Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ادھار

MORE BYفرقت کاکوروی

    ہم کو ملازمت جو کھڑے گھاٹ مل گئی

    باچھوں کی ناؤ کانوں کے ساحل سے جا لگی

    چٹھی پھر ان کو ہم نے بصد شوق یوں لکھی

    ''آیا کرو ادھر بھی مری جاں کبھی کبھی''

    دل نے کہا کہ جھوم کے نعرے لگائیے

    تختی لگا کے پیٹھ سے اب گھوم جائیے

    آ جائیے تو مل کے مہاجن کو لوٹ لیں

    قرضہ وہ لیں کہ اصل کبھی دیں نہ سود دیں

    وہ قرض پھر لیے ہیں کہ اللہ کی پناہ!

    روپے اسی سے لیں مری جس پر پڑی نگاہ

    پھر اس کے بھاگنے کی بھی چھوڑی نہ کوئی راہ

    سب کے لنگوٹی بندھ گئی، حالت ہوئی تباہ

    یارا نہ تھا فغاں کا، نہ موقع تھا آہ کا

    پتا پھٹا ہوا تھا ہر ایک قرض خواہ کا

    قرضے پہ ہم نے ایک مکان ایسا لے لیا

    جس میں کہ دو طرف سے تھا جانے کا راستہ

    جب سارے قرض خواہوں کو اس کا پتہ چلا

    ہر فرد لے کے اپنا بہی کھاتا آ گیا

    تھا ہر طرف سے شور کہ تشریف لائیے

    سناٹا کہہ رہا تھا کہ ڈنڈے بجائیے

    پہلی جو آئی ایک قیامت مچا گئی

    بل لے کے قرض خواہوں کی اک فوج آ گئی

    ہر قرض خواہ حد ادب لانگنے لگا

    دل اپنی مغفرت کی دعا مانگنے لگا

    ہر سمت لاد لاد کے گرنے لگے جو بم

    گرمایا دل تو آیا طبیعت میں پیچ و خم

    رہ رہ کے اپنی بوٹیاں ہم نوچنے لگے

    اور خودکشی کی راہ نئی سوچنے لگے

    ہے قرض کی یہ شان کہ لو اور کبھی نہ دو

    دس بیس ہاتھ کھاؤ تو دو چار خود دھرو

    مرنے پہ قرض خواہوں کے چندے سے یوں اٹھو

    دمڑی نہ اپنی خرچ ہو اس ٹھاٹھ سے مرو

    چھ سات سال قرض کے پیسے نہ جب دئیے

    دس بیس سود خوار تو یونہی ڈھلک گئے

    جو ادھ موئے تھے وہ بھی تھے کچھ ایسے کج روے

    بے صبر ہو کے بولے حضرت ہم تو اب چلے

    وہ ہم نے قرض خواہوں کی مٹی پلید کی

    وہ خود تو مر گئے پہ رقم ان کی رہ گئی

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے