aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دیوان سنگھ مفتون

سعادت حسن منٹو

دیوان سنگھ مفتون

سعادت حسن منٹو

MORE BYسعادت حسن منٹو

    لغت میں’’مفتون‘‘ کا مطلب عاشق بیان کیا گیا ہے۔ اب ذرا اس عاشق زار کا حلیہ ملاحظہ فرمائیے۔ ناٹا قد، بھّدا جسم، ابھری ہوئی توند، وزنی سر جس پر چھدرے کھچڑی بال جو کیس کہلانے کے ہرگز مستحق نہیں۔ اکٹھے کیے جائیں تو بمشکل کسی کٹر برہمن کی چوٹی بنے۔ گہرا سانولا رنگ، چھوٹی سی گھسی پٹی داڑھی جو شاید کسی زمانے میں داڑھیوں کی لاج رکھتی ہو، آنکھیں بڑی نہ چھوٹی مگر بلا کی تیز اور مضطرب۔

    بحیثیتِ مجموعی یہ عاشقِ زار،سردار دیوان سنگھ مفتون ایڈیٹر ہفتہ وار ’’ریاست‘‘ دہلی کسی زمانے میں راجاؤں، مہاراجوں اور نوابوں کا دشمن، ان کے راز فاش کرنے والا مداری، صحافت میں ایک نیے، خام مگر بہت زوردار انداز تحریر کا مالک، دوستوں کا دوست بلکہ خادم اور دشمنوں کا ظالم ترین دشمن، مچلن ٹائر کا اشتہار معلوم ہوتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس اشتہار میں جو ٹائروں کی بنی ہوئی انسان نما شکل ہے، اس کے جوڑوں میں درد نہیں ہوتا مگر دیوان سنگھ مفتون گٹھیا کا مارا ہے، اس کا بند بند اور جوڑ جوڑ درد کرتا ہے۔۔۔ آپ اس کے میز پر قلم دوات کے ساتھ ہر وقت کروشن سالٹ کی بوتل دیکھ سکتے ہیں۔ یہ قلم دان کا ایسا جزو بن کے رہ گئی ہے کہ بعض اوقات آپ کو ایسا معلوم ہوگا کہ دیوان سنگھ، اپنا قلم روشنائی میں ڈبونے کے بدلے کروشن سالٹ میں ڈبوتا ہے اور اسی سے لکھتا ہے۔

    جس طرح دیوان سنگھ مفتون کی کوئی کل سیدھی نہیں، اسی طرح اس کی تحریر کا کوئی جملہ سیدھا نہیں ہوتا۔۔۔ ادب کا وہ جانے کب سے خون کر رہا ہے، لیکن صحافت میں اس کا وہی رتبہ ہے جو بمبئے سنٹی تل کے ایڈیٹر آنجہانی بی جی ہارنی مین کا تھا بلکہ میں سمجھتا ہوں اس سے بالشت بھر اونچا ہے۔

    ہارنی مین صرف پولیس سے ٹکر لیتا رہا۔ دیوان سنگھ نے اپنی پہلوانی کے دم خم کئی اکھاڑوں میں دکھائے۔ بڑی بڑی ریاستوں سے پنجہ لڑایا، اکالیوں سے متصادم ہوا، ماسٹر تارا سنگھ اور سردار کھڑک سنگھ سے تلوار بازی کی، مسلم لیگ سے چومکھی لڑا، پولیس کو تگنی کا ناچ نچایا، خواجہ گیسو دراز حضرت ِحسن نظامی سے چہلیں کیں، تیس سے کچھ اوپر مقدمے چلوائے اور ہر بار سرخ رو رہا، لاکھوں بلکہ کروڑں کمائے اور اڑا ڈالے۔ مفلسی کے زمانے میں اگر کوئی دوست آیا تو چٹکیوں میں چار سو بیسی کرکے روپیہ حاصل کیا اور اس کی تواضع پر خرچ کردیا۔ جیبیں لبالب بھری ہونے پر موٹر کی ہیڈ لائٹس میں ننگی عورتوں کا رقص دیکھا اور اپنے دوستوں کو دکھایا۔ آپ کم پی، اپنے یاروں کو جی بھر کے پلائی۔

    دیوان سنگھ مفتون اکائی نہیں۔ دہائی، سیکڑہ، ہزار، دس ہزار، بلکہ لاکھ ہے۔ وہ ایک عجائب گھر ہے جس میں سیکڑوں بلکہ ہزاروں نادر دستاویزات مقّفل پڑی ہیں۔ وہ ایک بینک ہے جس کے لیجروں میں کروڑوں کا حساب درج ہے۔ وہ اسکاٹ لینڈ یارڈ ہے جس میں لاکھوں جرائم پیشہ انسانوں کے خفیہ حالات موجود ہیں۔ اگر وہ امریکہ میں ہوتا تو وہاں کا سب سے بڑا ’’گینگسٹر‘‘ ہوتا۔ کئی اخبار اس کے تابع ہوتے۔ بڑے بڑے یہودی سرمایہ دار اس کے ایک اشارے پر ناچتے۔ وہ رابن ہڈ کا باپ ہوتا۔ مفلسوں کے لیے اس کی تجوریاں ہر وقت کھلی ہوتیں۔

    آپ مفتون کو دیکھیے گا تو اسے معمولی سا پڑھا لکھا ادھیڑ عمر کا سکھ سمجھیں گے لیکن وہ بہت پڑھا لکھا ہے۔ ایک دن میں نے انہیں ’’ریاست‘‘ کے خوبصورت پیازی رنگ کے کارڈوں پر دستخط کرتے دیکھا۔ کارڈوں کی دو تین ڈھیریاں لگی تھیں۔ میں نے ایک کارڈ اٹھا کر ٹائپ شدہ عبارت پڑھی۔۔۔ بیرونی ملک کی کسی فرم سے فہرست بھیجنے کی درخواست کی گئی تھی۔ سب کارڈ اسی مضمون کے تھے۔ مجھے بہت حیرت ہوئی کہ اتنی فہرستیں منگا کر سردار صاحب کیا کریں گے۔ میں نے پوچھا، ’’مفتون صاحب، کیا آپ کوئی اسٹور کھولنے والے ہیں؟‘‘

    سر کو سکھوں کے مخصوص انداز میں ایک طرف جھٹکا دے کر مفتون خوب ہنسا، ’’نہیں منٹو صاحب، میں یہ فہرستیں منگا رہا ہوں کہ مجھے ان کے مطالعے کا شوق ہے۔‘‘

    میری حیرت میں اور اضافہ ہو گیا، ’’آپ مطالعہ فرمائیں گے، یعنی فہرستوں کا۔۔۔ حاصل کیا ہوگا؟‘‘

    ’’معلومات۔۔۔ میں اپنی معلومات میں اسی طرح اضافہ کیا کرتا ہوں۔‘‘

    ’’آپ کی ہر بات نرالی ہے۔‘‘

    ’’ڈنلپ کمپنی کیا بناتی ہے؟‘‘ ایک دم مجھ سے سوال کیا گیا۔

    میں نے جھٹ سے جواب دیا، ’’ٹائر‘‘

    اس پر مجھے بتایا گیا کہ ڈنلپ کمپنی صرف ٹائر ٹیوب ہی نہیں بناتی اور ہزار ہا چیزیں بناتی ہے۔ گاف بال، ربڑ کے گدے گدیاں، ربڑاسپرنگ، نلکیاں، ہوز پائپ اور خدا معلوم کیا کیا۔۔۔!

    جب فہرستیں آتی ہیں تو وہ ہر ایک کا بغور مطالعہ کرتا ہے، اسی لیے میں نے کہا کہ سردار دیوان سنگھ مفتون بہت پڑھا لکھا آدمی ہے۔ وہ تمام فہرستیں پڑھتاہے۔ جب بے کار ہو جاتی ہیں تو محلے کے بچوں میں تقسیم کردیتا ہے کہ وہ تصویریں دیکھیں اور خوش ہوں۔۔۔ بچوں سے اسے بہت پیار ہے۔

    بیرونی ممالک کے کارخانوں کی فہرستیں پڑھ پڑھ کر وہ اپنے پرچے کے زور دار اداریے لکھتا ہے۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کا ناقابل فراموش کالم لکھتا ہے۔ سوالوں کے ’’ٹچن‘‘جواب دیتا ہے اور فصاحت اور بلاغت کا ہر جگہ خون کرتا ہے۔

    بہت بد خط ہے۔ جس طرح وہ آپ ٹیڑھا میڑھا ہے، اسی طرح اس کے قلم سے نکلے ہوئے حروف ٹیڑھے میڑھے ہوتے ہیں۔ مجھے حیرت ہے کاتب اس کا لکھا ہوا کیسے پڑھتا ہے۔ مجھے جب بھی اس کا خط آیا، میں نے اندازاً اس کا مطلب نکالا۔ دوسر ی مرتبہ غور سے’’ڈی سائفر‘‘ کرنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ میں نے پہلی نظر میں جو مطلب اخذ کیا تھا، بالکل غلط تھا۔ تیسری دفعہ پڑھا تو حروف اپنی صحیح شکل اختیار کرنے لگے، چوتھے مرحلے پربالآخر عبارت مکمل طورپر روشن ہوئی۔

    دیوان سنگھ مفتون بہت محتاط آدمی ہے، محاورہ ہےدودھ کا جلا چھاچھ بھی، پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ چھاچھ کے علاوہ وہ پانی بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ کاتب کو ہدایت ہے کہ جب اس کی لکھی ہوئی سلپیں پیلے کاغذ پر منتقل ہو جائیں تو فوراً واپس کردی جائیں۔ کتابت شدہ سطور میں اغلاط لگانے کے بعد وہ میز پر پڑی ہوئی کالی صندوقچی کھولے گا اور اس میں تمام سلپیں ڈال کر اس کو مقفل کردے گا اور جب پرچہ چھپ کر آجائے گا تو اپنی تحریروں کو تلف کردے گا۔ معلوم نہیں یہ احتیاط کیوں برتی جاتی ہے۔

    اس کی ساری ڈاک ایک تھیلے میں مقفل ہو کر آتی ہے۔ اسے کھول کر وہ ایک ایک خط، ایک ایک اخبار باہر نکالے گا اور ترتیب وار میز پر رکھتا جائے گا۔ لفافہ کھول کر خط نکالنے کے بعد وہ لفافہ ردی کی ٹوکری میں نہیں پھینکتا بلکہ خط کے ساتھ پن لگا کر نتھی کردیتا ہے۔ اسی طرح وہ رسالوں اور اخباروں کے’’ریپر‘‘ بھی ضائع نہیں کرتا۔ میں نے اس طرز عمل کے متعلق پوچھا تو جواب ملا ’’احتیاط ہر حالت میں اچھی ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے، میں کسی اخبار یا رسالے کے خلاف مقدمہ کرنا چاہوں۔ اب قانون یہ ہے کہ اگر لاہور کے کسی اخبار نے میرے خلاف لکھا ہے اور ر یپر، جس پر میرا نام اور پتہ موجود ہے، میں پیش نہیں کرسکتا تو مقدمہ صرف لاہور ہی میں چل سکتا ہے۔ بصورت دیگر یہ ریپر اس بات کا ثبوت ہوگا کہ میری بے عزتی یہاں دہلی میں ہوئی ہے جہاں مجھے یہ پرچہ ارسال کیا گیا ہے اس لیے میں یہاں دہلی کی عدالت میں دعوے دائر کرسکتا ہوں۔‘‘

    دیوان سنگھ مفتون پر جو آخری مقدمہ (غالباً بتیسواں) چلا، بہت خطرناک تھا۔ وہ اور ایک بنگالی بلاک میکر جعلی نوٹ بنانے کے الزام میں ماخوذ تھے۔ میں ان دنوں بمبئی میں تھا۔ ایک دن مجھے’’مصور ویکلی‘‘ کی معرفت ایک ٹائپ کیا ہوا خط ملا جس پر کوئی دستخط نہیں تھے۔ٹائپ میں دیوان سنگھ مفتون لکھا تھا۔ مجھ سے درخواست کی گئی تھی کہ میں گواہ کے طور پر پیش ہوں۔

    عرصہ ہوا، میں گیا تھا اور ان کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔ میں دفتر پہنچا تو وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ میں ایک کرسی پر بیٹھ گیا اور کمرے کا جائزہ لینے لگا۔ بہت بڑا میز تھا جس کے دونوں طرف ریڈیو پڑے تھے۔ قلمدان کے پاس کروشن سالٹ کی دو بوتلیں تھیں۔ ایک کونے میں پردے کے پیچھے صوفہ نما چیز تھی جس پر غالباً دیوان صاحب استراحت فرماتے ہوں گے۔ سب الماریاں کھلی تھیں۔میں نے یہ اور دوسری تفصیلات ’’مصور‘‘ میں ایک مضمون کی صورت میں شائع کی تھیں اور کہا تھا کہ اگر اس کمرے میں چھوٹا سا کمپارٹمنٹ بنا دیا جاتا جس میں کموڈ ہوتا تو یہ کمرہ کسی ریل کا بہت بڑا ڈبہ دکھائی دیتا۔

    دیوان صاحب نے یہ مضمون سنبھال کے رکھا ہوا تھا۔ جب پولیس نے چھاپہ مار کر اس کمرے کی الماری سے ایک کتاب میں رکھے ہوئے سو سو کے چھ (غالباً) نوٹ نکالے اور سردار صاحب کی گرفتاری عمل میں آئی توانہوں نے مجھے صفائی کے گواہوں میں رکھ لیا۔ اس مضمون سے اور میری گواہی سے یہ ثابت کرنا مطلوب تھا کہ ان کے دفتر میں کوئی بھی شخص بے روک ٹوک آ جا سکتا ہے۔

    میرا خیال ہے میں دہلی میں دیوان صاحب سے اپنی اس ملاقات کے بارے میں بھی کچھ لکھ دوں کہ یہ خاصی دلچسپ تھی۔ دیر تک انتظار کرنے کے بعد جب وہ نہ آئے تو میں چلا گیا۔ شام کو آیا تو وہ دفتر میں موجود تھے۔ مچلن ٹائر کا اشتہار کرسی میں بیٹھا تھا۔ سر پر چھوٹی سی سفید پگڑی۔ قلم انگلیوں میں دبائےکچھ لکھ رہے تھے۔ چشمے کے شیشوں کے پیچھے آنکھیں ایک عجیب انداز میں اوپر کرکے مجھے دیکھا اور یوں اچھلے جیسے ربڑ کی ٹھوس گیند اچھلتی ہے۔ مجھ سے’’گھٹ گھٹ جھپیا ں پائیں‘‘ یعنی بڑی گرم جوشی سے بغل گیر ہوئے اور کہا، ’’مجھے معلوم ہوا تھا کہ آپ آئے تھے۔ میں ایک ضروری کام سے باہر گیا ہوا تھا۔‘‘

    مجھے بیٹھنے کو کہا۔ بمبئے کے حالات پوچھے۔ ادھر ادھر کی باتیں شروع کیں مگر میں محسوس کررہا تھا کہ وہ مجھ سے متوجہ ضرور ہیں لیکن ان کا دماغ کچھ اور سوچ رہا ہے۔ باتیں کرتے کرتے انہوں نے ٹیلیفون کا رسیور اٹھایا اور نمبر ملا کر دوسرے سرے والے سے کہا، ’’میں سندر لال بول رہا ہوں۔۔۔ نئی دلی سے۔۔۔ لالہ۔۔۔ ہیں؟ کہاں گئے ہیں؟۔۔۔۔۔۔ اچھا۔‘‘

    آپ کا دفترپرانی دلی میں تھا اور یہ بھی ظاہر ہے کہ سندر لال نہیں بول رہا تھا۔ دیوان سنگھ مفتون بول رہا تھا۔ دورانِ گفتگو آپ نے کئی مرتبہ اسی طرح مختلف نمبر ملائے اور جعلی ناموں سے لالہ کے متعلق پوچھا کہ وہ کہاں ہیں۔۔۔ معلوم نہیں کیا چار سو بیسی تھی لیکن مجھے اتنا یقین تھا کہ اس سالے کی شامت آگئی ہے یا عنقریب آنے والی ہے۔

    ٹیلی فون کے ذریعے سے جب کچھ پتہ چلایا نہ چلا تو انہوں نے سولہویں مرتبہ مجھے بیئر کی دعوت دینے کے بعد اپنے خاص آدمی (غالباً سردار وریام سنگھ) کو آواز دے کر بلایا۔ اس کے کان میں ہولے سے کچھ کہا اور رخصت کردیا پھر مجھ سے مخاطب ہوئے، ’’ہاں منٹو صاحب، تو بیئر منگواؤں آپ کے لیے۔‘‘

    میں نے جھنجھلا کر کہا، ’’سردار صاحب زبانی جمع خرچ آپ نے آخر سیکھ ہی لیا دلی والوں سے۔۔۔ منگوائیے۔ منگواتے کیوں نہیں۔‘‘

    یہ سن کر دیوان صاحب خوب کھل کر ہنسے اور اہلیان یو پی کو بے نقط سنانے لگے۔ انسانوں کی اس قسم سے ان کو خدا واسطے کا بیر ہے۔ چنانچہ جب بھی انہیں اپنے دفتر میں کسی ملازم کی ضرورت ہوتی ہے تو اشتہار میں یہ بات خاص طور پر لکھی ہوتی ہے کہ صرف پنجابی درخواست بھیجیں۔۔۔ لیکن عجیب بات ہے کہ آپ احسان بھیا کو اپنا بہترین دوست یقین کرتے ہیں۔ان کے دل میں یو پی کے اس باشندے کا بہت احترام ہے۔

    ایک مرتبہ دیوان صاحب کو اپنی موٹر ایک تنگ بازار سے گزارنا تھی۔ میں ان کے ساتھ تھا۔ موٹر مڑی تو سڑک کے عین بیچ کئی چارپائیاں بچھی دکھائی دیں۔ آپ آگ بگولا ہوگے۔ لگے دلی والوں اور ان کی ہشت پشت کو بے نقط سنانے ’’کم بختو۔۔۔ تمہارے اسلاف۔ تمہارے آباو اجداد نے بھی اسی طرح چارپائیوں پر دن رات سو سو کر اپنی سلطنت کا بیڑہ غرق کیا تھا۔ اب تمہارے پاس کیا رہ گیا ہے جس کا بیڑہ غرق کرو گے۔ خدا تمہارا بیڑہ غرق کرے۔‘‘

    ایک لڑکے نے چارپائی اٹھانے کی کوشش کی مگر اس سے نہ اٹھی۔ دیوان صاحب موٹر سے باہر نکلے اور چارپائی کو اٹھا کر پھینک دیا، ’’برخوردار تم سے نہ اٹھتی۔۔۔ اپنی کمریا دیکھو۔۔۔ تمہارے والد بزرگوار یقیناً تم سے بھی کہیں زیادہ نازک ہوں گے۔ ان سے تو پیخانے جاتے وقت لوٹا بھی نہ اٹھایا جاتا ہوگا۔‘‘

    اس پر بہت سے لوگ جمع ہوگئے۔ انہوں نے کارخانہ داروں کی زبان میں واہی تباہی بکنا شروع کیا مگر دیوان صاحب نے جیسے کچھ سنا ہی نہیں۔ موٹر میں آرام سے بیٹھے اور چلانا شروع کردی۔

    سردار صاحب کو پنجابی بہت پسند ہیں شاید اس لیے کہ وہ ایک زمانے سے دہلی میں قیام پذیر ہیں ورنہ یہ حقیقت ان کی نظروں سے اوجھل نہیں کہ صرف پنجابی ہونا اچھے انسان کی دلیل نہیں۔ وہ سینے پر ہاتھ رکھ کر یہ کبھی نہیں کہہ سکتے کہ اپنے دفتر کی ملازمت کے سلسلے میں پنجابی کی قید لگا کر انہوں نے ہمیشہ فائدہ اٹھایا کیوں کہ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ جتنا نقصان ان کو پنجابیوں نے پہنچایا ہے اس کا عشرِ عشیر بھی یو پی کے رہنے والوں نے نہیں پہنچایا۔

