی
      • سن اشاعت: 1983

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے