تماشا مرے آگے
میں شہر کراچی سے کہاں بہر سفر جاؤں
جی چاہتا ہے اب میں اسی شہر میں مر جاؤں
اس شہر نگاراں کو جو چھوڑوں تو کدھر جاؤں
صحرا مرے پیچھے ہے تو دریا مرے آگے
اس شہر میں کچھ حسن کا معیار نہیں ہے
بیوٹی کی ضرورت سر بازار نہیں ہے
یوسف کا یہاں کوئی خریدار نہیں ہے
شو کیس میں بیٹھی ہے زلیخا مرے آگے
اس باغ میں کچھ قدر نہیں نغمہ گری کی
الٹی ہے یہاں چال نسیم سحری کی
حد ہو گئی کج فہمی و آشفتہ سری کی
بلبل کو برا کہتا ہے کوا مرے آگے
رشوت بھی یہاں ایک مرض ہے متعدی
اپنا تو یہی پیشہ ہے آبائی و جدی
لا بیچوں گا منسوخ شدہ نوٹوں کی ردی
جو میں نے کیا تھا وہی آیا مرے آگے
اک چیز ہے اس شہر کراچی کا گدھا بھی
ہشیار بھی احمق بھی پرانا بھی نیا بھی
کم بخت کو آتی نہیں تہذیب ذرا بھی
کرتا ہے سر بزم وہ غمزہ مرے آگے
ہوٹل میں یہاں جاؤ تو آواز یہی آئے
اس بھائی کا دو آنا ادھر ایک کڑک چائے
اس سیٹھ کا اک گردہ چچا جان کے دو پائے
مرغی کا جو آرڈر ہے اسے چولھے میں ڈالو
اس سیٹھ کا بھیجا ذرا جلدی سے نکالو
اک میٹ فرائی کرو اک انڈا ابالو
یہ سیٹھ جو بیٹھا ہے اسے قیمہ بناؤ
صاحب کی سری ٹھنڈی ہے کچھ آنچ دکھاؤ
چائے میں شکر مارو اسے لمبا پکاؤ
میرے نے جو بولا ہے وہی میرے کو لاؤ
اردو میں یہ فرماتا ہے بیرا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
- کتاب : Kulliyat Dilawar Figar (Pg. 335)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.