    اب میں ان کے آخری اور خطرناک مقدمے کی طرف لوٹتا ہوں۔ میں دہلی گیا۔ سردار صاحب ضمانت پر رہا تھے ۔ معلوم ہوا کہ ان کو تنگ کرنے کے لیے ان کے مقدمے کی سماعت دہلی سے بہت دور گوڑگانواں کی ایک عدالت میں ہورہی ہے۔ ہم وہاں موٹر میں گیے۔ وکیل نے مجھے سمجھا دیا تھا کہ مجھے کیا کہنا ہے۔ چنانچہ میری گواہی دس منٹ کے اندر اندر ختم ہوگئی۔ سردار صاحب کو اپنا تحریری بیان پیش کرنا تھا۔ جب حوالات میں تھے تو آپ نے اس کے نوٹ لے لیے تھے۔ اب یہ چھوٹے ٹائپ میں غالباً چالیس پچاس صفحات پر پھیلا ہوا تھا۔ میں نے اسے جستہ جستہ دیکھا اور میرا ذہن فرانس کے مشہور مصنف ایمیلی زولا کے شہرۂ آفاق مضمون IACUSE کی طرف منتقل ہوگیا۔

    دیوان سنگھ مفتون کا یہ بیان ملزم کا صفائی کا بیان نہیں تھا، بلکہ فرد جرم تھی حکومت اور اس کے کارندوں کے خلاف۔ آخر میں انہوں نے اپنے مقدمات کی فہرست لگا رکھی تھی۔ ہر صفحے پر مختلف خاکہ بنا کر یہ واضح ہوگیا کہ کون سا مقدمہ کب چلا، کس کے ایما پر چلا، کس کی عدالت میں پیش ہوا اور اس کا کیا فیصلہ ہوا۔غالباً بتیس مقدمے تھے۔ ان میں سے اکتیس میں وہ باعزت طور پر بری ہوئے تھے۔ صرف ایک مقدمہ تھا۔۔۔بہت بڑا اور مشہور مقدمہ (جو نواب بھوپال نے ان پر چلایا تھا) جس میں ان کو شاید صرف اس عرصے کی سزائے قید دی گئی تھی جو انہوں نے حوالات میں گزارا تھا۔

    سردار صاحب نے فاضل جج کے یہ الفاظ خاص طور پر اپنے بیان میں درج کئے ہوئے تھے، ’’میں سردار دیوان سنگھ مفتون ایڈیٹر ’ریاست‘ دہلی کی ہمت کی داد دیتا ہوں جو اپنے محدود ذرائع کے باوجود طویل عرصے تک ایک شہزادے کا تندہی کے ساتھ مقابلہ کرتا رہا۔‘‘

    نواب بھوپال سے سردار دیوان مفتون واقعی بہت دلیری اور ثابت قدمی سے لڑا لیکن اس جنگ میں اس کا دیوالہ پٹ گیا۔ جو جمع پونجی تھی، سب پانی کی طرح بہہ گئی۔ کوئی اور ہوتا تو اس کی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کمر ٹوٹ جاتی مگر مفتون نے حوصلہ نہ ہارا اور جوں توں اپنا پیارا پرچہ ’ریاست‘ شائع کرتا رہا۔ اس نے بڑے بڑے آدمیوں سے مقابلہ کیا اور فتح حاصل کی لیکن اپنی زندگی میں ایک آدمی سے شکست بھی کھائی۔ کس سے؟ خواجہ حسن نظامی سے۔

    سردار صاحب نے ایک دن زچ ہوکر مجھ سے کہا، ’’میں نے بڑے بڑے قطب صاحب کی لاٹوں کو جھکا دیا مگر یہ کم بخت حسن نظامی مجھ سے نہیں جھکایا جاسکا۔ منٹو صاحب! میں نے اس شخص کے خلاف اتنا لکھا ہے، اتنا لکھا ہے کہ اگرریاست کے وہ تمام پرچے جن میں یہ مضامین چھپتے رہے ہیں، اس پر رکھ دیے جائیں تو ان کے وزن ہی سے اس کا کچومر نکل جائے۔۔۔ لیکن الٹا میرا کچومر نکل گیا ہے۔۔۔ میں نے اس کے خلاف اس قدر زیادہ اس لیے لکھا کہ میں چاہتا تھا وہ بھنا کر قانون کو پکارے۔۔۔ کھلی عدالت میں مقدمہ پیش ہو اور میں وہاں اس کا ڈھول کا پول کھول کر رکھ دوں مگر وہ بڑا کائیاں ہے۔ اس نے مجھے کبھی ایسا موقع نہیں دیا اور نہ دے گا۔‘‘ یہ عجیب بات ہے کہ کسی زمانے میں سردار دیوان سنگھ مفتون اور خواجہ حسن نظامی میں گاڑھی چھنتی تھی۔ معلوم نہیں کس بات پر وہ ایک دوسرے سے الگ ہوئے۔

