قیامت بن کے ٹوٹی وہ کبھی بن کر عذاب آئی
بلائے ناگہانی سے نہیں کم میری ہمسائی
وہ قینچی کی طرح اپنی زباں جس دم چلاتی ہے
وہ خود سر ایک پل میں سارا گھر سر پر اٹھاتی ہے
زباں کے ساتھ انگشت شہادت بھی نچاتی ہے
مجھے جو بات بھی ہو یاد فوراً بھول جاتی ہے
یہ سچ ہے اس کے آگے چل نہیں سکتی زباں میری
نہیں منت کش تاب شنیدن داستان میری
مرے گھر کا تو چوپٹ سارا کاروبار ہے اس سے
محلہ درد سر کا مستقل بیمار ہے اس سے
فقط اک میں نہیں ساری گلی بے زار ہے اس سے
جسے دیکھو شکار رنجش آزار ہے اس سے
نرالی وضع ہے سارے زمانے سے نرالی ہے
وہ ظالم کون سی بستی کی یارب رہنے والی ہے
یہاں تک سلسلہ پہنچا ہے اس کی کم بیانی کا
وہ نو بچوں کی ماں ہے پھر بھی دعویٰ ہے جوانی کا
وسیلہ ہے یہی احساس اس کی شادمانی کا
بہت کمزور پہلو ہے یہ اس کی زندگانی کا
بوا کہہ کر پکارے جو اسے سو سو سناتی ہے
وہ اس پیرانہ سالی میں بھی باجی کہلواتی ہے
گلہ خویش و اقارب کا ہے عنوان سخن اس کا
خسر کی ساس کی نندوں کی غیبت ہے چلن اس کا
زباں تلوار ہے اس کی دھماکا ہے دہن اس کا
نہ کیوں ہو سب محلے پر مسلط مکر و فن اس کا
لڑائی میں نہ کام آتی ہیں تقریریں نہ تکراریں
کہ اس کی ایک آہٹ سے لرز جاتی ہیں دیواریں
مرے گھر میں وہ جب آئی بوقت خورد و نوش آئی
تکلف ہی روا رکھا نہ جھجکی اور نہ شرمائی
اڑا کر لے گئی جھٹ سے مرے حصے کی بالائی
یہ اس کی بے حجابی کی ہے ادنیٰ کار فرمائی
وہ دن میرے لیے یوم مصیبت بن کے آیا ہے
مری امی نے جب اس کلموئی کو منہ لگایا تھا
مزا جاتا رہا جینے کا ہمسائی ملی اچھی
اگر گزرے تو گزرے کس طرح اب زندگی اچھی
نہ اس کی دشمنی اچھی نہ اس کی دوستی اچھی
کسی کے واسطے اس کی نہیں ہم سائیگی اچھی
مقدر نے بھلا ہم سے مذاق آخر کیا کیا ہے
خدا یا جس خطا کی یہ سزا ہے وہ خطا کیا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.