    میں پھر مقدمے کی طرف آتا ہوں۔ گوڑگانواں کی عدالت نے ان کو غالباً دو دفعات کے ماتحت بارہ بارہ برس قید بامشقت کی دو سزائیں دیں۔ سردار صاحب نے گوڑگانواں ہی میں مجھ سے کہہ دیا تھا کہ یہاں کا مجسٹریٹ مجھے کڑی سے کڑی سزا دے گا، چنانچہ ایسا ہی ہوا لیکن انہوں نے مجھے تسلی دی تھی کہ متفکر ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہائی کورٹ میں صاف بری ہو جاؤں گا۔ یہ بھی صحیح ثابت ہوا۔ہائی کورٹ نے انہیں باعزت طور پر بری کردیا۔

    سردار صاحب نے مجھ سے گوڑگانواں میں کہا تھا کہ وہ کچھ عرصہ پہلے شملے میں تھے۔ وہاں ایک پارٹی تھی جس میں سرڈگلس نیگ (اس زمانے کے چیف جسٹس) بھی تھے۔ وہ اس کے خلاف بہت کچھ لکھ چکے تھے۔ سردار صاحب کو حیرت ہوئی۔ جب سرڈگلس نے ان سے ملنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ بہر حال ان دونوں کی ملاقات ہوئی اورچیف جسٹس نے ان کے قلم کی توانائی کی بہت تعریف کی اور کہا، ’’میں ایسے آدمیوں کا دوست ہوں۔ اگرمیں کبھی تمہارے کام آسکا تو یقین ماننا کہ میں تمہاری ضرور مدد کروں گا۔‘‘

    جہاں تک میں سمجھتا ہوں سرڈگلس کے اس وعدے کو سردار دیوان سنگھ کی بریت میں کافی دخل ہونا چاہیے۔

    مقدمہ دیر تک چلتا رہا۔ دیوان صاحب جیل میں تھے۔ اس مقدمے کی روداد بڑی دلچسپ تھی۔ استغاثے کی طرف سے یہ کہانی پیش کی گئی تھی کہ دیوان سنگھ نے کچھ جعلی نوٹ چلانے کی خاطر اپنے دوست جیون لال منٹو کو ایک لفافے میں لاہور بھیجے تھے جو راستے ہی میں پولیس نے اپنے قبضے میں لے لیے۔ لفافے میں ایک ٹائپ کیا ہوا خط بھی تھا۔ یہ ثابت کرنے کے لیے کہ یہ خط دیوان صاحب نے اپنے دفتر کے ٹائپ رائٹر پر تیار کیا تھا، عدالت میں اسے بھی پیش کیا گیا۔

    خط میں حرف ’او‘ اور ’بی‘ کے پیٹ کثرتِ استعمال سے بھر گئے تھے۔ہائی کورٹ میں جب پیش کردہ ٹائپ رائٹر کی تحریر کا نمونہ لیا گیا تو ’’او‘‘ اور ’’بی‘‘ کے پیٹ بالکل صاف تھے۔ اس کے علاوہ جب صفائی کی طرف سے یہ استفسار کیا گیا کہ لفافہ جو کہ بقول استغاثہ دیوان سنگھ مفتون نے جیون لال منٹو کو بھیجا، اس پر دہلی کے ڈاک خانے کی مہر گیارہ جنوری کی تاریخ بتاتی ہے اور لاہور کے ڈاک خانے کی مہر ظاہر کرتی ہے یہ لفافہ پندرہ جنوری کو ’’ڈیلور‘‘ ہوا۔ گیارہ تاریخ کا چلا ہوا لفافہ مکتوب الیہ کو زیادہ سے زیادہ تیرہ تاریخ کی صبح کو مل جانا چاہیے تھا۔ (تاریخیں غلط ہیں، اصل تاریخیں مجھے یاد نہیں رہیں) تین دن یہ لفافہ کہاں بھٹکتا رہا۔

    یہ سوال اٹھنا تھا کہ ایک ہنگامہ برپا ہوگیا۔ استغاثہ اس کا کوئی معقول جواب نہ دے سکا اور آئیں بائیں شائیں کرتا رہا۔ یہ نکتہ ملزم کو شک کا فائدہ بخشنے کے لئے کافی تھا۔ چنانچہ دہلی میں (ان دنوں میں آل انڈیا ریڈیو میں ملازم تھا) اخباروں میں یہ خبر دیکھی کہ سردار دیوان سنگھ مفتون ایڈیٹر’ریاست‘ دہلی، جعلی نوٹ بنانے کے مقدمے میں صاف بری کردیے گیےہیں۔

    دوسرے دن صبح آٹھ نو بجے کے قریب حسن بلڈنگز، نکلسن روڈ کے فلیٹ نمبر نو (میں یہاں رہتا تھا) کے دروازے پر دستک ہوئی۔ میری بیوی نے دروازہ کھولا۔ معلوم ہوا کہ دیوان صاحب ہیں۔ میں نے دوڑ کر ان کا استقبال کیا۔ انہوں نے مجھے بازوؤں میں لے لیا اور ’’گھٹ گھٹ جھپیاں پائیں۔‘‘

    پیشتر اس کے کہ میں انہیں مبارک بار دیتا، انہوں نے مجھ سے کہا، ’’سبحان اللہ۔۔۔ لطف آگیا۔‘‘

    میں نے ان سے پوچھا، ’’کس بات کا؟‘‘

    آپ نے جواب دیا، ’’میں نے جیل میں آپ کی کتاب ’منٹو کے افسانے‘ پڑھی۔ اس کا انتساب خوب تھا۔ اخبار دین دنیا کے نام جس میں میرے خلاف سب سے زیادہ گالیاں چھپیں۔۔۔ میں آج صبح دہلی آیا ہوں۔ میں نے سوچا سب سے پہلے چل کر منٹو صاحب کو داد دینی چاہیے۔‘‘

    اس سے مجھ پر ثابت ہوا کہ شے لطیف ان میں بدرجہ اتم موجود ہے۔

    ٹائپ رائٹر میں ’’او‘‘ اور ’’بی‘‘ کی’کیز‘ کیسے تبدیل ہوئیں۔ لفافہ اتنی دیر کے بعد کیوں’’ڈیلور‘‘ ہوا۔ یہ ایک راز ہے جو سدا راز رہےگا۔ جب میں نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو وہ یہ کہہ کرٹال گیے، ’’منٹو صاحب، یہ ہاتھ کی صفائی ہے۔‘‘ ہاتھ کی صفائی ہو یا پاؤں کی۔ استغاثے کی طبیعت یقیناً صاف ہو گئی تھی۔

    دیوان صاحب کو مجھ سے پیار ہے۔ مولانا چراغ حسن حسرت کا وہ احترام کرتے ہیں۔ ہم دونوں دہلی میں تھے، ان کوجب بھی فرصت ہوتی، ہمیں ڈھونڈ نکالتے اور کسی دور دراز خاموش مقام پر لے جاتے۔ وہاں ہم سب بیٹھ کر پیتے، گپیں لڑاتے پھر وہ ہم دونوں کو گھر چھوڑ جاتے۔ ایسی نشستو ں میں کوئی سیاسی یا ادبی بات نہیں ہوتی تھی۔

    ایک لطیفہ سنیے جو انہوں نے خود مجھے سنایا۔ انتہائی مفلسی کے دن تھے کہ ان کا ایک دوست آن وارد ہوا۔ پہلے تو وہ بہت سٹپٹائے کہ جیب میں ایک دھیلا بھی نہیں تھا لیکن فوراً ان کو ایک ترکیب سوجھی۔ بارہ لیمن کی بوتلیں منگوائیں۔ دو دوست کو پلائیں، دو خود پئیں باقی آٹھ غسل خانے میں خالی کردیں اور نوکر سے کہا، جاؤ یہ بارہ خالی بوتلیں بیچ آؤ۔ جنگ کا زمانہ تھا۔ گولی والی بوتلیں اچھے دام لے آئیں، چنانچہ دوست کو رات کا کھانا کھلانے کا مسئلہ حل ہوگیا۔ دوسرے تیسرے روز انہوں نے دکاندار کو بارہ بوتلوں کی قیمت ادا کردی۔

    ایک زمانہ آیا کہ وہ آل انڈیا ریڈیو کے جانی دشمن ہوگئے۔ بس پھر کیا تھا ہر پروگرام سنتے۔ ایک رجسٹر تھا جس میں کئی خانے بنے تھے۔ اس میں درج تھا کہ ریڈیو کے کس افسر کا کس گانے والی سے ٹانکا (یہ لفظ ان کی خاص الخاص ایجاد ہے) ہے۔اگر کوئی گانے والی کسی وجہ سے پروگرام میں شریک نہ ہوسکتی اور اس کی جگہ کسی اور کو گوایا جاتا تو ان کو فوراً معلوم ہو جاتا، کس افسر کی مہربانی ہوئی ہے۔

    بہت دیر تک وہ ذوالفقار بخاری کے خلاف لکھتے رہے۔ آخر جگل کشور (حال احمد سلمان ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ریڈیو پاکستان) پر پل پڑے۔جگل کشور پہلے کلکتے میں تھے۔ دہلی تبدیل ہو کر آئے تو ان کو وہاں ایک بنگالن نے محبت نامے بھیجنے شروع کیے۔ جگل کو حیرت تھی کہ یہ خط میرے پاس نہیں پہنچتے۔ مفتون کو ملتے ہیں۔ یہ بھی غالباً ہاتھ کی صفائی تھی۔ بہر حال میں نے منت خوشامد کرکے جگل صاحب کی گلوخلاصی کرائی اور ان سے درخواست کہ بنگالن کے خطوط دے دیجئے۔ آپ نے مسکرا کرکہا، ’’میں اتنا بیوقوف نہیں۔ اگر آپ کا دوست یہ خط پڑھنا چاہتا تو میں نقل کراکے اس کو بھجوادوں گا۔‘‘

    میں نے زیادہ زور دینا مناسب نہ سمجھا۔

    دہلی میں ایک شخص جو امرتسر کا یعنی میراہم شہر تھا، سخت پریشانی کے عالم میں میرے پاس آیا۔ اس کا چھوٹا بھائی ایک لڑکی کو بھگا کر دہلی لے گیا تھا۔ اس کے وارنٹ گرفتاری جاری ہو چکے تھے۔ وہ اس معاملے کو سلجھانے کے لیےمیری مدد چاہتا تھا۔ میں اسے دیوان کے پاس لے گیا۔ انہوں نے سارا ماجرا سن کر حکم دیا، اغوا کرنے والے اور مغویہ کو میرے پاس لاؤ۔

    دوسرے دن دیوان صاحب سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھ سے کہا، ’’وہ لوگ آگیے تھے۔۔ میں نے سب ٹھیک کردیا۔ سب ٹھیک کر ہی دیا ہوگا ورنہ وہ شخص میرے پاس دوبارہ ضرور آتا۔‘‘

    دیوان سنگھ کی معلومات کے ذریعے بہت وسیع ہیں۔ پاکستان میں کسی کے فرشتے کو بھی معلوم نہیں تھا کہ قائداعظم زیارت میں خطرناک طور پر علیل ہیں، لیکن’ریاست‘ میں اس مضمون کا ایک نوٹ، گو بہت ہی دل آزار دو ہفتے پہلے شائع ہو چکا تھا، جس میں دیوان صاحب نے اپنے مخصوص ظالمانہ انداز میں لکھا تھا کہ قائداعظم محمد علی جناحؒ بسترِ مرگ پر ہیں میری دعا ہے کہ زندہ رہیں اور پاکستان کو۔۔۔

    اب ریاستیں نہیں رہیں۔ راجے ہیں نہ مہاراجے جو ان کے دل پسند کھلونے تھے مگر سردار دیوان سنگھ مفتون نے یقیناً اور کھلونے چن لیے ہوں گے۔ راجہ نہیں ہوگا کوئی وزیر ہوگا، مہارانی نہیں ہوگی تو کسی بہت بڑے سرمایہ دار کی کھل کھیلنے والی دھرم پتنی ہوگی۔ مفتون کا جنون کیسے فارغ بیٹھ سکتا ہے۔

    لوگ اسے بلیک میلر، دغا باز، چور اچکا کہتے ہیں مگر وہ اپنے پہلو میں انسانیت دوست دل رکھتا ہے۔ پچھلے فسادات میں اس نے جتنے مسلمانوں کو خونخوار سکھوں اور ہندوؤں سے بچایا، جتنی مسلمانوں عورتوں اور ان کے بچوں کو پناہ دی، ان کے دل سے اس کے لئے جو دعائیں نکلی ہوں، میرا خیال ہے کہ وہ اس کی مغفرت کے لیے کافی ہیں۔

    پچھلے دنوں میں بہت سخت بیمار تھا۔ میو ہسپتال کے اے وارڈ میں مجھ پر نیم بے ہوشی اور بے ہوشی دس پندرہ روز تک طاری رہی۔ میری بیوی اور بہن نے مجھے بتایا کہ اس عالم میں بار بار میں سردار دیوان سنگھ مفتون کو یاد کرتا تھا۔ میں ان سے کہتا، جاؤ ٹیلی فون کرو اور دیوان صاحب سے کہو کہ منٹو بلا رہا ہے ان سے بہت ضروری کام ہے۔

    وہ سمجھاتے تھے کہ تم لاہور میں ہو لیکن میں بضد تھا، نہیں میں دلی میں ہوں۔ تم جاؤ اور دیوان صاحب کو ٹیلی فون کرو۔ وہ فوراً آجائیں گے۔

    گو ان دنوں عالم برزخ میں تھا۔ ہونے نہ ہونے کے درمیان معلق تھا۔ میرا دماغ دھند میں لپٹا ہوا تھا مگر مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جہاں میرا بستر تھا، اس سے کچھ دور فاصلے پر ایک دروازہ تھا۔ اس کے آگے ایک بہت بڑا ہال جس میں دو یورپی بچے پنگ پانگ کھیلتے رہتے تھے۔ اس کو طے کرجائیے تو باہر پلازہ سینما (دہلی) کا گیٹ آجاتا ہے مگر افسوس کہ یہ ہر وقت بند رہتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ میں بار بار لوگوں سے درخواست کرتا کہ وہ ٹیلی فون کرکے سردار دیوان سنگھ مفتون کو بلائیں۔ مجھے کون سا ضروری کام تھا، اس کے متعلق مجھے کچھ معلوم نہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ میرے قریب قریب ماؤف دماغ میں صرف دیوان صاحب کی یاد کیسے باقی رہی۔

    مأخذ:

    لاؤڈ اسپیکر (Pg. 6)

    • مصنف: سعادت حسن منٹو
      • ناشر: ساقی بک ڈپو، دہلی
      • سن اشاعت: 1987

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے